Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, February 26, 2020

دہلی میں قتل و غارت کا مجرم کون؟



از/*معصوم مرادآبادی*/ صداٸے وقت۔
==============================

’’ انھوں نے میرانام پوچھا۔میں نے شروع میں انھیں کوئی دوسرا نام بتانے کی کوشش کی ۔ اس کے بعد انھوں نے مجھ سے پینٹ اتارنے کے لئے کہا۔ جب میں نے اپنا نام سرفراز علی بتایا تو انھوں نے مجھے ڈنڈوں سے پیٹ کر آگ میں جھونک دیا۔‘‘
دہلی کے گرو تیغ بہادر اسپتال میں زندگی کی جنگ لڑ رہے سرفراز نے یہ بیان بی بی سی کے نامہ نگارونائک گائیکواڑ کو دیا ہے۔سرفرازعلی 24 فروری کی رات اپنے چچا کے جنازے میں شرکت کے بعد موٹر سائیکل پراپنے والد کے ساتھ گوکل پوری سے آرہے تھے۔ کراسنگ برج پر ایک بے قابو ہجوم نے انھیں اور ان کے والد کونرغہ میں لے لیا۔ وہاں کئی لوگ آجارہے تھے اور بھیڑ ان کے شناختی کارڈ چیک کررہی تھی۔ شمال مشرقی دہلی کے بھجن پورہ، چاند باغ ‘برج پوری،گوکل پوری اور جعفرآباد علاقوں میں پیر کے دن برپا ہونے والے تشدد کے بعد زخمیوں کو اسپتال لے جارہی ایمبولینس کو بھی نشانہ بنایا گیا ۔ سرفراز کو اپنی ایمبولینس سے اسپتال پہنچانے والے نوجوان کا نام ستیہ پرکاش ہے۔
جی ہاں ، یہ دہلی کے شمال مشرقی علاقہ میں گذشتہ پیر اور منگل کے روز پیش آنے والے دلخراش واقعات میں سے ایک ہے ۔ ایک اور کہانی محمد زبیرکی ہے جس کی تصویر عالمی میڈیا تک پہنچی ہے اور یہ  اس درندگی اور بربریت کی گواہ ہے جو یہاں شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت کرنے والوں کے ساتھ برتی گئی ہے۔ یہ بھیانک تصویر آپ نے ضرور دیکھی ہوگی جس میں دس پندرہ وحشی نوجوان محمد زبیر کودرندگی اور وحشت کے ساتھ نشانہ بنارہے ہیں ۔ راقم الحروف نے اپنی 35 برس سے زیادہ کی صحافتی زندگی میں بے شمار فرقہ وارانہ فسادات کی رپورٹنگ کی ہے اور میری یہ دو آنکھیں ایسے بے شمار دل دہلا دینے والے کرب ناک واقعات کی گواہ ہیں جن سے نہتے اور بے قصور لوگوں کو میں نے گذرتے ہوئے دیکھاہے ، لیکن زبیر کی مظلومیت اور حد سے بڑھی ہوئی تکلیف کو دیکھ کر میں بحیثیت انسان ابھی تک اپنے جذبات پر قابو نہیں پاسکا ہوں۔ اس وقت بھی جب کہ میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں میرے سر میں شدید درد ہے۔ وہ علاقہ جہاں درندگی اور بربریت کی دلخراش داستانیں رقم کی گئی ہیں، میری رہائش گاہ سے چند کلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے اور میں نے پوری رات کروٹیں بدلتے ہوئے گذاری ہے۔ صبح کی پہلی کرن کے ساتھ موصول ہونے والی ایک فون کال نے ضرور میرے جذبات کو تھامنے کی کوشش کی ہے۔ یہ کال سینئر صحافی رادھیکا راماسیشن کی تھی جو انگریزی اخبار ’ ٹیلی گراف‘ کی بیورو چیف رہی ہیں اور اپنے سینے میں ایک درد مند دل رکھتی ہیں۔رادھیکا عرصہ سے میری دوست ہیں اور جب بھی انھیں مسلم مسائل پر کچھ لکھنا ہوتا ہے تو وہ مجھ سے رجوع ہوتی ہیں۔ لیکن آج ان کا مقصد محض میری اور میرے اہل خانہ کی خیریت دریافت کرنا تھا۔یہ الگ بات ہے کہ اس گفتگو کے دوران گجرات کی نسل کشی سے لے کر شمال مشرقی دہلی کے تازہ واقعات بھی زیر بحث آئے ۔
میں اس شہر ناپرساں میں چار دہائیوں سے زیادہ عر صہ سے مقیم ہوں اور میں نے قومی راجدھانی میں بہت سے سانحات کا مشاہدہ کیا ہے ۔ لیکن جس درندگی اور بربریت کا مشاہدہ مجھے گذشتہ دوروزمیں ہواہے ، انھیں پوری طرح لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔حالات بہت تشویش ناک ہیں اور میری تشویش کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ یہ سب کچھ مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کی ناک کے نیچے ہوا ہے۔ کیونکہ وہی دہلی کے نظم ونسق کے ذمہ دارہیں اور دہلی کے لیفٹنٹ گورنر کے توسط سے یہاں کے لااینڈ آرڈر کو کنٹرول کرتے ہیں۔دہلی اسمبلی کی انتخابی مہم کے دوران  انھوں نے جو لب ولہجہ اختیار کیا تھا‘ وہ یقینا ملک کا نظم ونسق سنبھالنے والے ایک ذمہ دار شخص کے شایان شان نہیں تھا۔ الیکشن گذرنے کے بعد امید تھی کہ دہلی کی فضا سازگار ہوجائے گی اور نفرت کا وہ ماحول ختم ہوجائے گا جو جان بوجھ کر انتخابی فائدے کے لئے پیدا کیا گیا تھا ۔ لیکن المناک بات یہ ہے کہ انتخابی میدان میں شکست فاش سے دوچار ہونے والے بی جے پی لیڈروں نے اپنی شکست کا انتقام لینے کے لئے ان لوگوں کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا جوسی اے اے کے خلاف پرامن دھرنا دے رہے ہیں۔ انھوں نے سی اے اے کی حمایت کے نام پر وہاں دھاوا بول دیا اور پولیس کو وارننگ دی کہ اگر اس دھرنے کو ختم نہیں کیا گیا تو وہ خود اس کام کو انجام دیں گے۔لہٰذا انھوں نے اگلے روز اپنے مسلح حامیوں کو تشدد برپا کرنے کے لئے میدان میں اتا ردیا۔ اس کے بعدجوکچھ ہوا وہ دنیا کے سامنے ہے۔ اس تشدد میں اب تک 20 سے زیادہ بے قصور افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔اس تشدد کا اثر پورے شہر میں اور ہر طرف کشیدگی پھیلی ہوئی ہے۔ کرفیو کے باوجود متاثر ہ علاقوں سے مزید تشدد کی خبریں موصول ہورہی ہیں۔ شرپسندوں نے مسجدوں اور مزاروں کو بھی درندگی اور وحشت کا نشانہ بنایا ہے۔ حملہ آور منظم انداز میں آئے تھے اور ان کے ہاتھوں میں طمنچے اور خطرناک ہتھیارتھے۔ انھوں نے اپنی شناخت چھپانے کے لئے باقاعدہ ہیلمٹ بھی پہن رکھے تھے۔ 
 شہریت ترمیمی قانون کے خلاف جاری پر امن تحریک کو تشدد کے حوالے کرنے کی کوششیں یوں تو شروع سے ہی ہورہی تھیں لیکن اس معاملے میں مظاہرین نے جس بے مثال تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کیا ہے‘ اس کے نتیجے میں اب تک امن وامان برقرار تھا۔  شاہین باغ اور جامعہ کے مظاہرین پر فائرنگ کرکے انھیں مشتعل کرنے اور انھیں راستے سے بھٹکانے کی کئی کوششیں بھی کی گئیں ، لیکن مظاہرین نے شرپسندوں کی سازشوں کو بھانپ کراپنے کام سے ہی کام رکھا اور وہ پرامن طریقے سے دھرنا دیتے رہے۔ یہ دھرنا شاہین باغ کے علاوہ دہلی کے جن علاقوں میں دیا جارہا تھا ان میں مشرقی دہلی کے بعض علاقے بھی شامل تھے۔ اس پرامن احتجاج کو طاقت کے بل پر ختم کرانے کے لئے بی جے پی کے شکست خوردہ امیدوار کپل مشرا نے مورچہ سنبھالااور پولیس کو دھمکی دی کہ اگر اس نے سی اے اے کے خلاف جاری دھرنا ختم نہیں کرایا تو وہ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔کپل مشرا کا تعلق ماڈل ٹاؤن اسمبلی حلقے سے ہے ، جہاں حال ہی میں بی جے پی امیدوار کے طور پر مقامی باشندوں نے انھیں دھول چٹائی ہے اور وہ عام آدمی پارٹی کے امیدوار کے ہاتھوں شکست فاش سے دوچار ہوئے ہیں ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بی جے پی دہلی میں اپنی شکست فاش کا انتقام یہاں کے مسلمانوں سے لینا چاہتی ہے جنھوں نے حالیہ چناؤ میں کھل کر عام آدمی پارٹی کی حمایت کی اور کئی حلقوں میں بی جے پی کو محض مسلم ووٹوں کی وجہ سے نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ دہلی کے مسلمانوں کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ انہوں نے جس پارٹی کو حالیہ اسمبلی انتخابات میں اپنے ووٹ دیئے ہیں‘ اس کے ہاتھ میں دہلی کا نظم ونسق نہیں ہے بلکہ یہ ذمہ داری مودی سرکار کے ہاتھوں میں ہے جو شہریت ترمیمی قانون کے مخالفین کو ٹھکانے لگانے کی حکمت عملی پر گامزن ہے ۔
کپل مشرا پہلے عام آدمی پارٹی میں تھے اور وہ کجریوال کابینہ میں بھی شامل رہ چکے ہیں، لیکن بعد کو انھیں پارٹی مخالف سرگرمیوں کی وجہ سے باہر کا راستہ دکھادیا گیا تھا۔ اس کے بعد وہ بی جے پی میں شامل ہوگئے کیونکہ وہی ان کا اصل ٹھکانہ تھا۔ ان کے والدین آرایس ایس سے وابستہ تھے۔ بی جے پی میں شمولیت کے بعد دہلی میں فرقہ وارانہ منافرت اور مسلم دشمن جذبات کو بھڑکانے کا ٹھیکہ انھوں نے اپنے سر لے لیا اور وہ انتہائی شتعال انگیزاور مسلم دشمن بیانات دینے لگے ۔ آپ کو یاد ہوگا کہ دہلی میں انتخابات کا اعلان ہونے سے قبل’ ’ دیش کے غداروں کو، گولی مارو سالوں کو ‘ ‘ جیسازہریلا نعرہ سب سے پہلے انھوں نے ہی لگایا تھا۔الیکشن کے دوران ماحول کو پراگندہ کرنے میں انھوں نے کلیدی کردار ادا کیا۔حال ہی میں جب جامعہ ملیہ اسلامیہ کی لائبریری میں پولیس کی بر بریت کی ویڈیو منظرعام پر آئی تھی تو کپل مشرا نے جامعہ کے طلباء کو’ اجمل قصاب ‘سے تشبیہ دی تھی ۔ شمال مشرقی دہلی میں تشدد پھیلانے کے لئے کپل مشرا اور ان کے حامیوں کو ہی مورد الزام قرار دیا جارہا ہے۔ اس معاملہ میں اگر غیر جانب داری کے ساتھ جانچ کی گئی تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوسکتا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ دہلی میں گذشتہ دو ماہ کے دوران جن لوگوں نے اشتعال انگیزی کی ہے اور ماحول کو پراگندہ کیا ہے ‘ان کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کی جائے تاکہ مستقبل میں کوئی اور دہلی کے امن کو غارت کرنے کی ہمت نہ کرسکے۔