Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, February 19, 2020

برہمن روز نٸے رنگ بدلتا کیوں ہے۔

از/مفتی انور خان /صداٸے وقت ۔
============================== 
 _آجکل NPR/NRC/CAA کے ہنگاموں میں جہاں عوام کی رائے کالے قوانین کی مخالفت کی بن رہی ہے، وہیں منووادی آریاؤں اور ان کے غلاموں کی سازش کالے قانون کے نفاذ کی برابر چل رہی ہے.

اِس شور وشغب کے درمیان ھندو عورت کے خلاف جو کھیل منووادی کھیل رہے ہیں، اس کی تفصیلات سے عوام بےخبر ہیں.

 خواتین کے لئے منووادیوں کی کتابوں اور دلوں میں جو میل کچیل ہے، اب اس سے پردہ اٹھنے لگا ہے، لیکن منوسمرتی کے پجاریوں کے مستقبل کے نقشے میں عورت کے حقوق ڈکلیئر کرنے سے سنگھ پریوار بڑی چالاکی سے آنکھیں چرا رہا ہے.

 نام نہاد اپرکاسٹ کے بھارت میں عام شہریوں کی شہریت کی طرح خود عورت کے مستقبل پر دوہرا سوالیہ نشان لگنے والا ہے.

  بھارت کی خواتین پر اپنی شہریت ثابت کرنے اور پھر عورت بن کر پیدا ہونے کے جرم کے، دو دو چارج لگنے والے ہیں.
اگر وہ شہریت بچانے میں کامیاب ہوگئی تو عورت ہونے کے جرم میں نسلوں تک ستائی جائےگی.

 بھاگوت نے شادی نہیں کی اور مودی نے شادی کرکے مکتی حاصل کی ہے، اس کے باوجود یہ دونوں عورتوں کے بارے میں مسلسل گیان دیتے رہتے ہیں، تو ان کے دماغ میں "منوسمرتی" کی عورت کا نقشہ ہوتا یے اور عورت کی حدبندی نگاہ میں ہوتی ہے.

 عورتوں پر منووادی برہمنوں کے مظالم کی طویل تاریخ ہے، جو مگدھ کے دراندازوں سے لے کر پونے کے برہمن پیشواؤں تک پھیلی ہوئی ہے.

 برہمن اپنی سیاہ تاریخ کو تو فی الحال تو چھپانا چاہتے ہیں لیکن موقع ملتے ہی دوبارہ اسے دوہرانا چاہتے ہیں.

 آج کے بھارت کی ھندو خواتین نے یوروپ کے لبرل ازم کے نظریات اور روس سے کمیونزم کے تصوّرات سے شہہ پاکر "برہمنی نظام" کے خلاف بغاوت کا اعلان کیا ہوا ہے اور وہ بھارت کے دور دراز کے علاقوں میں اپنی این جی اوز کے ذریعے بیداری مہم چلارہی ہیں، اور یہ چونکہ منوسمرتی کے خلاف ہے اس لئے منووادی برہمن خواتین سے خار کھائے بیٹھے ہیں.

 تعلیمیافتہ ہندو خواتین اور ان کے شوہروں  میں ناچاقی کے نتیجے میں ھندو سماج بری طرح بکھر رہا ہے اور ان کے یہاں "طلاقوں" کا سیلاب امڈ آیا ہے، تو منووادی برہمن اس سماجی سونامی کے لئے عورت کو قصوروار گردانتا ہے.

 لیکن زیادہ تعجب خیز بات یہ ہے کہ موہن بھاگوت نے عرصۂ دراز کے بعد جب ھندو-مسلم کے موضوع سے الگ ہٹ کر کوئی بات کی ہے تو ان کے ریمارک سے ھندو خواتین کے سر پر گھاؤ آیا ہے.

 بھاگوت نے بجائے یہ کہ طلاق کی کگار پر کھڑے ہندو مردوں اور عورتوں کے لئے "کاؤنسلنگ کانسیپٹ" پیش کرنے کے، الٹا وہ  ہزاروں سال پرانی "پرمپرا" اور "کتھا" سنانے بیٹھے ہیں اور طلاق کے بحران کا الزام صرف "اعلیٰ تعلیم یافتہ عورت" کے سر مڑرہے ہیں. 

 تین طلاق سے آر ایس ایس کی دلچسپی کی وجہ مسلم خاتون سے ہمدردی نہیں ہے بلکہ ان کا اپنا سماجی بحران بھی ہے، جس میں سات جنموں کے بندھن میں بندھنے والے ھندو جوڑے جب صرف ایک ہی جنم کے بندھن سے اوب جاتے ہیں، تو پڑوسی کی مصیبت دکھا دکھا کر آرام دلانے کی کوشش کی جاتی ہے، اسی طرح برسرِپیکار ھندو جوڑوں کو پڑوسی مسلمانوں کے تین طلاق کا بِل پاس کرنے لے حربے سے نفسیاتی راحت دینے کی کوشش کی ہے، یعنی یہ کہ صرف تمہاری ازدواجی زندگی عذاب نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کو بھی "تین طلاق بِل" کے ذریعہ چکرویوہ میں ڈال دیا گیا ہے.

 درحقیقت منووادیوں کو مسلم معاشرہ سے حسد ہے کہ سترسالوں تک مسلمانوں کی کمر توڑنے کے باوجود بھی مسلم جوڑے سماجی اور ازدواجی لحاظ سے نسبتاً مستحکم کیوں چلے آرہے ہیں اور کیوں طلاق جیسے تکلیف دہ مرحلہ کے بعد بھی وہ نئی زندگی اور نئی امنگوں کے راستے پر چل پڑتے ہیں.

 منووادی آریوں کے دل میں عورت کا مقام کیا یے اس کی تازہ مثال دیکھئے کہ پرسوں گجرات کے ایک کالج کی لڑکیوں کو قطار میں کھڑا کرکے ان کی پتلون اور شلواریں اتروا کر یہ جانچ کی گئی کہ وہ "ماہواری" سے ہیں یا نہیں.

 ھندو خواتین کے بارے میں ایک دھرم گرو کا بیان حال ہی میں ٹائمز کے "احمدآباد مِرَرْ" کے پہلے صفحے پر شائع ہوا ہے کہ ماہواری کی حالت میں کھانا پکانے والی "مجرم عورت" اگلے جنم میں "کُتیا" بن کر پیدا ہوگی.

 سونم کپور اور دیگر خواتین نے بھاگوت کے طلاق والے ریمارک کو احمقانہ، جاہلانہ اور فرسودہ قراردیا ہے، اور عورت کی اعلیٰ تعلیم کو طلاق سے جوڑنے والے بھاگوت کے ریمارکس کو مسترد کردیا ہے، تو ان خواتین کا غصہ اس لئے بھی ہےکہ منووادی اور آریائی برہمنوں کے مظالم کی گاج ہمیشہ عورت پر ہی گرتی ہے، اور یہ کہ عورتوں پر ستی جیسے اتیاچار کرکے برہمن "پُونیہ" کماتا رہا یے، بعید نہیں ہے کہ اقتصادی مار کے لئے وہ عورت کی ستی کا پرچار کرے، جسطرح بنگال سے کنیاکماری تک کیا تھا.

 آریائی ہندو خواتین خوب جانتی اور سمجھتی ہیں کہ بڑھتی ہوئی طلاقوں کے لئے بھاگوت صرف تعلیمیافتہ خواتین اور ان کی ملازمتوں کو الزام دے رہے ہیں تو اسلئے کہ ان کی ذہنی تربیت ہی عورت مخالف ہوئی ہے.

 بھاگوت کے ریمارک کا دوسرا مطلب یہ ہےکہ جب بھی موقع ملےگا تب لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم کو ممنوع قرار دیا جائےگا اور انہیں مخصوص شاستروں کی تعلیم دے کر مردوں کی نفسیاتی تسکین کی خاطر "اپسرا" بناکر "اندر سبھا" سے زمین پر اتارا جائےگا.

 خطرہ ہےکہ عورت کےخلاف برہمنوں کے ہاتھ میں یہ موقع شہریت کی افراتفری کی صورت میں آسکتا ہے کیونکہ اس وقت حقوقِ نسواں کے لئے آواز اٹھانے والے لبرل، کمیونسٹ اور مسلمان اپنی اپنی آگ بجھانے میں مصروف ہوں گے اور اِدھر دونوں سنسدوں کے اندر "پَرَسْتاؤ پارِتْ" ہوجائےگا. 

 سنگھیوں نے مسلمانوں، اقلیتوں، دلتوں، لبرلز، اور کمیونسٹوں کے لئے جسطرح شہریت بِل کا روڈمیپ تیار کیا ہے، اسی طرح اس نے عورت کے وجود کے لئے بھی تعلیم اور سنسکار کا "روڈمیپ" تیار کر رکھا ہے، جس میں عورت صرف منووادی آریاؤں کے گھر کی "باندی" ہوگی اور اس کی تعلیم کی چھوٹی موٹی حدیں مقرر کی جائیں گی.

 ملک کی ہر ریاست میں رہنے اور مقامی بولیاں جاننے والے علماء اور ٹیچرس کو چاہئے کہ وہ ہر زبان میں ہندوؤں کی کتابوں اور دستیاب ڈوکومنٹری سے ہندو سماج میں عورت کی درگت کو اجاگر کریں اور آریائی ھندوؤں کی خواتین کو آئینہ دکھا دکھا کر اپڈیٹ رکھاّ کریں کیونکہ اقدامی علمی حملے ہی ظالم کو مدافعت پر مجبور کرتے ہیں.

 منووادیوں کی حکومتوں میں عورتوں کا حشر کیا ہوگا اس کی مثال ہندوتوا کے آئیڈیل پُرُشْ یعنی آدتیہ ناتھ کی یوپی میں ملاحظہ کیجئے، جہاں مرنے کی حد تک یقیناً گائے کسی عورت سے بدرجہا بہتر ہے،  کیونکہ یوپی میں گائیں کم از کم لاچاری کی حالت میں سرکاری شیلٹروں میں مرتی ہیں، اور خواتین سڑکوں پر مار ڈالی جاتی ہیں اور کھیتوں میں کھدیڑ دی جاتی ہیں اور زنابالجبر کی شکار خواتین کے لئے باپ انصاف کی گہار لگاتا ہے،  تو اس»باپ کو گولی مار کر زیادتیوں کا ثبوت مٹا دیا جاتا ہے.

 یوگی کا یوپی عورت کے خلاف جرائم کی عالمی راجدھانی بنا ہوا ہے. 

  ہر ہندی بھاشی ریاست میں اگر  عورتوں پر مظالم یوریےہیں تو ضرور اس کی جڑیں منووادیوں کی تاریک تاریخ اور عورت دشمن کتابوں میں پیوستہ ہیں.

 مختصر اور عام فہم انداز میں منووادیوں کے مکروہ چہروں سے نقاب ہٹانے اور عورتوں پر بربریت کے ان کے سینکڑوں سالوں کے ریکارڈ کو عام کرکے، سنگھیوں کے شیش محل میں سرنگ لگانے کا وقت آگیا یے.

✍🏻 *بقلم: مفتی انور خان سرگروہ* 
نائب صدر: کاروانِ امن و انصاف 
فاضل: جامعہ اسلامیہ ڈابھیل، گجرات