Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, March 28, 2020

کرونا واٸرس اور این پی آر۔۔


از/معصوم مرادآبادی نٸی دہلی /صداٸے وقت۔
==============================
مرکزی حکومت نے کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کے پیش نظر این پی آر کو غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس فیصلے سے ان کروڑوں لوگوں نے راحت کی سانس لی ہے جو این پی آر کے خلاف پورے ملک میں تحریک چلارہے تھے۔ وہ حکومت جو اس معاملے میں ایک قدم بھی پیچھے نہ ہٹنے کی بات کررہی تھی، اس نے اب اس عمل کو ہی ملتوی کرنے کا اعلان کردیا ہے۔یہ یقینی طور پر ان لوگوں کو قدرت کا بہت بڑا عطیہ ہے جو گذشتہ کئی مہینوں سے حکومت کے ایوانوں پر دستک دے رہے تھے اور  این پی آر کے انتہائی پریشان کن عمل سے باز رہنے کے لئے ملک گیر تحریک چلارہے تھے۔لیکن حکومت اس عوامی تحریک کو خاطر میں نہ لانے اور احتجاج کرنے والوں کو طاقت کے بل پر کچلنے کی روش پر گامزن تھی ۔ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ وہ ہر قیمت یکم اپریل سے اس کے پہلے مرحلے کو نافذ کرے گی۔حکومت نے زبان خلق کو نقارہ خدا نہیں سمجھا تو خدا نے ایک خوفناک وائرس کی شکل میں ایک نجات دہندہ بھیجا اور اس نے ایسے تمام لوگوں کے سرنگوں کردئیے جو خود کو زمین کا خدا سمجھنے کی غلط فہمی کا شکار تھے۔

ہم یہ تو نہیں کہیں گے کہ یہ مغرور اور بددماغ حکمرانوں پر خدا کی مار ہے لیکن اتنا ضرور ہے کہ گذشتہ تین مہینوں کے دوران حکومت کی مشنری اور پولیس نے این پی آر، سی اے اے اور این آرسی کے خلاف پرامن تحریک چلانے والوں کے ساتھ ظلم وستم کا جو معاملہ کیا ہے، اس نے ہندوستان کے ایک سیکولر جمہوری ملک ہونے پر سنگین سوالیہ نشان قایم کردئیے ہیں۔ پورے ملک میں شاہین باغ کی طرز پر شروع کئے گئے احتجاجی مظاہروں میں شامل لوگوں پر سنگین دفعات کے تحت مقدمات ہی قایم نہیں کئے گئے بلکہ ڈاکٹر کفیل جیسے کئی انسانیت کے خادموں کو کہیں قومی سلامتی قانون اور کہیں وطن دشمنی کے الزام میں سلاخوں کے پیچھے بھیجا گیا اور ان میں سے کئی لوگوں کے ہاتھ پاؤں توڑدئیے گئے۔یہاں تک کہ شمال مشرقی دہلی میں جاری دھرنے کو ختم کرانے کے لئے باقاعدہ خوفناک فساد کرایا گیاجس میں پچاس سے زیادہ لوگوں کی جانیں چلی گئیں۔
کروناوائرس کے پیش نظر ملک گیر سطح پر شٹ ڈاؤن کا اعلان کرنے سے قبل شاہین باغ سمیت دہلی اور ملک کے دیگر مقامات پر جاری دھرنوں کو بھاری پولیس بندوبست کے ساتھ ختم کرادیا گیا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ حکومت کے تمام ظالمانہ اقدامات اور جابرانہ طریقوں  کے باوجود سیاہ قانون کی مخالفت کرنے والوں نے ہار نہیں مانی ہے اور شاہین باغ کی شاہینوں نے کورونا وائرس کے خاتمہ کے بعد ایک نئی توانائی اور نئے حوصلے کے ساتھ میدان میں اترنے کا اعلان کیا ہے۔ اس درمیان ان کی یہ تحریک سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے جاری رہے گی۔
 اس معاملے میں حکومت کے کارندے اور خاص طور پر وزیر داخلہ امت شاہ جو زبان استعمال کررہے تھے وہ پوری طرح حاکمانہ غرور کی مظہر تھی اور ان کے رویے سے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ کسی جمہوری ملک کے حکمراں نہیں بلکہ کسی فسطائی مملکت کے بادشاہ ہیں جہاں زبان خلق کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی اور بادشاہ کا حکم ہی حرف آخر ہوتا ہے۔لیکن قدرت نے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہی سب سے بڑا بادشاہ ہے اور اس کے پاس حکمرانوں کا غرور خاک میں ملانے کے طریقے موجود ہیں۔ جولوگ خم ٹھونک کر اور سینہ چوڑا کرکے اس کی خدائی کو چیلنج کرنے اور اس کی مخلوق کو ستانے نکلے تھے اور ایک انچ پیچھے نہ ہٹنے کی باتیں کررہے تھے، وہ آج خوایک دوسرے سے ایک ایک میٹر کا فاصلہ بنا کر بیٹھ رہے ہیں۔
کورنا وائرس کے وبائی شکل اختیار کرنے کے نتیجے میں ملک کا پہیا پوری طرح رک گیا ہے اور لاک ڈاؤن کے بعد لوگ گھروں میں قید ہیں۔ ہر شخص کے چہرے پر تشویش کی لہریں ہیں اور وہ کرونا وائرس سے دنیا کے کئی انتہائی ترقی یافتہ ملکوں میں ہونے والے زبردست جانی نقصان کو دیکھ کر تشویش میں مبتلا ہے۔ ایسے میں سب سے بڑاسوال یہ تھاکہ ملک میں این پی آر کے تعلق سے گذشتہ کئی مہینوں سے جاری اعصابی جنگ کیا رخ اختیار کرے گی۔ یکم اپریل سے شروع ہونے والی مردم شماری پر بھی خطرات کے بادل منڈلانے لگے تھے۔ سب سے بڑا سوال یہ تھاکہ جب لوگوں کو ایک دوسرے سے جداکردیا گیا ہے تو مردم شماری کرنے والا عملہ کیسے لوگوں کے دروازوں تک جائے گا اور ان کے کوائف اکٹھا کرے گا۔کرونا وائرس سے بچنے کے لئے ملک گیر سطح پر جو ہدایات جاری کی گئیں اس کے نتیجے میں پہلے تو این پی آر اور مردم شماری 2021 کی ٹریننگ متاثر ہوئی۔ این پی آر کے لئے تیس لاکھ لوگوں کے گراؤنڈ اسٹاف کی ٹریننگ بھی شروع ہوگئی تھی لیکن کورونا سے تحفظ کے لئے بیشتر مراکز کو بند کرنا پڑا۔ کورونا کی وجہ سے این پی آر اور مردم شماری فارموں کی چھپائی بھی متاثر ہوئی۔ اس کے لئے لگ بھگ تین کروڑفارم چھپنے تھے۔ سرکاری منصوبے کے مطابق این پی آر کو اپ ڈیٹ کرنے اور ہاؤس لسٹنگ کا کام یکم اپریل سے 30 ستمبر تک پورا ہونا تھا۔ اس کے بعد دوسرے مرحلہ میں مردم شماری کا کام5سے 28فروری 2021تک اور اس پر نظر ثانی کا کام یکم سے 5 مارچ 2021تک ہونا تھا۔ مرکزی حکومت اس پوری سرگرمی کے لئے8 ہزار 754 کروڑ روپے کا بجٹ جاری کرچکی تھی۔ لیکن اب کورونا وائرس کے نتیجے میں اس پوری سرگرمی کو نئے سرے سے ترتیب دینا ہوگا۔ اس دوران کئی صوبوں کے وزرائے اعلیٰ نے وزیر اعظم کو خط لکھ کرمردم شماری اور این پی آر سروے کو معطل کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ انھوں نے لکھا کہ ہماری پوری مشنری کورونا وائرس سے لڑائی میں مصروف ہے۔ ایسے میں این پی آر اور مردم شماری سے وابستہ سروے سے میدانی کارکنوں اور دیگر لوگوں کو وائرس کا خطرہ ہے۔واضح رہے کہ این پی آر میں پہلی بارپچھلی رہائش کا پتہ، مادری زبان، آدھار نمبر،پاسپورٹ، ووٹر آئی ڈی، ڈرائیونگ لائسنس اور ماں باپ کی پیدائش کی معلومات طلب کی گئی ہیں۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ پچھلے دنوں وزیر داخلہ نے پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی زبردست ہنگامہ آرائی کے بعد این پی آر کے تحت ہونے والی مردم شماری میں کسی قسم کے کاغذات طلب نہ کرنے کا اعلان کیا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ کسی بھی شخص کے آگے ”ڈی“ نہیں لگایا جائے گا۔ لیکن اس کے باوجود لوگوں کو ان پر یقین نہیں تھا۔کیونکہ ابھی تک این پی آر کا فارمیٹ تبدیل نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی اس بات کی تحریری یقین دہانی کرائی گئی ہے۔یہ وہی وزیر داخلہ ہیں جنھوں نے پہلے آسام کی طرزپر پورے ملک میں این آرسی نافذ کرنے کی باتیں کیں اور پارلیمنٹ میں باقاعدہ اس کا اعلان بھی کیا گیا لیکن جب اس پر وایلا مچا تو وزیراعظم نے کہا کہ این آر سی پر تو کوئی بات ہی نہیں ہوئی لہٰذا اس پر فضول بحث کی جارہی ہے جبکہ خود صدر جمہوریہ نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کہا تھا کہ ملک میں غیرقانونی دراندازی سے نپٹنے کے لئے این آر سی کو ترجیحی بنیاد پر نافذ کیا جائے گا۔اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حکومت کے قول وفعل میں زبردست تضاد موجود ہے۔ حکومت نے اب تک آسام این آر سی کے تحت غیرقانونی قرار دئیے گئے ان 19 لاکھ لوگوں کی قسمت کا کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے جو غیرقانونی تارکین وطن قرار دئیے گئے ہیں اور جن میں غالب اکثریت بنگلہ دیش سے آنے والے ہندوؤں کی ہے۔عام خیال یہ ہے کہ شہریت قانون میں ترمیم ان ہی بنگلہ دیشی ہندوؤں کو شہریت دینے کے لئے کی گئی ہے۔ کیونکہ اس قانون کے تحت مسلمان تارکین وطن کو شہریت نہیں ملے گی۔ اس قانون پر پوری دنیا کو اعتراض اسی بات پر ہے کہ اس میں شہریت کو مذہب سے مربوط کیا گیا ہے جبکہ دنیا میں کہیں بھی شہریت کا تعلق مذہب سے نہیں ہے۔ اس قانون کا مقصد مسلمانوں کو اس ملک میں دویم درجہ کاشہری بنانا ہے جوکہ موجودہ حکومت کے فسطائی ایجنڈے کا حصہ ہے۔اس جانبدارانہ اور مسلم مخالف قانون سازی کے بعد ہندوستان پوری دنیا میں الگ تھلگ پڑگیا ہے۔ اس قانون کے خلاف سپریم کورٹ میں جو 160 عرضیاں داخل کی گئی ہیں، ان میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کی وہ عرضی بھی شامل ہے جس میں اس قانون کے خلاف سماعت کے دوران اقوام متحدہ کو بھی فریق بنانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ یہ ملک کی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ کسی ملک میں کسی قانون سازی کے خلاف ایک بین الاقوامی ادارے نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔حکومت نے اسے ہندوستان کے داخلی امور میں مداخلت قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔ یہاں بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان میں رہنے والے ہندوؤں پر ہونے والے مبینہ مظالم پر سوال اٹھاکر انھیں ہندوستانی شہریت کی پیشکش کرنا ان ممالک کے داخلی معاملات میں مداخلت نہیں ہے؟ این پی آر کا عمل غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی ہونا در اصل ان شاہینوں کی جیت ہے جنھوں نے آزاد ہندوستان کی تاریخ کے سب سے منظم احتجاج کی قیادت کی۔ ان شاہین باغوں کو طاقت کے بل پر بھلے ہی اجاڑ دیا گیا ہو لیکن ان کی بازگشت پوری دنیا میں سنائی دی ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مظلوموں کی آواز یں عرش سے بھی ٹکرائی ہیں جس کا نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے۔