Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, February 18, 2020

اترپردیش : بے سبب گرفتاریوں سے بڑھ رہا ہے عوامی اشتعال ، یوگی حکومت پر غیر دستوری اقدامات کرنے کا الزام۔

جماعت اسلامی ، رہائی منچ اور سٹیزن فورم کی جانب کے سربراہوں نے باقاعدہ طور پر حکومت کو عوام ودستور مخلاف قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ جس انداز سے بے گناہوں کی گرفتاریاں کی جارہی ہیں ، اس سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے حکومت ایک خاص طبقے کے لوگوں سے انتقام لینے کے لئے پولس مشینری کا استعمال کررہی ہے ۔

لکھنٶ۔اتر پردیش /صداٸے وقت /ذراٸع / ١٨ فروری ٢٠٢٠۔
=============================
اتر پردیش میں حکومت اور پولس کے تعلق سے لوگوں کے رجحانات تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں ۔ بالخصوص این آر سی اور  سی اےاے کے خلاف ہورہے مظاہروں اور دھرنوں کے رد عمل میں شہریوں کے ساتھ جو سلوک ہوا ہے ، اس نے لوگوں کے ذہن تبدیل کردئے ہیں  اور لہجے بدل دئے ہیں ۔ محسوس ہوتا ہے کہ جیسے پولس اور حکومت سے لوگوں کا اعتماد اٹھتا جا رہا ہے ۔ جماعت  اسلامی ، رہائی منچ اور سٹیزن فورم کی جانب کے سربراہوں نے باقاعدہ طور پر حکومت کو عوام ودستور مخلاف قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ جس انداز سے بے گناہوں کی گرفتاریاں کی جارہی ہیں ، اس سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے حکومت ایک خاص طبقے کے لوگوں سے انتقام لینے کے لئے پولس مشینری کا استعمال کررہی ہے ۔ کسی کو بھی کہیں سے گرفتار کرلیاجاتاہے ۔ من مانے الزامات لگا کر دفعائیں لگادی جاتی ہیں اور پھر غیرمعمولی جرمانہ عائد کردیاجاتاہے ۔
جماعت اسلامی کے سکریٹری ملک محتشم خان کہتے ہیں کہ جب عدلیہ کے ججوں کا ہی یقین ٹوٹ رہا ہو ، تو عام لوگ اور بالخصوص اقلیتی مظلومین کیسے اس نظام میں سکون محسوس کرسکتے ہیں ۔ خاص طور پر اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ اہم منصب پر رہتے ہوئے جب غیر جمہوری اور غیر دستوری بیانات جاری کرتے ہوں ، تو ریاست میں امن وامان کی فضا کیونکر بحال ہوسکتی ہے ۔
رہائی منچ کے بانی اور معروف سماجی کارکن شعیب ایڈوکیٹ کے مطابق ڈاکٹر کفیل کی گرفتاری سے لے کر ان پر عائد کئے گئے الزامات تک سب کچھ جھوٹ اور فریب پر مبنی اور غیر دستوری ہیں ۔ اسی طرح معروف شاعرعمران پرتاپ گڑھی پر عائد جرمانے کی رقم اور جن الزامات کی بنیاد پر یہ جرمانہ عائد کیا گیا ہے ، اس کو دیکھ کر لگتا ہے کہ جیسے اس حکومت نے قانون کو بالائے طاق رکھ کر سارے فیصلے خود کرنے شروع کردئے ہیں ۔ نہ کوئی بات سنی جاتی ہے اور نہ دستور اور قانون کے تقاضوں کو سمجھا جاتا ہے ۔ بس کرسیوں پر بیٹھے لوگوں کی منشا اور مرضی کے مطابق پولس آکر کارروائی شروع کردیتی ہے ۔ شعیب ایڈوکیٹ کے مطابق سندیپ پانڈے کی گرفتاری بھی غیر دستوری اور غیر قانونی ہے ۔ ایک شخص جو خاموشی کے ساتھ اپنے صرف نو رفیقوں کے ساتھ پیدل مارچ کرنا چاہتا ہے ، اس کو بھی گرفتار کرلیا جاتا ہے ۔ سمجھا جا سکتا ہے کہ حکومت کیا کرنا چاہتی ہے۔
واضح رہے دو روز قبل سندیپ  پانڈے نے لکھنئو کے پریس کلب میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ آزادی کے بعد سے ملک نے ایسا دور کبھی نہیں دیکھا ، جس میں لوگوں کے سبھی طرح کے حقوق پامال کرکے ملک کو بیچا اور لوگوں کو معتوب کیا جارہا ہے ۔ ساتھ ہی سندیپ پانڈے نے یہ بھی کہا تھا کہ موجودہ حکومت نہیں چاہتی کہ لوگ زندگی کے ضروری بنیادی موضوعات پر کوئی سوال کریں ۔ کیونکہ حکومت کو معلوم ہے کہ  ترقی وکاس اور وشواس کے نام پر اس کے پاس بتانے کو کچھ نہیں ہے ، لہٰذا اسی لئے وہ عوام کو الجھائے رکھنا چاہتی ہے ۔
یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ حکومت کی حکمت عملی اور طرز عمل سے لوگوں کا غصہ بڑھ رہاہے ۔ ایک لاوا ہے جو اندر اندر پک رہاہے اور سبھی طبقوں کے لوگ یہ محسوس کررہے ہیں کہ کہیں نہ کہیں ان کے لئے مسائل بڑھتے جارہے ہیں ۔ لہٰذا حکومت نے اگر اپنی روش کو تبدیل نہیں کیا ، تو آنے والے وقت میں حکومت کے لئے بھی  مزید دشورایاں پیدا ہوجائیں گی ۔ بہتر طریقہ یہ ہے کہ عوام کی آوازوں کو دبانے اور کچلنے کی بجائے ان کی آوازوں کے مثبت جوابات دئے جائیں ۔