Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, February 17, 2020

مغربی بنگال کے مدارس میں ہندو طلبا کی تعداد میں اضافہ۔۔۔۔۔بی بی سی کی رپورٹ۔

انڈیا میں جب مدرسوں کا نام لیا جاتا ہے تو عام طور پر اس سے ایک ایسے تعلیمی ادارے کی تصویر سامنے آتی ہے جہاں مسلمان طلبا کو روایتی انداز میں تعلیم دی جاتی ہے۔

نٸی دہلی /صداٸے وقت /نماٸندہ۔

=============================

 مغربی بنگال کے مدرسوں میں  6000 سے زیادہ سرکاری امداد سے چلنے والے مدارس ہیں جہاں نہ صرف غیر مسلم طلبا تعلیم حاصل کرتے ہیں بلکہ ان کی تعداد بھی مسلسل بڑھ رہی ہے۔

ریاست میں پیر سے شروع ہونے والے مدرسہ بورڈ کے امتحانات نے اس بار ایک نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ اس امتحان میں شامل ہونے والے 70 ہزار طلبا میں سے تقریبا 18 فیصد ہندو ہیں۔ مدرسہ بورڈ کا یہ امتحان دسویں کے برابر ہے۔ اس سے قبل سنہ 2019 کے امتحان میں غیر مسلم طلبا کی تعداد 12.77 فیصد تھی۔

مغربی بنگال مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے صدر ابو طاہر قمرالدین کا کہنا ہے کہ 'پچھلے کچھ سالوں سے امتحان دینے والے طلبا کی تعداد دو سے تین فیصد کی شرح سے بڑھ رہی ہے۔ ریاست کے مختلف حصوں میں پھیلا ہوا یہ مدرسہ اب دسویں جماعت تک ہے جہاں غیر مسلم طلبا بھی بڑی تعداد میں داخلہ لے رہے ہیں۔'

قمرالدین کا کہنا ہے کہ بانکورہ، پرولیا اور بیر بھوم کے اضلاع میں چار سب سے بڑے مدرسوں میں غیر مسلم طلبا کی تعداد مسلمان طلباء سے زیادہ ہے۔ قمرالدین کے مطابق غیر مسلم طلبا‏‏ زیادہ تر ثانوی سطح کے مدرسوں میں داخلہ لیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ مدرسہ سیکنڈری بورڈ کے نصاب کے مطابق پڑھاتے ہیں۔

انھوں نے کہا: ’نہ صرف ملک میں بلکہ پوری دنیا میں یہ اپنے آپ میں ایک انوکھی چیز ہے۔ یہاں ہندو طلبا پڑھ ہی نہیں رہے ہیں بلکہ وہ مسلم طلبا سے بہتر نتائج بھی حاصل کر رہے ہیں۔‘

بردوان ضلع کے ایک مدرسے میں تعلیم حاصل کرنے والی 14 سالہ سین کہتی ہیں ’مدرسہ میں مذہب کی بنیاد پر ہمارے ساتھ کبھی بھی امتیازی سلوک نہیں کیا جاتا ہے۔‘

مغربی بنگال میں سیکنڈری بورڈ کے تحت تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کی کثیر تعداد کی وجہ سے طلبا اور والدین (خاص طور پر دیہی علاقوں میں) نے ان مدارس کو ترجیح دینا شروع کر دیا ہے۔ اس سے پہلے بھی بنگال کے مدرسوں کی انوکھی خصوصیت پر بہت سے مطالعے ہو چکے ہیں۔ ان خصوصیات میں مدرسوں میں لڑکیوں کا داخلہ بھی شامل ہے۔

مدرسہ

کچھ مدرسوں میں ہندو طلبا زیادہ ہیں

پچھلے سال مدرسہ بورڈ کے امتحانات میں لڑکیوں کی تعداد تقریبا 60 فیصد تھی۔

گذشتہ سال مدرسہ بورڈ کے امتحان میں سابق بردوان ضلعے کے کیتوگرام میں موجود اگرڈانگا ہائی مدرسہ میں تین ہندو طالبات ساتھی موڈک، ارپیتا ساہا اور پاپیہ سہا نے 90 فیصد سے زیادہ نمبرات حاصل کیے تھے۔

اس مدرسے میں تعلیم حاصل کرنے والے 751 طالب علموں میں سے تقریبا 45 فیصد ہندو ہیں۔ اس بار بورڈ کے امتحان میں شامل ہونے والے 68 طلبا میں سے 23 ہندو ہیں۔آگرڈانگا مدرسہ کے انچارج محمد انیس الرحمٰن نے کہا: ’سنہ 1925 میں اس کے قیام کے بعد سے ہندو طلباء اس مدرسے کا لازمی حصہ رہے ہیں۔ ہندوؤں نے اس مدرسے کو ترجیح دی کیونکہ اس علاقے میں کوئی دوسرا سکول نہیں تھا۔ یہاں کی تعلیم کو دیکھنے کے بعد یہاں مزید تین سکول کھلے۔ اس کے باوجود ہندو برادری کے بیشتر بچے یہاں تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں۔‘

اس ضلع کے اورگرام چتوشپلی ہائی مدرسہ میں زیر تعلیم 1320 طلباء میں سے 65 فیصد ہندو ہیں۔ اس مدرسے میں طالبات کی تعداد (720) طلبہ (600) کے مقابلہ میں 20 فیصد زیادہ ہے۔

مدرسہ

مدرسوں میں ہندو طلبا کی تعداد کیوں بڑھ رہی ہے؟

آخر ان مدارس میں ہندو طلبا کی تعداد کیوں بڑھ رہی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں تعلیم کا بہتر ماحول اور اعلی سطح ہے۔

پیشے سے کسان رمیش ماجھی کی دو بیٹیاں چتوش پلی مدرسہ میں پڑھتی ہیں۔ ماجھی کا کہنا ہے کہ ’علاقے میں اور بھی بہت سے سرکاری سکول ہیں لیکن مدرسے میں تعلیم کی سطح اور سہولیات کی وجہ سے میں نے دونوں بیٹیوں کو یہاں بھیجنے کا فیصلہ کیا۔‘

ایسی ہی ایک مثال کولکتہ سے ملحقہ شمالی 24 پرگنہ ضلع کے ایک کسان سومن منڈل کے بڑے بیٹے کی ہے جو پہلے ایک مقامی سرکاری سکول میں تھا۔ لیکن نشست نہ ہونے کی وجہ سے جب دوسرے بیٹے کو سرکاری سکول میں داخلہ نہیں ملا تو انھوں نے اسے قریبی مدرسے میں داخل کرا دیا۔ منڈل کو مدرسے کا ماحول اتنا پسند آیا کہ بڑے بیٹے کا نام بھی گورنمنٹ سکول سے کاٹ کر مدرسے میں داخل کرا دیا۔

انھوں نے کہا: ’سرکاری سکول میں متعلقہ مضامین میں ٹیچر نہیں تھے۔ جغرافیہ کا استاد ریاضی کا درس دیتا تو سائنس کا تاریخ پڑھاتا تھا۔ سکول میں نظم و ضبط بھی ٹھیک نہیں تھا۔ دوسری طرف مدرسے میں پڑھائی بہتر تھی اور نظم و ضبط بھی۔ اسی لیے میں نے بڑے بیٹے کو خود ہی مدرسے میں داخل کرایا۔‘

مدرسہ

'مدرسوں میں تعلیم کا معیار پہلے سے بہتر ہے'

مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے صدر ابو طاہر نے بھی منڈل کے خیالات کی تصدیق کی ہے۔ وہ کہتے ہیں: 'مدرسوں میں تعلیم کا معیار پہلے کی نسبت بہت بہتر ہے۔ طلباء کو وظائف بھی دیئے جارہے ہیں۔ لہذا غیر مسلم طلباء اور والدین خصوصی طور پر بیربھوم، مشرقی بردوان اور بنکورہ اضلاع میں ان مدارس کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔'

طاہر کا کہنا ہے کہ ریاست کے مدرسوں میں غیر مسلم اساتذہ کی تعداد 29 فیصد سے زیادہ ہے۔

بی بی سی نے مدرسے میں ہندوؤں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے بارے میں جب محکمہ تعلیم کے ایک اہلکار سے بات کی تو انھوں نے کہا: 'ان مدارس میں غیر مسلم طلباء کی تعداد میں اضافے کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ اول یہ کہ سرکاری سکولوں میں نشستوں کی کمی اور دوسرے مدرسوں نے ہائر سیکنڈری ایجوکیشن بورڈ سے منظوری حاصل کر رکھی ہے۔ اس کے علاوہ بہت سارے اسکول ڈونیشن کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے غریب طلباء مدرسوں کا رخ کرتے ہیں۔'

مدرسہ بورڈ

فرسودہ روایات کو ختم کرنے کے دعوے

شمالی چوبیس پرگنہ ضلع کے ایک مدرسے میں انگریزی پڑھانے والے امیتابھ منڈل کہتے ہیں کہ 'عام سکولوں میں نشستوں کی کمی ہے۔ اس کے علاوہ کم فیس کی وجہ سے بھی طلباء مدرسوں کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔ ریاستی حکومت نے غیر مسلم طلباء کو عربی زبان کی تعلیم میں ہونے والی دشواریوں کو بھی دور کردیا ہے۔ 100 نمبروں کے عربی زبان کے امتحانات میں وہ کسی دوسری زبان میں 65 نمبروں کے جواب لکھ سکتے ہیں۔

مدرسہ بورڈ کے چیئرمین قمرالدین نے کہا: 'ہم نے مدرسوں کو بھی عام سکولوں جیسا بنا دیا ہے۔ یہاں طلبہ اور طالبات ایک ساتھ تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ہم نے فرسودہ روایات کو ختم کیا ہے۔ حکومت نے مدرسہ کے طلباء کے لیے وظائف کا سلسلہ بھی شروع کیا ہے۔ ان مدرسوں کے بہت سے طلبا بعد میں انجینئرنگ اور میڈیکل کالجوں میں داخلہ لے رہے ہیں۔'