Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, February 2, 2020

ان شاء اللہ ان شاء اللہ۔

از/مفتی انور خان /صداٸے وقت 
============================== 
 جامعہ ملّیہ کے مظاہرین پر دو مرتبہ فائرنگ اور شاہین باغ پر دشمن کے حملوں سے یہ ثابت ہے کہ اس طرح کے احتجاج اور دھرنے زیادہ مؤثر ہیں جس کا چلن عام ہوجانے سے دشمن کے شیطانی منصوبوں پر خاک پڑ رہی ہے.

ملک کی تمام تنظیمیں اپنے طور پر یا کُل جماعتی سطح پر پوری قوّت کے ساتھ سڑکوں پر دھرنے کےلئے مستعد ہوجائیں اور نئے دور کی نئی جدوجہد سے دشمن کے دانت کھٹّے کردیں.

 ستر کی دہائی میں مِل مزدوروں کی یونینوں کے بھارت بند کے بجائے بامسیف کے وامن میشرام کو چاہئے کہ وہ بامسیف کو جگہ جگہ چلنے والے "شاہین باغ" میں مسلمانوں سے جوڑدیں اور جہاں جہاں ان کی تنظيم کو استحکام حاصل ہے وہاں دلتوں اور دیگر پسماندہ ذاتوں کے ذریعہ "شاہین باغ" کی بنیاد ڈال دیں.

 جنگِ آزادی کے دوران نہتّے بھارتیوں نے مسلّح انگریزوں کے خلاف ستیہ گرہ اور مظاہرے کرکے دشمن کو ناکوں چنے چبوائے تھے، اور آج بھی وہی نسخہ اثر کرےگا.

 موجودہ حکومت کے یوگی آدتیہ ناتھ، انوراگ ٹھاکر اور کپل مشرا جیسے اہلکار جب جمہوری مظاہرین پر گولیاں داغنے کی ترغیبیں دے رہے ہیں، اس سے یہ یقین پختہ ہوچلا ہے کہ اس عہد کے سیاسی شیطان کے لئے اس طرز کے دھرنے "تعوّذ" کا کام دے سکتے ہیں.

 آج عام بھارتیوں کا دشمن اپنی طاقت کے نشے میں چُور ہے اور سانڈ کی طرح دندناتا پھر رہا ہے اس کی ٹانگوں میں لکڑی کا لاگ یہی دھرنے بنے ہوئے ہیں، لہذا اس کی افادیت کو سمجھنا اور سمجھانا ہوگا.

 اِن احتجاجات میں خواتین سرد راتوں میں دھرنے پر بیٹھی ہوئی ہیں اور مرد جاگ جاگ کر ساتھ نبھا رہے ہیں، یہ عمل خود تحریک ہے جو متعلقین میں زمینی بیداری لانے کا کام کررہا ہے.

 کالے قوانین کے خلاف چکاّجام کرنے کا شاہینی طریقہ اپنے طرز کا بالکل نیا اور کارآمد ٹرینڈ ہے، اور اس میں روزمرّہ کی قربانیاں بھی ہیں، اسی کو لازم پکڑنا اور عام کرنا چاہئے کیونکہ ملک گیر پیمانے پر "ستیہ گرہ" کی جو سونامی اٹھےگی اس کی شروعات ان ہی دھرنوں سے ہونے والی ہے.