Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, February 13, 2020

کیا عام آدمی پارٹی دلی سے باہر بھی سیاست کرے گی۔۔۔۔ایک تجزیہ۔


 دلی کو تیسری بار فتح کرنے کے بعد یہ سوال ہونے لگا ہے کہ کیا اروند کیجریوال کی عام آدمی پارٹی انڈیا کی دیگر ریاستوں میں بھی اپنی قسمت آزمائے گی؟

نٸی دہلی /صداٸے وقت /بذریعہ نماٸندہ خاص۔
=============================
نومبر 2016 میں دلی کے وزیر اعلیٰ ہاؤس میں اروند کیجریوال نے بی بی سی ہندی کو دیے ایک انٹریو میں کہا تھا ’ہم آگے چل کر لوک سبھا کے انتخابات میں بھی بہت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے۔ عام آدمی پارٹی انڈیا کی شمال مشرقی اور جنوبی ریاستوں میں بھی اپنی قسمت آزمائے گی کیونکہ عوام ایمانداری پسند کرتے ہیں۔‘
2014 کے عام انتخابات میں عام آدمی پارٹی (عاپ ) نے پنجاب میں چار لوک سبھا سیٹوں پر فتح حاصل کی تھی جبکہ دلی کی ساتوں سیٹوں پر انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ان تمام سیٹوں پر بھارتیہ جنتا پارٹی نے جیت حاصل کی تھی۔
ان انتخابات میں خود اروند کیجریوال اس وقت کے وزیر اعظم کے عہدے کے امیدوار نریندر مودی کا مقابلہ کرنے بنارس پہنچے تھے۔ نریندر مودی نے انہیں تین لاکھ ووٹوں سے شکست دی تھی۔ لیکن بی جے پی کا گڑھ سمجھے جانے والے بنارس میں کیجریوال کو تقریباً دو لاکھ ووٹ ملنا ایک بہت بڑی بات تھی۔
اس کے بعد دلی کے اسمبلی انتخابات میں آپ پارٹی نے کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی کو صاف کر دیا تھا۔ دلی کی 70 سیٹوں پر انہوں نے 67 سیٹوں پر فتح حاصل کر کے تاریخ رقم کی۔
لیکن اس کے فوراً بعد آپ پارٹی کے اندر اختلافات بڑھنے لگے۔ دانشور اور سماجی کارکن یوگیندر یادو اور پرشانت بھوشن کو پارٹی سے ’برخاست‘ کیا گیا اور 2017 کے پنجاب اسمبلی کے انتخابات میں عام آدمی پارٹی کو بھاری شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
سینیئر صحافی پردیپ سنگھ کہتے ہیں ’پنجاب میں کیجریوال کی شکشت کی ایک بڑی وجہ یہی تھی کہ وہاں انہوں نے یہ کہنے سے گریز کیا کہ اگر ان کی پارٹی پنجاب میں جیت حاصل کرے گی تو وہ خود دلی چھوڑ کر پنجاب نہیں آئیں گے۔ اگر وہ ووٹرز کو یہ یقین دلاتے تو شاید وہ کبھی نہ ہارتے۔‘
پنجاب میں شکست کے بعد کیجریوال نے 2019 کے عام انتخابات میں قومی سطح پر آگے بڑھنے کی ایک بار پھر کوشش کی لیکن نتیجہ وہی نکلا۔
آپ پارٹی نے 40 سیٹوں پر انتخابات میں حصہ لیا لیکن پنجاب اسمبلی کی ایک سیٹ کے علاوہ انہیں ہر نشست پر شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
اس کے بعد اروند کیجریوال نے اپنی سیاست کے سٹائل پر زبردست کام کیا۔
کیجریوال ایک سابق انکم ٹیکس افسر ہیں۔
سیاسی تجزیہ کار پورنیما جوشی کہتی ہیں ’کیجریوال کے اندر کشش تو ہے لیکن ان کے پاس وہ ذرائع نہیں ہیں جن کی ضرورت ہے۔ انہیں دو بار قومی سطح پر ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس سے بھی فرق پڑتا ہے۔ حالانکہ کیجریوال بڑے ارادوں کے مالک ہیں اور وہ ضرور دلی کے ماڈل کو باقی ملک میں آزمائیں گے لیکن کب اس کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے'۔
گزشتہ چند مہینوں میں اروند کیجریوال نے جو محتاط رویہ اختیار کیا ہے اس سے یہ بات واضح ہے کہ انہیں یہ احساس ہو گیا ہے کہ صرف بی جے پی اور نریندر مودی کے ہر فیصلے پر تنقید اور صبح شام ان کی مخالفت کرنے سے بات نہیں بنے گی۔
آسام میں این آر سی کا نفاذ ہو یا پورے ملک میں شہریت کے متنازعہ قانون سی اے اے کی مخالفت میں ہونے والے مظاہروں پر اروند کیجریوال اور ان کی پارٹی نے بہت ’محتاط ردعمل‘ کا مظاہرہ کیا ہے۔
شاہین باغ کے مظاہرے پر بھارتیہ جنتا پارٹی کے ہر چھوٹے بڑے رہنما نے رائے دی اور اسے دلی الیکشن کا اہم معاملہ بھی بنایا لیکن اروند کیجریوال ایک لمبے وقت تک اس بارے میں خاموش رہے۔
ویسے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عام آدمی پارٹی کی طرح دیگر سیاسی پارٹیوں نے بھی قومی سطح پر اپنی قسمت آزمانے کی کوشش کی اور مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی اس کی ایک بڑی مثال رہی ہے۔
اس بارے میں پورنیما جوشی کا کہنا ہے ’عام طور پر علاقائی پارٹیوں کا قومی سطح پر عروج کوئی آسان کام نہیں ہوتا ہے۔ ایک وقت تھا جب اترپردیش کے علاوہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی ووٹ بینک ہوا کرتا تھا لیکن وہ کہیں بھی حکومت نہیں بنا سکیں۔ آج وہ اترپردیش میں بھی اپنی ساکھ بچانے کی جدوجہد کررہی ہے۔‘
پردیپ سنگھ اس بارے میں کہتے ہیں ’اروند کیجریوال اور مایاوتی دونوں کے بارے میں ایک بات عام ہے کہ انہیں لگتا ہے کہ پارٹی میں ’مجھ سے زیادہ بڑا اور مقبول نہ ہو‘۔ یہ بات دوسری ریاستوں میں ان کے حق میں نہیں ہو
 کیونکہ ہوسکتا ہے کہ وہاں کوئی علاقائی لیڈر اتنا مقبول اور اثر و رسوخ والا ہو جو ان کی چمک کم کر دے۔‘
اروند کیجریوال کے ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ وہی کرتے ہیں جو انہیں خود کو اچھا لگتا ہے۔
لیکن دلی میں ان کی شاندار جیت کے بعد ان کے ناقدین بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ فی الحال یہ بات صاف ہے کہ اروند کیجریوال دلی کو بہتر طریقے سے سمجھتے ہیں۔
بزنس سٹینڈرڈ اخبار کی سیاسی مدیر ادیتی فڈنیس کا خیال ہے کہ ’آپ پارٹی کی حالیہ فتح واقعی تاریخی ہے لیکن دلی سے آگے بڑھنے کے لیے انہیں مزید محنت کرنے کی ضرورت ہے۔‘
ان کا مزید کہنا ہے کہ ’انڈیا کی سیاست میں ایک مضبوط اور متحد اپوزیشن پارٹی کی جگہ خالی ہے لیکن اس کے لیے جس طرح کی تیاری کرنی پڑتی ہے وہ مشکل تو ہے ہی لیکن یہ ایک طویل عمل ہے۔‘
اروند کیجریوال کی دلی میں بڑی کامیابی کے بعد اب ہر چھوٹی بڑی سیاسی پارٹی کی ان پر نظر ہے اور سب سے زيادہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی کیونکہ کسی کو نہیں معلوم کہ آئندہ عام انتخابات میں دلی کی طرح اس کے مد مقابل جو پارٹی کھڑی ہو وہ کوئی اور نہیں بلکہ عام آدمی پارٹی ہو۔