Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, February 23, 2020

طلبہ دارالعلوم سے خود ”دار العلوم“ کا خطاب۔


  *از.....رضوان احمد قاسمی منوروا شریف سمستی پور بہار*/صداٸے وقت 
_________________________
        ملکِ عزیز کی موجودہ صورتحال یقیناً تشویش ناک ہے. این آر سی. این پی آر اور سی اے اے کا خوفناک اژدھا باشندگان وطن کے لئے منہ کھولے کھڑا ہے اور تمام تر مظاہروں کے باوجود ایوان حکومت کے فراعنہ اپنی ضد پہ اڑے ہوئے ہیں ایسے میں ہرایک شہری پہ اگرچہ یہ لازم ہے کہ اپنے ملک کی سالمیت کے لیے. اپنے وطن کی جمہوریت کے لئے اور اپنے آئین کے تحفظ کے لئے ہرممکن آواز اٹھائے. اور ہر احتجاج کا بھر پور ساتھ نبھائے....... لیکن یہ کہاں کا انصاف ہے؟ کہ ایسے وقت انسان اپنی حیثیت ہی کھو بیٹھے .....اپنا علمی وقار بھی داؤ پہ لگادے..... اور اپنے آپ کو ایسا فراموش کرڈالے کہ جو چاہے اچک لے جائے
       اے میرے فرزندو! کیا یہ حقیقت نہیں ہے؟ کہ اگر تم مجھ سے منسوب نہ ہوتے تو تمہاری کوئی حیثیت نہ ہوتی.؟ میری گود میں اگر نہ ہوتے تو تمہیں کوئی نہیں پوچھتا؟ میں نے آغوش میں نہ لیا ہوتا تو تمہیں کوئی نہیں جانتا؟..... لیکن ان سب حقائق کے باوجود آخر تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ کہ خود اپنی ماں (ام المدارس) کی توھین کررہے ہو.... اپنی مادر علمی کی سنہری تاریخ پہ کالک پوت رہے ہو اور غیروں کا آلہ کار بن کر خود اپنی حیثیت عرفیہ مجروح بنا رہے ہو..........
        تمہیں یقیناً غصہ آرہا ہوگا کہ بھلا ہم کیسے توھین کررہے ہیں؟ یقیناً بے تاب ہورہے ہوگے کہ یہ سب الزامات کیوں لگ رہے ہیں؟ اور تم تلملا رہے ہوگے کہ اے  مادر علمی! ہم نے تمہاری شان میں کب گستاخی کی ہے؟مگر کیا کہوں؟ کہ تم ابھی بچے اور نادان ہو اسی لئے کوئی تمہیں یہ کہہ کر ورغلا دیتا ہے کہ آؤ میدان عمل میں کود جاؤ. کوئی تمہارے کان میں یوں پھونکتا ہے کہ آج کا دارالعلوم اپنے ماضی سے ھٹ چکا ہے اس لیے اٹھو! اور دارالعلوم کو اپنے ماضی سے جوڑ دو ..... کوئی تمہیں شیخ الھند کی اسارت یاد دلاتا ہے اور تم موجودہ اساتذہ سے اسی کا تقاضا کرنے لگتے ہو......کوئی شیخ الاسلام کی کفن بردوشی کا سراپا کھینچتا ہے اور تم مشتعل ہوکر بےھنگم نعرہ لگادیتے ہو....... کوئی تمہارے سامنے جنگ آزادی میں دارالعلوم کا کردارپیش کرتا ہے تو تم اکابر انتظامیہ سے استعفیٰ کا مطالبہ کربیٹھتے ہو........ ہائے افسوس...... اے میرے فرزندو! مجھے تو تم پر ناز تھا کہ ہماری کوکھ میں مثالی بصیرت کی چھپی تاریخ تم نے ضرور پڑھ لی ہوگی.... ہم تو یہ سمجھتے تھے کہ اپنے دوست نمادشمنوں کی پہچان تمہیں خوب ہوچکی ہوگی... ہمیں یہ یقین تھا کہ حضرت مہتمم صاحب اور اساتذہ کرام کے آداب و احترام کی جو ہماری قدیم روایت ہے اس سے تم خوب آشنا ہو چکے ہوگے.......اور ہمیں یہ خوش فہمی تھی کہ ہمارے بچے کسی دشمن کا آلہ کار کبھی نہیں بن سکتے.......  
*مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ*
     اے میرے فرزندو! ذرا اس وقت کو یاد کرو کہ طلبہ دارالعلوم کے نام سےانتظامیہ کے نام ایک خط جب سوشل میڈیا پہ گشت کررہا تھا تو اس وقت میری حالت کیسی ابتر رہی ہوگی؟ کیونکہ اگر میرے بچوں کو کچھ کہنا ہی تھا تو براہ راست ہماری انتظامیہ کو وہ تحریر کیوں نہیں دی گئی؟ اور کیوں اسے سوشل میڈیا میں نشر کرکے ہماری تہذیبی رواداری کو مجروح کیا گیا ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ دوست نما دشمنوں نے ہمارے بچوں کو استعمال کرلیا ہو ؟ اور اپنی چرب زبانی. تاریخ دانی. صحافتی روانی اور مکروفریب سے فرزندانِ دارالعلوم کو مخالف دارالعلوم بنانے کی سازش رچی ہو؟
    اے میرے نونہالو! ذرا اپنی اس بدتمیزی کو بھی یاد کرلو. جس میں تم نے حضرت مہتمم صاحب کے خلاف نعرے بازی کی تھی.ان کے استعفے کا مطالبہ کیا تھا. اور ایک نیک دل متواضع انسان کو خود اسی کے سامنے برا بھلا کہا تھا....... سچ پوچھو تو تمہاری ان حرکتوں نے ہمیں پانی پانی کردیا تھا. کیونکہ ہم نے تو اپنے بچوں کو گستاخی نہیں سکھائی ہے. پھر یہ گستاخی کا پورا سین کہاں سے برآمد ہوا؟ ہمارے بچے تو رذیلوں کو بھی عزت دیا کرتے ہیں پھر یہ خود اپنے اساتذہ و مہتمم کی بےعزتی کیسے کرسکتے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ سب کچھ چند خرافاتی ذھن کی پیداور ہو؟ اور انھوں نے ہی ہمارے بعض نوجوانوں کو اپنے دام تزویر میں گرفتار کرکے سارا کھیل کھیلا ہو؟
     اے میری آغوش میں کلکاریاں بھرنے والو! ذرا عقل وخرد بھی استعمال کیا کرو اور یہ دیکھ لیا کرو کہ یہ آواز اندر کی ہے یا باہر کی ہے؟ یہ صور کہیں شہر دیوبند کے کسی کرایہ کی آفس سے تو نہیں پھونکا گیا ہے؟ اور کہیں جس مودودی صاحب کا شیخ الاسلام نے تعاقب کیا تھا انھیں کے مشن کو اندر لانے کی کوشش تو نہیں ہورہی ہے؟
       اے میرے فرزندو! جنگ آزادی کے بہانے جذبہ جہاد پہ برانگیختہ کرنے والے مودودی زبانوں پہ تم لگام کیوں نہیں لگاتے؟ اور تم ان کی بےہودہ فہم و دانش کا مذاق کیوں نہیں اڑاتے؟کیونکہ جنگ آزادی کا ایک دور 1857 سے پہلے کا ہے اور ایک دور بعد کا ہے. پہلے دور میں تحفظ آزادی کی جنگ تھی اور دوسرے دور میں تحصیل آزادی کی جنگ تھی. ظاہر ہے کہ ابھی کے سارے مظاہرے تحفظ آزادی کے لیے ہیں نہ کہ آزادی حاصل کرنے کے لیے ہیں.... آزادی حاصل کرنا تو غلام بن جانے کے بعد ہواکرتا ہے. ابھی تو ہماری آزادی باقی ہے البتہ اسی آزادی کےتحفظ کے لئے ملک کے سارے شاھین باغ ہیں اور دیوبند کی عیدگاہ ہے.
      گویا کاروان صحافت کے اہل دانش جس جنگ آزادی کی تاریخ پیش کرکے آج کے دارالعلوم اور اس کے اساتذہ کرام پہ بزدلی کا الزام دھرتے ہیں اور ہمارے فرزندوں کی مخالفانہ ذھن سازی کرتے ہیں ان اہل صحافت کو خود اپنا منہ چھپا لینا چاہیے کیونکہ آج کی جنگ تحفظ آزادی کی ہے اور پہلے جب تحفظ آزادی کی جنگ ہوئی تھی اس وقت دارالعلوم کا وجود ہی نہ تھا دارالعلوم تو 1857 کے بعد قائم ہوا ہے اور جب 1866 میں دارالعلوم قائم ہوگیا تو پھر دارالعلوم کے اکابر نے جو جنگ لڑی تھی وہ آزادی حاصل کرنے کی جنگ تھی نہ کہ آزادی کے تحفظ کی جنگ تھی لہذا آج کے صحافتی دانشوروں کو خوب یاد رکھنا چاہیے کہ غلط تاریخ پیش کرنے سے خود آپ تو حرف غلط بن سکتے ہیں مگر دارالعلوم غلط تاریخ کی حوصلہ افزائی نہیں کرسکتا ہے.... خیر بات چل رہی تھی اپنے فرزندوں سے. یہ کیا مفسدوں سے خطاب شروع ہوگیا.......
اے فرزندو! اپنے دشمنوں کو پہچاننے کی کوشش کرو اور دیکھو کہ کون دوست نما دشمن ہے جو مختلف حیلے بہانے سے دارالعلوم اور اس کے ارباب حل وعقد سے آپ کو متنفر کررہا ہے. یاد رکھئے کہ ہر اس تحریر کا لکھاڑی آپ کا اور دارالعلوم کا دشمن ہے جو آپ کو تعلیمی مشاغل سے ھٹاکر کسی دوسری جہت میں موڑنے کی کوشش کرے..... کبھی این پی آر کے حقائق سمجھانے کے نام پہ آپ کو اگر شہر میں کہیں بلایا جائے تو فوراً آپ کا جواب یہ ہونا چاہیے کہ ڈھیروں تحریریں موجود ہیں انھیں کے ذریعے حقائق جانے جاسکتے ہیں..... اگر کبھی صحافتی مسابقہ کے نام سے آپ کو شہری آفس میں دعوت دی جائے تو آپ کا جواب یہ ہونا چاہیے کہ ابھی تو کتابی مسابقہ ہی سے فرصت نہیں مل پائی ہے کہ آپ کے یہاں حاضری دی جائے..... اگر کبھی ھنگامہ آرائی پہ اکسایا جائے تو انھیں اپنی وہ تاریخی حیثیت یاد دلا دیجیے جس کا اعتراف تاریخ دارالعلوم جلد 1 صفحہ 307 پہ موجود ہے کہ حضرت مدنی کی اسارت کے خلاف فرزندان دارالعلوم نے جلسے و احتجاج میں کوئی کمی نہ کی تھی مگر کیا مجال کہ فرزندان دارالعلوم کے عالمانہ وقار پہ کوئی انگلی رکھ سکے
لہذا آپ بھی انھیں ماضی کے فرزندوں کی تاریخ دہرائیے. اپنی متانت و سنجیدگی کا سودا نہ ہونے دیجئے. احترام دارالعلوم کے خلاف اقدام کرنے والوں کو پرکھئے اور ہر ایسے فاسد مادوں کو چن چن کر طشت از بام کرڈالئے جو دارالعلوم کو بدنام کرنے کی مہم چھیڑے ہوئے ہیں
====================
       فقط.........رضوان احمد قاسمی... 23 فروری 2020 ء

محترم کلیم احمد نانوتوی کی وال سے