Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, February 25, 2020

دہلی میں فساد سے ٹرمپ کا استقبال۔۔۔


از/ ڈاکٹر سلیم خان/صداٸے وقت 
==============================
عام آدمی چاہے جھاڑو والا ہو یا کمل چھاپ ، وہ فساد نہیں امن چاہتا ہے۔ عوام کے لیے فساد کا کوئی وقت نہیں ہوتا لیکن سیاستدانوں کے لیے ہوتا ہے اس لیے کہ ان کی توچری نوٹ سے بھرتی ہے اس ووٹ کی کھیتی کو بے قصور لوگوں کے خون سے سینچا جاتا ہے۔ بی جے پی کے لوگ فساد تو کراتے ہیں لیکن اس قدر سوچ سمجھ کر کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے ۔ کپل مشرا کو ابھی اس کی تربیت و تجربہ نہیں ہے اس لیے اس نے بہت غلط وقت پر یہ حماقت کردی ۔ مثل مشہور ہے کہ ’ نئے فقیر کو بھیک کی جلدی‘ ہوتی ہے۔ کپل نے سوچا ہوگا کہ جب پولس فورس صدر ٹرمپ کے بندوبست میں مصروف ہو تو فساد بھڑکا دیا جائے۔ ذرائع ابلاغ کی توجہ بھی امریکی صدر کی جانب مبذول رہے گی اور اس کا یہ جرم دب جائے گا لیکن ہوا یہ کہ دہلی کے فساد سے صدر ٹرمپ کے دورے پر گہن لگ گیا اور مرکزی حکومت کے سارے کیے کرائے پر پانی پھر گیا۔

وزیر اعظم مودی کی تعریف کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے احمد آباد میں کہا کہ ’’ ہر کوئی ان سے محبت کرتا ہے لیکن وہ بہت سخت ہیں‘‘ ۔ کپل مشرا نے اس بیان کو جھوٹا ثابت کردیا اس لیے کہ جو وزیراعظم اپنے نام نہاد مردِ آہن امیت شاہ کی مدد سے دارالخلافہ میں امن قائم نہیں رکھ سکتا وہ بھلا سخت کیسے ہوسکتا ہے اور سب لوگ اس سے محبت کیسے کرسکتے ہیں؟ دہلی میں آنے کے بعد صدر ٹرمپ نے اپنا بیان اس طرح دوہرایا: وزیر اعظم نے کئی لوگوں کے سامنے مجھ سے کہا کہ وہ مذہبی آزادی چاہتے ہیں اور اس کے لیے بہت محنت کی گئی ہے۔ یہ محنت و مشقت اگر کارگر ثابت ہوئی ہوتی تو دہلی میں فرقہ وارانہ فساد رونما نہیں ہوتا ؟ ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ مودی بہت مذہبی ، خاموش طبع لیکن سخت جان انسان ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف اقدام کرنے میں وہ سخت ہیں ۔ یہ بات اگر درست ہوتی دہلی میں بھگوا دہشت گردوں کو تین دن تک بلاروک ٹوک تشدد کی چھوٹ نہیں ملتی ۔
شاہین باغ نے آزاد ہندوستان میں احتجاج کی ایک منفرد تاریخ رقم کردی ہے۔ ڈھائی ماہ سے جاری اس تحریک سے ترغیب پاکر ہندوستان میں بے شمار شاہین باغ وجود میں آچکے ہیں ۔ ان میں سب سے بڑی تعداد بہار میں ہے لیکن دوسرے نمبر پر دہلی ہے جہاں کئی مقامات پر یہ پرامن دھرنا چل رہا ہے۔ شاہین باغ نے اپنے صبر واستقلال سے اشتعال انگیزی کی ساری کوششوں کو یکے بعد دیگرے ناکام کردیا ۔ یہاں تک کہ کپل گجر نام کا نوجوان وہاں پستول لے کر پہنچ گیا تو اس کو بھی نہایت پروقار انداز میں پولس کے حوالے کردیا گیا تاکہ تحریک کی امن پسندی پر حرف نہ آئے ۔ یہی حال کم و بیش ملک بھر کے تما م شاہین باغوں کا ہے۔ اس میں ایک طرف عزم و حوصلہ ہے تو دوسری جانب صبر وتحمل ہے۔ اسی طرح کا شہریت کے ترمیمی قانون کی مخالفت کرنے والےسینکڑوں لوگ جعفرآباد میٹرواسٹیشن کے قریب شہریت کے ترمیمی قانون کی پرامن مخالفت کر رہے تھے کہ اچانک قریب کے علاقہ چاند باغ میں شہریت کے قانون کی حمایت کرنے والے جمع ہوکر جے شری رام کے نعرے لگا نے لگے ۔ اس موقع پر اگر پولس اپنی ذمہ داری ادا کرتی تو ان میں تصادم نہ ہوتا لیکن اگر برسرِ اقتدار جماعت سے تعلق رکھنے والاسیاستداں بیچ میں کود پڑے تو انتظامیہ بے بس ہوجاتا ہے اور یہی ہوا ۔
یہ بات اب تسلیم کی جاچکی ہے کہ حالیہ فساد کے لیے دہلی بی جے پی کا ناکام رہنما کپل مشرا ذمہ دار ہے۔ اس کی زیر قیادتشہریت ترمیمی قانون کے حق میں نکلنے والے جلوس کے بعد ہی موج پور اور شمال مشرقی دہلی کے دیگر علاقوں میں تشدد پھوٹ پڑا۔ کپل مشرا نے اپنی ریلی میں مظاہرین سے سڑک اور علاقے کو خالی کرنے کا الٹی میٹم دیتے ہوئے کہا تھا کہ بصورتِ دیگر تین بعد وہ خود خالی کرادیں گے۔ کپل شاید دودن بعد صدر ٹرمپ کی واپسی کا انتظار کرنا چاہتا تھا لیکن اس کے پیروکاروں نے اسی وقت فساد برپا کردیا۔ اس سنگین صورتحال پر مقامی رکن پارلیمان گوتم گمبھیر نے اپنی ہی پارٹی کے کپل مشرا پر سخت تنقید کرتے ہوئےکہا کہ ’’یہ کوئی مطلب نہیں رکھتا کہ وہ شخص کون ہے، وہ کپل مشرا ہے یا کوئی اور، یا پھر وہ کس پارٹی سے تعلق رکھتا ہے، اگر اس نے اشتعال انگیز بیان دیا ہے تو اس کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے۔‘‘
ممکن ہےکپل مشرا پر بھارتیہ جنتا پارٹی کا دباو آیا ہویا اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا ہوکیونکہ اس نے بھی اپنے ٹوئٹر پیغام میں شہریت کے قانون کے حامیوں اور مخالفین سے تشدد و ہنگاموں سے گریز کرتے ہوئے امن کو برقرار رکھنے کی اپیل کردی ۔ وہ اگر پہلے آگ نہ بھڑکاتا تو اس کو بجھانے کی چنداں ضرورت پیش نہیں آتی ۔اس کی ناعاقبت اندیشی سے ۱۰ہلاکتیں ہو چکی ہیں اور 135 افراد زخمی ہوئے ہیں جن میں سے 70 افراد کوگولی لگی ہے۔ تادمِ تحریر کپل مشرا پر تشدد بھڑکانے دو معاملے درج کیے جاچکے ہیں۔ ان میں سے ایک شکایت عام آدمی پارٹی کی کارپوریٹر ریشما ندیم کی ہے اور دوسری حسیب الحسن نامی شخص نے درج کرائی ہے۔ان شکایات میں کپل مشرا پراشتعال انگیز بیان دے کر علاقے میں انارکی پھیلانے کا الزام لگایا گیا ہے لیکن حسب توقع امیت شاہ کی پولس نے ہنوز اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔
ان شکایات کے علاوہ سابق چیف انفارمیشن کمشنر وجاہت حبیب اللہ، بھیم آرمی کے سربراہ چندر شیکھر آزاد اور شاہین باغ کے رہنے والےبہادر عباس نقوی نے عدالت عظمیٰ میں عرضی داخل کرکے کپل مشرا پر فساد برپا کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مشرا کے خلاف قانون کا شکنجہ تنگ ہوچکا ہے۔ ملک کے امن پسند لوگ یہ دیکھنا چا ہتے ہیں کہ عدلیہ اور انتظامیہ کے ذریعہ اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتاہے۔ فساد زدہ علاقوں کا دورہ کرنے والوں کے مطابق اس تشدد میں مقامی لوگ ملوث نہیں ہیں بلکہ منصوبہ بند طریقے پر آس پاس کے گاؤں سے غیر سماجی عناصر کو بسوں اور ٹرکوں میں اینٹوں اور پتھروں کے ساتھ وہاں لایا گیا۔ سپریم کورٹ میں داخل عرضی میں یہ الزام بھی لگایا گیا ہے کہ پولس حملے میں زخمی ہونے والے لوگوں کی شکایتوں پر کارروائی کرنے میں ناکام رہی ہے۔عدالت سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ پولس کوایف آئی آر درج کرنے کی ہدایت دے۔اس مداخلت کی اپیل میں دہلی کے شاہین باغ اور دیگر مقامات پر خواتین کی حفاظت کو یقینی بنانے کی خاطر ہدایت جاری کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ وجاہت حبیب اللہ کا مطالبہ اس لیے بھی اہم ہے کہ عدالت عظمیٰ نے انہیں شاہین باغ والوں سے گفت وشنید کے لیے ثالث مقرر کیا تھا۔
دہلی کی سنگین صورتحال پر مرکزی وزیر داخلہ امتی شاہ کی صدارت میں کل جماعتی نشست کا اہتمام کیا گیا۔اس میٹنگ میں دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر انل بیجل، وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال، کانگریس پارٹی کے لیڈر سبھاش چوپڑا ، بی جے پی لیڈر منوج تیواری سمیت کئی سیاسی رہنما اورپولس کمشنر امولیہ پٹنایک بھی موجودتھے۔ نشست کے بعد وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے راج گھاٹ پر پریس کانفرنس میں کہا کہ ’’گزشتہ دو دنوں میں دہلی میں ہوئے تشدد سے پورا ملک فکر مند ہے۔ جان اور مال کا نقصان ہوا ہے۔ اگر تشدد بڑھتا ہے تو اس سے سبھی متاثر ہوں گے۔ہر کوئی چاہتا ہے کہ تشدد رکے۔ وزیر داخلہ کی میٹنگ مثبت تھی۔ میٹنگ میں فیصلہ لیا گیا کہ سبھی سیاسی پارٹیاں شہر میں امن کے قیام کو یقینی بنائیں ‘‘۔ کاش کہ یہ کوشش بار آور ہو ۔
اس افسوسناک صورتحال کا خوش آئند پہلو یہ ہے کہ ان سارے مسائل کے باوجود جعفرآباد میٹرو اسٹیشن کے نیچے خواتین کا مظاہرہ جاری ہے۔ مردوں نے انہیں حفاظتی گھیرے میں لیا ہوا ہے۔ پولیس اہلکار مظاہرین جانے کے لئے کہہ رہے ہیںلیکن احتجاج کرنےوالوں نے اٹھنے سے انکار کر دیا ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ ہم یہاں سے چلے جائیں گے لیکن پہلے تشدد کو بھڑکانے والے کپل مشرا کو گرفتار کیا جائے ۔ ایک طرف جئے شری رام کا نعرہ لگا کر املاک کو پھونکا اور عوام کو زدو کوب کیا جارہا ہے دوسری جانب مظاہرے میں شامل ایک شخص نے بی بی سی کے نمائندے کو بتایا کہ: ‘ہم پرامن احتجاج کر رہے ہیں۔ ہم امن چاہتے ہیں۔ کوئی بھی تشدد نہیں چاہتا ہے۔ پیر کو ہونے والے پُرتشدد واقعات کے بعد ہمارے ذہن پر خوف طاری ہے لیکن اب ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ہم متحد ہیں اور آئینی انداز میں اپنا احتجاج جاری رکھیں گے کیونکہ ہم ہندوستان کی اقدار پر یقین رکھتے ہیں۔ ہندوستان ہمارا ملک ہے اور ہم ہندوستانی ہیں ہم صرف انصاف چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ حکومت ہماری بات سنے۔ ہفتوں اور مہینوں تک سڑکوں پر کون بیٹھنا چاہتا ہے؟’ یہی وہ غیر معمولی عزم و حوصلہ ہے جس کے سبب ساری دنیا نے شاہین باغ کے طرز پر چلنے والی اس تحریک کو آزادی کے بعد ملک کا سب سے عظیم احتجاج کہنے پر مجبور کردیا ہے۔ اس طرح کی تحریکیں اللہ کی مددو نصرت سے کامیاب و کامران ہوتی ہیں ۔

نوٹ!!!صاحب تحریر کی آراستہ سے ادارہ صداٸے وقت کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔