Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, February 5, 2020

میں نے جنگ آزادی تو نہیں دیکھی۔۔شاہین باغ دیکھا ہے۔( شاہین باغ دہلی سے گراونڈ رپورٹ ).

از ڈاکٹر شرف الدین اعظمی /صداٸے وقت /٣ فروری ٢٠٢٠۔
==============================
دہلی کا شاہین باغ ہندوستان کی فسطاٸی طاقتوں سے آزادی کا گہوارہ بنا ہوا ہے ۔۔۔شہریت ترمیم قانون کے پاس ہوجانے کے بعد ہندوستانی شہریوں بالخصوص مسلمانوں پر این آرسی کی لٹکتی ہوٸی تلوار کے خلاف جب جامعہ ملیہ اسلامیہ و علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ نے احتجاج کی آواز بلند کی تو پولیس فورس کے ذریعہ حکومت نے اس کو دبانے کی کوشش کی۔طلبہ پر طاقت کا استعمال کیا گیا ۔ان پر مقدمے درج ہوٸے اور دونوں اداروں کو جبراً بند کرادیا گیا ۔۔یو پی میں جو آواز اٹھی اسکواش بزور طاقت دبادیا گیا۔قوم گومگوں کی کیفیت سے دوچار تھی ۔اگلا قدم کیا ہوگا کسی کو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا ۔ایسے میں شاہین باغ کی کچھ حوصلہ مند و باہمت خواتین نے احتجاج کرنا شروع کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے خواتین کا ایک جم غفیر ساتھ آگیا ۔ شاہین باغ سے ہوتے ہوٸے نوٸیڈا کیطرف جانیوالی سڑک پر مظاہرہ شروع ہوگیا۔سڑک جام ، راستہ بند ۔ایسے میں ایک روشنی کی کرن نظر آٸی اور دیکھتے دیکھتے شاہین باغ نے ایک تاریخ رقم کرڈالی۔ شاہین باغ کی خواتین نے اپنے آنچل کو ایک پرچم بنا ڈالا۔۔۔قومی جھنڈا ترنگا ہاتھ میں لیکر احتجاجی نعروں کے ساتھ شاہین باغ کی شاہینوں نے سرد موسم ، بارش ، ٹھنڈ بھری کپکپی پیدا کرنیوالی ہواٶں کی پرواہ نہ کرتے ہوٸے مستقل طور پر ( 24 گھنٹے).احتجاج شروع کیا جو کہ ہنوز جاری ہے۔
شاہین باغ احتجاج گاہ۔۔۔اسٹیج کا منظر۔

ایسے میں مردوں نے بھی اپنی ذمےداری نبھانے کا عزم کیا اور احتجاج گاہ کے چاروں طرف پہرہ داری کے ساتھ کھانے پینے کا انتظام ۔دودھ ۔چاٸے کا انتظام شروع ہوگیا۔نہ کوٸی ڈونیشن نہ کوٸی چندہ اور خوردنی اشیإ افراط۔۔۔حکومت کو بھی تشویش کہ خرچ کہاں سے آرہا ہے۔۔حکومت کے نماٸندوں شاہین باغ کے تعلق سے غلط فہمیاں پھیلانے والو کان کھول کر سن لو نہ کوٸی تنظیم نہ کوٸی کمیٹی اور نہ ہی کوٸی چندہ۔۔سب لوگوں نے منظم طریقے سے اپنی مرضی سے سب کچھ انتظام کیا ہے ۔۔لوگ گھروں سے کھانا بھی لاتے تھے خوردنی اشیا بھی لاتے رہے۔اور مقامی عورتیں گروپ بناکر باری باری سے اپنے گھروں کو جاکر کھانا کھاتیں اور پھر احتجاج گاہ میں آجاتیں۔اپنا بستر اپنا کمبل اپنی تکیہ اپنی رضاٸی ، نہ کسی سے کوٸی فریاد ۔۔بس ایک دھن ، ایک رٹ ، ایک عزم سی اے اے کو واپس لو ۔۔سی اے اے کو واپس لو۔ 
شاہین باغ پہنچنے پر اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں کیا کچھ چل رہا ہے اور کس منظم انداز سے چل رہا ہے۔۔ایک اندازے کے مطابق ہر وقت تقریباً دس ہزار مرد وخواتین کا ہجوم رہتا ہے اور یہ مجمع مغرب بعد سے اور بھی زیادہ ہوجاتا ہے ۔۔خاص احتجاج گاہ میں ہر وقت ملک کے مختلف حصوں سے آٸے ہوٸے وفد /سیاسی نماٸندے / ملی و دیگر سماجی تنظیموں کے نماٸندوں کی تقاریریں جاری رہتی ہیں ۔۔اس میں ساوتھ انڈیا اور پنجاب کے ڈیلیگیٹس کی موجودگی کی کثرت ہے ۔دلت ڈیلیگیٹس بھی کافی تعداد میں اس احتجاج میں شرکت کے لٸیے آتے رہتے ہیں ۔پنجاب ، مہاراشٹر ، کرناٹک اور چھتیس گڑھ کے دلت وفد بطور خاص ہیں۔۔
نظامت کے فراٸض لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کے ہاتھ میں رہتی ہے اور والنٹیرس ہر وقت ہر طرح کی سچیویشن کے لٸیے تیار رہتے ہیں۔لوگوں کو اپنے خیالات کے اظہار کے لیۓ بھی افراد کا انتخاب بہت ہی محتاط انداز میں کرنے کی ضرورت ہے۔
خاص احتجاج گاہ سے ہٹ کر ١٥ سے بیس سال کے لڑکے اپنے انداز میں نعرے بازی کرتے رہتے ہیں۔ان لڑکوں کے جوش و جذبہ قابل دید ہے۔ان کو دیکھ کر یہ اندازہ آسانی سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہندوستان کی جنگ آزادی کی لڑاٸی میں کس طرح سے نوجوانوں نے حصہ لیا ہوگا اور ہنستے ہنستے پھانسی کے پھندے کو بھی چوم لٸیے ہوں گے۔۔۔
شاہین باغ احتجاج گاہ کے سامنے بڑی بڑی دکانیں اور شو روم ہیں جو کہ مکمل بند ہیں۔۔جانکاری ملی کہ بہت سے دکان
داروں کے مالکوں نے احتجاج کے رہنے تک کرایہ بھی معاف کردیا ہے۔
آج سکھوں کا لنگر پھر سے شروع ہوگیا ہے ۔سکھوں کا ایک جتھہ ٹرک پر خوردنی اشیإ کے ساتھ بڑے بڑے دیگوں اور دیگر برتنوں کے ساتھ آیا اور ایک کنارے اپنا ٹینٹ لگا کر کھانا پکانا شروع کردیا ۔ہر سردار کے پاس کندھوں سے لٹکتی ہوٸی تلوار اور کمر سے بندھی ہوٸی کرپان (دونوں سکھوں کی مذہبی شناخت ہے اور لیکر چلنے کی پرمیشن ہے ).چہرے پر خدمت خلق کا جذبہ لٸیے اپنے خیمے میں موجود اپنے فراٸض کو انجام دے رہا تھا۔درمیان میں کبھی میڈیا والے اور کبھی عام لوگ کچھ سوالات کرتے تو بہت ہی شاٸستگی اور پر اعتماد لہجہ میں ان کو جواب دیتے رہتے۔
یہاں پر ہر وقت آنے و جانیوالوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔میرے یہاں پہنچنے پر بھی کٸی ایک شناسا لوگوں سے بھی ملاقاتیں ہوٸیں ۔عتیق اعظم موضع پھدگدیا  اعظم گڑھ۔روازانہ جامعہ اور شاہین باغ دونوں مقامات پر کچھ وقت ضرور دیتے ہیں۔ڈاکٹر نازش احتشام اعظمی ایک معروف نام۔۔میڈیکل افسر ہیں  ڈیوٹی کے بعد روزانہ شاہین باغ پہنچتے ہیں۔ڈاکٹر ادریس قریشی ڈاکٹر مذکر خان  اور بھی کٸی ایک شناسا لوگوں سے اس احتجاج گاہ میں ملاقات ہوٸی جو روزانہ یہاں پر آتے ہیں۔
جنگ آزادی کا دور (1857 سے 1947 ).دیکھنے والی نسلیں تو اب تقریباً ختم ہوچکی ہیں ۔۔مگر جس نے شاہین باغ دہلی کا احتجاج دیکھا ہے وہ بجا طور پر کہھ سکتا ہے کہ ، 
میں نے جنگ آزادی تو نہیں دیکھی ، شاہین باغ ضرور دیکھا ہے۔
آج شاہین باغ یا سی اے اے کے خلاف احتجاج کررہے انقلابیوں پر جو طبقہ اعتراض کر رہا ہے وہی طبقہ ملک کی آزادی کی لڑاٸی میں بھی  اعتراض کرتا رہا ہے ۔مجاہد آزادی کی مخبری کرتا تھا ۔ان کے خلاف گواہی دیتا تھا اور ان پر انگلیاں اٹھاتا تھا۔