Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, February 22, 2020

دیواروں سے مل کر رونا اچھا لگتا ہے !!!

از/حمزہ فضل اصلاحی ممبٸی /صداٸے وقت
=============================
 دیوار کے فوائد بھی ہیں نقصانات بھی۔ دنیا بھر میں کئی مشہور دیواریں ہیں جیسے دیوار چین اور دیوار برلن، ان کی اپنی اپنی تاریخ ہے، داستانیں ہیں، دیومالائی قصے اور کہانیاں بھی۔ یہ ان کی تفصیل کا موقع نہیں ہے۔ دیواروں کے محاورے اور کہاوتیں بھی ہیں۔ کوئی کسی خطرے سے کسی کی حفاظت کرتا ہے یا اپنے عزم اور حوصلے سے خطرے کو ٹال دیتا ہے تو کہاجاتا ہےکہ وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گیا۔ اسی طرح کسی کو دیوار سے لگایا بھی جاتا ہے۔ سنا جاتا ہےکہ کسی زمانے میں دیواروں میں چنوایا بھی جاتا تھا۔
 اور اور تو دیواریں سنتی بھی ہیں۔ ان کے کان بھی ہوتے ہیں۔ اب بولنے بھی لگی ہیں، کاتب یا فنکار انہیں زبان دیتے ہیں، ان پر آڑی ترچھی لکیریں بناتے ہیں، انہیں لفظوں اور جملوں سے سجاتے ہیں۔ ان کے ذریعہ لکیر کے فقیر سماج کو سبز باغ دکھاتے ہیں، چلتے چلتےانگریزی کا ماہر بنانے کا دعویٰ کرتے ہیں، بیٹھے بیٹھے مضر اور مہلک بیماریوں سے نجات دلانے کا راستہ بتاتے ہیں، پلک جھپکتے ہی دولت کا انبار لگانے کا جادوئی نسخہ بھی سجھاتے ہیں۔ اس طرح کسی کو چونا لگانے کیلئے رنگ و روغن کی ہوئی دیواریں ضروری نہیں ہیں بلکہ یہ سب کسی بھی اور کسی کی بھی دیوار پر کیا جاسکتا ہے۔ کسی کی پرانی دیوار پر فن کا مظاہرہ کرنے کے زیادہ مواقع ہیں۔ ظاہر ہے کہ کوئی بھی ہنسی خوشی ٹاٹ میں مخمل کا پیوند لگانے کی اجازت دے ہی دے گا۔ یہ دیواریں رشتوں میں بھی حائل ہوجاتی ہیں، خون کے رشتوں کو بھی نہیں چھوڑتیں۔ سنئے عباس تابش کیا کہہ رہے ہیں: ’’بیٹھتا اٹھتا تھا میں یاروں کے بیچ = ہو گیا دیوار دیواروں کے بیچ‘‘
 اونچ نیچ کی دیوار کے بارے میں بچپن سے سنتے ہیں، بارہا کہا گیا کہ یہ دیوار ڈھے چکی ہے مگر اس کی بنیاد پر فرق نہیں پڑا ہے، اس کی جڑیں اور گہری ہوگئی ہیں۔ یہ اچھے اچھوں کی دماغ میں اگ رہی ہے۔ ہم اس کی اینٹیں زندگی بھر سنبھال سنبھال کر رکھتے ہیں، پھر انہیں خاموشی سے  اپنے بیٹوں پوتوں کے حوالے کرکے دنیا سے چلے جاتے ہیں۔ پھر وہ اسے  گلے کا تعویذ بنالیتے ہیں۔ آپ دیکھئے کہ اسی کی بنیاد پر نئی نئی دیواریں کھڑی ہورہی ہیں۔ مہذب سماج میں مہذب دیواریں بن رہی ہیں۔ نظر اٹھا کر دیکھئے ہرطرف دیواریں ہی دیواریں ہیں۔
           حمزہ فضل اصلاحی۔

 تازہ دیوار کو سوشل میڈیائی مجاہدوں نے ’دیوار قہقہہ‘ بنا دیا ہے۔ اس کے نیچے یا اس کی تصویروں کے نیچے بیٹھ کرخوب ہنس رہے ہیں اور ہنسا رہے ہیں، دراصل یہ دیوار ماتم (دیوار گریہ نہیں) ہے۔ اس کی جڑوں میں رہنے والے خود کو کیا سمجھتے ہوں گے۔ وہ پوچھتے ہوں گے کہ آپ اپنے جیسے انسانوں کو اتنا گیا گزرا سمجھتے ہیں؟ کیا وہ روتے نہیں ہوں گے؟ چلئے اچھا ہے جو کبھی پکی دیوار بنانے کا خواب بھی نہیں دیکھے ہوں گے، اب وہ قیصر الجعفری کے الفاظ میں ان دیواروں سے مل کر رو لیں گے، جی بھر کے رو لیں گے۔ ویسے بھی کچی دیواروں سے مل کر رونا اچھا نہیں  ہے، کیونکہ کچی دیواریں آنسو جذب کرنے سے کمزور ہوجاتی ہیں۔ اس دیوار کو بچانے کیلئے لوگ آنسو پی جاتے ہیں۔ آنسو کے سامنے دیوار کھڑی کرتے ہیں۔ ان کے بچے بھی ان دیواروں کو چھو لیں گے، اگران پر کانٹے نہیں لگائے ہوں گےتو گھڑی دو گھڑی کے لئے ان پر بیٹھ کر دم لے لیں گے۔ ایک ’غریب (فقیر پڑھئے)‘ کا قصیدہ پڑھنے والے صحافیوں سے جب کہا جاتا ہے کہ ذرا اس دیوار کو دکھائیے بھائی تو وہ کسی دیوار کے سایے میں چھپ جاتے ہیں۔ امید کا دامن مت چھوڑیئے۔ ایک دن ضرور کوئی نہیں کئی دیوانے اس اونچ نیچ کی دیوار کو دیوار سے لگادیں گے، اس دیوار کو دیوار میں چنوائیں گے نہیں چن دیں گے۔ کچھ نہیں بن پڑے گا تو اپنا سر ہی دیوار پر دے ماریں گے۔
- حمزہ فضل اصلاحی