Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, February 9, 2020

احتجاجی خواتین کو سلام/سی اے اے پر احتجاج کر رہی خواتین پر شکیل رشید کا نذرانہِ عقیدت۔

از/ شکیل رشید (ایڈیٹرروزنامہ ممبئی اردونیوز)/صداٸے وقت۔
==============================
دہلی کا الیکشن ہوگیا۔ اب جو بھی نتیجہ آئے ، چاہے کیجریوال پھر جتیں یا بی جےپی بازی مارلے جائے ، فائدہ اور نقصان اس ملک کے شہریوں کو ہی اٹھانا ہوگا ۔ اگر کیجریوال جیتے تو یقیناً ’وکاس‘ کی جیت ہوگی ۔۔۔ اصلی اور حقیقی’وکاس‘ کی ، بی جے پی کے نقلی ’ وکاس‘ کی نہیں ۔۔۔ اور اگر بی جے پی جیت گئی تو وہ نہ ’وکاس‘ کی جیت کہلائے گی اور نہ ہی جمہوری اور سیکولر اقدار کی جیت ، اسے نفرت اور فرقہ پرستی کی جیت کے علاوہ اور کوئی نام نہیں دیا جاسکے گا ، اس لئے کہ اس کا کوئی اور ’ بہتر‘ ’ اچھا‘ یا کانوں کو بھلا لگنے والا نام ہوہی نہیں سکتا۔ دہلی الیکشن کو جیتنے کے لئے بی جےپی کے لیڈروں نے جو زہر اگلا ہے ، اس نے دہلی کی پہلے ہی سے مسموم فضا میں لوگوں کے سانس لینے کو انتہائی دشوار بنادیا ہے ۔۔۔ بات اس ملک کے ’ غداروں‘ کو ’گولی مارنے ‘ سے لے کر شاہین باغ میں ’ کرنٹ ‘ لگانے تک کی کی گئی ہے ۔ اور زہر اگلنے والے کوئی عام سے بھاجپائی نہیں تھے ، ان میں ملک کے وزیر داخلہ امیت شاہ اور ملک کی سب سے بڑی ریاست یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ شامل تھے۔ پوری بے حیائی ، بے شرمی اور ڈھٹائی کے ساتھ شاہین باغ، بریانی، گولی اور پاکستان کی باتیں کی جاتی رہیں ۔۔۔ کیجریوال کو ، جو دہلی کے وزیراعلیٰ ہیں صاف لفظوں میں ’ دہشت گرد‘ تک کہہ ڈالا گیا ، ان پر پاکستان نوازی کا الزام لگااور شاہین باغ کے احتجاجی مظاہرین کو ’بریانی‘ کھلانے کا دعویٰ کیا گیا، اور ہمارے ملک کا قانونی اور آئینی نظام ، جو سیاست کو مذہب سے جوڑنے کا مخالف ہے ، آنکھیں بند کئے سوتا رہا ۔۔۔ سوتے سوتے اس کی آنکھ کھلتی تو وہ ایک آدھ پھسپھسے قسم کا نوٹس بھیج کر فضا مسموم کرنے والوں کی مزید ’ حوصلہ افزائی‘ کردیتا ۔۔۔ الیکشن کمیشن نے ’گولی مارو سالوں کو‘ کا نعرہ دینے والے مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر پر کارروائی تو کی پر صرف تین روز کی پابندی لگانے کی ، اس کے بعد وہ پھر ’آزاد ‘ تھے ۔ بی جےپی کے ایم پی پرویش ورما پر کیجریوال کو ’ دہشت گرد‘ کہنے کے لئے بس ایک روز کی پابندی لگائی ، سمبت پاترا جھوٹ پر جھوٹ بولے ، اور الیکشن کمیشن سنتا رہا۔ امیت مالویہ نے شاہین باغ کے تعلق سے فرضی ویڈیو بنایا پر کوئی کارروائی ان پر نہیں کی گئی! زہر اُگلنے والوں میں یوں تو سب ہی پش پیش رہے ہیں ، انوراگ ٹھاکر ، امیت مالویہ ،سمبت پاترا ، پرویش ورما وغیرہ وغیرہ لیکن یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی نے سب پر بازی ماری ہے ۔ اگر کہیں زہر اگلنے کا کوئی عالمی مقابلہ ہوتا تو انہیں سونے کا تمغہ جیتنے سے کوئی روک نہیں سکتا تھا۔
یوگی کی ’ دہلی یاترا‘ نفرت کے پرچار سے بھری تھی۔ سی اے اے ، این آرسی اور این پی آر کے خلاف مظاہرے کرنے والوں سے اپنی قلبی نفرت کا اظہار انہوں نے بار بار کیا ۔ شاہین باغ ان کی آنکھوں میں کھٹکھتا رہا ہے اسی لئے یوپی بھر میں انہوں نے شاہین باغ کی طرزپر کئے جارہے مظاہرین پر۔۔۔ خواتین اور بچے ۔۔۔ اپنی پولس چھوڑدی ہے ۔ اعظم گڑھ کے بلریا گنج میں یوگی کی پولس نے عورتوں اور بچوں پر لاٹھی چارج بھی کیا ، آنسو گیس کے گولے بھی چھوڑے اور ہوائی فائرنگ بھی کی ۔ دہلی کی انتخابی ریلیوں میں وہ دوہراتے رہے کہ ’’جوبولی سے نہیں مانیں گے وہ گولی سے مان ہی لیں گے ‘‘۔ ایک ریلی میں شاہین باغ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ شاہین باغ احتجاج سی اے اے کے خلاف نہیں ، دنیا میں بھارت جو آگے بڑھ رہا ہے اس کے خلاف ہے ۔ انہوں نے کہا کہ شاہین باغ والوں کے اجداد نے ملک کا بٹوارہ کیا اس لئے انہیں ایک بھارت شریشٹھ بھارت سے جلن ہے ۔۔۔ شاہین باغ کی احتجاجی خواتین کو ’ دہشت گرد‘ قرار دیتے ہوئے یوگی کی زبان سے نکلا ’’ ان دہشت گردوں کو بریانی نہیں گولی دی جائے ۔‘‘

یوگی خود کو ’ دیش بھکت‘ قرار دیتے ہیں اور شاہین باغ والوں کو گولی مارنے کی بات کرتے ہیں ۔ یہ اپنی زہریلی تقریروں کو ’ امن وامان ‘کا درس سمجھتے ہیں ۔ یوگی کو لگتا ہے کہ خواتین ، بچوں اور عام شہریوں پر لاٹھیاں برسوا کر ، گولیاں چلوا، اور آنسو گیس کے گولے داغ کر وہ بہادری کا کام کررہے ہیں ۔۔۔!!! وہ ’بہادر ‘ہیں ، ان کا ماضی ان کی ’ بہادری‘ کی گواہی دے رہا ہے ! ان دنوں ایک کتاب SHADOW ARMIES زیر مطالعہ ہے ، اس کے مصنف سینئر صحافی دھریندر کے جھا ہیں ۔ کتاب میں ایک باب ’ ہندویووا واہنی ‘ پر ہے ، جو یوگی کی تنظیم ہے ۔ ایک جگہ انہوں نے پارلیمنٹ کے اندر یوگی کے رونے کا واقعہ انتہائی دلچسپ انداز میں تحریر کیا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں :’’ یاد رہے کہ وہ شخص جو خود کو ایک مذہبی اور سیاسی قائد کے مقابلے ایک جری ٹھاکر کہلانے میں فخر محسوس کرتا ہے ، 12 مئی 2007 کو اس وقت لوک سبھا کے اندر پھوٹ پھوٹ کر روپڑا ، اور اسے سب نے روتے ہوئے دیکھا ،، جب مقامی انتظامیہ نے اس سے اور اس کی تنظیم سے نمٹنے کی قدرے ہمت کی ۔ پولس کا چھاپہ گورکھپور کے اطراف میں ہوئے ہندو ، مسلم فسادات کے لئے تھا ، جو آدتیہ ناتھ اور ہندو یوا واہنی کی شرانگیزی سے پھوٹ پڑا تھا۔ دوافراد مارے گئے تھے اور کروڑوں روپئے کی املاک جلاکر پھونک دی گئی تھی ، جس کی وجہ سے جنوری کے آواخر سے لے کر فروری 2007 کے ابتدائی دنوں تک کرفیو لگا ہوا تھا۔‘‘پولس کی ذرا سی حرکت پر پھوٹ پھوٹ کر روپڑنے والا ’جری ٹھاکر‘ آج اسی پولس کو نہتی احتجاجی خواتین ، بچوں اور نوجوانوں پر گولیاں چلانے کیلئے استعمال کرنے کو بہادری سمجھ رہا ہے ۔ نفرت کی زبان بولنے والے یوگی نے اپنے خلاف مقدمے واپس کروائے ہیں ، پر آج بھی وہ افراد جنہوں نے یوگی کو عدالت میں گھسیٹا تھا پر عزم ہیں کہ یوگی کو قانونی سزا دلواکر رہیں گے ۔

شاہین باغ کے خلاف یوگی ، امیت شاہ ، انوراگ ٹھاکر اور پرویش ورما ، امیت مالویہ اور ان سب کے ’سرپرست‘ وزیراعظم نریندر مودی کی زہر افشانی سمجھ میں آتی ہے ۔ اگر مودی شاہین باغ کو ’ سینوگ نہیں پریوگ‘ کہتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ کس قدر گھبرائے اور سہمے ہوئے ہیں ۔ انہیں اور ان کے ’ ماتحتوں‘ کو یہ خوب اندازہ ہے کہ خواتین نے یہ جو ’احتجاج‘ کی ایک ’لہر‘ سارے ملک میں دوڑا دی ہے اس کے نتیجے میں ان کی ’فرضی قوم پرستی‘ عیاں ہوگئی ہے ، ان کا ’ ہندوتوادی چہرہ‘ جس پر انہوں نے ’ وکاس پرش‘ کا مکھوٹا لگارکھا تھا اجاگر ہوگیا ہے ۔۔۔ پہلے وہ لوگوں کو مسلمان ، پاکستان اور دہشت گرد کے لفظوں سے ڈراتے تھے پر آج دہلی کے شاہین باغ، اور اسی طرز پر بنے ملک بھر کے شاہین باغوں میں عام لوگ پہنچ رہے ہیں ، ہندو ،سکھ، عیسائی ، دلت ، پچھڑے ، آرٹسٹ ، ادیب ، دانشور اور عام گھریلو عورتیں، نابالغ بچے اور بچیاں اور بوڑھے ونوجوان ، اور یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ حقیقی قوم پرستی کیا ہوتی ہے ، اپنے کانوں سے سن رہے ہیں کہ قوم پرست کیسے جوڑنے کی باتیں کرتے ہیں توڑنے کی نہیں ۔۔۔ گویا یہ کہ دہلی اور ملک بھر کے شاہین باغوں نے پرویش ورما کے اس جھوٹ کو خود ان کے چہرے پر ماردیا ہے کہ ’’شاہین باغ کے یہ لوگ تمہارے گھروں میں گھس پڑیں گے ، تمہاری بہنوں اور ماؤں کو اٹھالیں گے ، انہیں بےعزت کرکے قتل کردیں گے ، اسی لئے یہ تحریک چھیڑی گئی ہے ۔‘‘ جو بھی شاہین باغ پہنچتاہے اسے ’ محبت‘ ملتی ہے ، اس کا استقبال کھلے دل سے کیا جاتا ہے ، یہ تحریک بھائی چارہ ، مساوات اور قوم پرستی کا وہ درس دے رہی ہے جو بی جے پی اور بھگوا بریگیڈ کی نقلی قوم پرستی پر حاوی ہوتی جارہی ہے ، اسی لئے دہلی سمیت سارے ملک کے شاہین باغ بشمول ’ ممبئی باغ‘ نظروں میں کھٹک رہے ہیں۔ اور نشانے پر ہیں ۔۔۔

مودی، شاہ ،یوگی ، ٹھاکر اور ورما ومالویہ وغیرہ نے شاہین باغ کے نام پر گندی سیاست کی ہے ممکن ہے اس کے نتیجے میں دہلی میں ’ آپ‘ کی کچھ سیٹیں کم ہوجائیں لیکن اس تحریک نے بڑی تعداد میں ان نوجوانوں کو ، جنہوں نے 2019 میں مودی اور بی جے پی کوووٹ دیا تھا ، جگادیا ہے۔ اب وہ بی جے پی کے خلاف کھڑے نظر آرہے ہیں اور یہ ملک کے تمام شاہین باغوں کی سب سے بڑی کامیابی ہے ۔ اس تحریک نے ’بےروزگاری‘ کے مسئلے کو اجاگرکیا ہے ، بتایا ہے کہ یہ سرکار ہندو ، مسلم کرکے ان مسائل پر پردہ ڈال رہی ہے جو ملک کے حقیقی مسائل ہیں ، جو عوام کو وکاس کی طرف نہیں مزید غربت کی طرف لے جارہے ہیں ۔ اسی لئے شاہین باغ کو ’ بدنام‘ کرنے کی کوشش کی گئی ، کیجریوال کو اس حوالے سے پھنسانے کی کوشش کی گئی ، پروہ پھندے میں نہیں آئے ۔ اور سازشیں گھڑی گئیں کہ کسی طرح سے شاہین باغ کو اجاڑ دیا جائے ۔۔۔۔ گولی چلوائی ، گنجاکپور کو ’ پاکستان زندہ باد‘ کی ویڈیو بنانے کے لئے بھیجا اور ایسے مسلمانوں کا استعمال کیا جو ’ بکنے‘ کو تیار رہتے ہیں ، ان میں مسلم سیاست داں بھی ہیں ، علمائے کرام بھی ، دانشوران بھی ، صحافی بھی اور عام لوگ بھی ۔۔۔ ممبئی باغ اس کی ایک مثال ہے ۔۔۔ دیوبند کا شاہین باغ اس کی ایک اور مثال ہے ۔۔۔ پر یہ خواتین جو احتجاج پر بیٹھی ہیں یہ اب احتجاج ختم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ کیوں؟ اس لئے کہ انہیں وزیراعظم کے اس بیان پر کہ ملک بھر میں این آرسی لاگو کرنے پر ابھی کوئی غور نہیں کیا گیا ذرہ بھر بھی بھروسہ نہیں ہے ۔ انہیں یہ لگتا ہے کہ اس ملک سے انہیں کھدیڑنے کا منصوبہ بنانے والوں کے خلاف یہ احتجاج جاری رہنا چاہیئے اور اس وقت تک جاری رہنا چاہیئے جب تک یہ منصوبہ دم نہیں توڑ دیتا ۔ ان خواتین کی ہمت اور جرأت کو سلام۔۔