Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, March 20, 2020

کرونا سے بچیں اور اپنی جیب بھی بچاٸیں۔۔۔۔۔حکیم نازش احتشام اعظمی


از/حکیم نازش احتشام اعظمی/صداٸے وقت۔19 مارچ 2020.
==============================
ہندوستان میں کل بروز جمعرات کرونا وائرس کے 22 نئے کیسز ، متاثرہ مریضوں کی تعداد بڑھ کر195 ہوگئی ہے۔حالاں کہ وائرس اسٹیٹ کی رپورٹ نے یہ تعداد 198 بتائی ہے۔اس وقت تک سب سے زیادہ متاثر ہ ریاستوں مہاراشٹرا اول مقام پر ہے۔ 
اس دوران مرکزی وزارت صحت و خاندانی بہبود اور ریاستی حکومتوں کے ذریعے اٹھائے جارہے تمام تر احتیاطی قدموں کے باوجود ملک میں کورونا وائرس کے متاثرین کی تعدادہر آئے دن بڑھتی جارہی ہے۔پی ٹی آئی سے جاری رپورٹ کے مطابق جمعرات کے روز ہی  22 لوگوں میں کوروناوائرس پازیٹیو پایا گیا ہے، ایک ہی دن میں اس وبا کا شکار ہونے والوں کی اتنی بڑی تعداد اس جانب اشارہ کررہی ہے کہ ابھی حالات مزید بگڑنے والے ہیں ، ساتھ ہی یہ بات بھی محل نظر رہنی چاہئے کہ گزشتہ تین دنوں کے دوران ہی 95 نئے کیسیز سامنے آئے ہیں۔اس سے بھی یہی سبق ملتا ہے کہ یہ وبا کبھی بھی ملک کے طول وعرض میں عبرت و بربادی  کی ناقابل فراموش داستان رقم کرسکتی ہے ۔لہذ ا بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ افواہوں پر دھیان نہ دینے کے باوجود یہ مرض شدت کے ساتھ ہندوستان میں تباہی پھیلانے کی طرف بڑھ رہا ہے، ہررو ز کورونا وائرس کے مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اسی جانب اشارے کررہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 195مریضوں میں سے محض 32 افراد غیر ملکی باشندے ہیں، جبکہ باقیماندہ تمام ہندوستانی شہری ہیں ، آج صبح صبح  وزارت صحت  وخاندانی بہبود حکومت ہند کے ذریعہ جاری بلیٹن کے مطابق ملک بھر میں اب تک 5 لوگوں کی موت بھی ہوچکی ہے۔حالاں کہ اس تعداد میں اس 32 سالہ نوجوان کو شامل نہیں کیا گیا ہے ، جو غالباً سوئزر لینڈ سے وطن لوٹا تھااور معمولی نوعیت کی علامات ظاہر ہونے کی وجہ سے اسے صفدر جنگ اسپتال کے آیسو لیشن یونٹ میں رکھا گیاتھا، لیکن گزشتہ شب اس نے صفدر جنگ اسپتال کے آیسولیشن وارڈ کی ساتویں منزل سے چھلانگ لگا کر خود کشی کرلی تھی ۔پہلے یہ دعویٰ کیا جارہا تھا کہ متاثرین  میں سے بیشتر دیگر متاثرہ ممالک سے ہی کورونا وائرس کو اپنے ساتھ لے کر آئے ہیں ، جبکہ حالیہ رپورٹ بتاتی ہے اب یہ مرض خود ہندوستان میں رہنے بسنے والوں کو بھی اپنا شکار بنانے لگا ہے ۔
بہر حال ایک معالج کی حیثیت سے اس وبا کے بارے میں حقائق کو سامنے لانا ہمارے لیےضروری معلوم ہوتا ہے۔جسے ہم یہاں قدرے تفصیل کے ساتھ قارئین کے سامنے رکھنا ضروری سمجھتے ہیں ۔ واضح رہے کہ نمونیا جیسی علامات اپنے اندر رکھنے والا کورونا وائرس ماضی میں بھی اپنا ایک خطر نا ک روپ دکھا چکا ہے۔
 چناں چہ آج سے 19 سال قبل سائنسداںکاہن ،جیفری اور کینتھ جیسے ماہرین کی ایک ٹیم نے اس موضوع پر ایک ریسرچ کی تھی جس کا عنوان تھا:
 History and Recent Advances in Coronavirus Discovery
یہ تحقیقی ریسرچ پیپر ’’The Pdiatric Infectious Disease Journal‘‘ کے ماہ  اکتوبر2005 کے شمارےمیں شائع ہواتھا۔اپنی تحقیق میںماہرین کی ٹیم نے کورونا وائرس کا پتہ لگاتے ہوئے لکھا ہے کہ :
Human coronaviruses, first characterized in the 1960s, are responsible for a substantial proportion of upper respiratory tract infections in children. Since 2003, at least 5 new human coronaviruses have been identified, including the severe acute respiratory syndrome coronavirus, which caused significant morbidity and mortality. NL63, representing a group of newly identified group I coronaviruses that includes NL and the New Haven coronavirus, has been identified worldwide. These viruses are associated with both upper and lower respiratory tract disease and are likely common human pathogens. The global distribution of a newly identified group II coronavirus, HKU1, has not yet been established. Coronavirology has advanced significantly in the past few years. The SARS epidemic put the animal coronaviruses in the spotlight. The background and history relative to this important and expanding research area are reviewed here.
رپورٹ کے مطابق انسانوں کو اپنا شکار بنانے والا کورونا جسے اس وقت NL Coronaکا نام دیا تھا۔ اس انفیکشن کا یہ  نام 1960 میں ہی نامزد کیا گیا تھا، بعد ازاں اس نے 2003 میں بھی اپنی شکل بدل کر بنی نوع انسان کو اپنا نوالہ بنانے کے لیے نمودار ہوا۔ مگر کورونا کا وہ انفیکشن سانس کی صرف ایک نلی کو متاثر کرتا تھا، جس سے متاثر فرد کو وہ موت کے منہ میں دھکیلنے میں ناکام رہا۔ جبکہ دسمبر 2019 میں چین کے ووہان شہر سےشروع ہونے والاکورونا وائرس انتہائی بھیانک رخ اختیار کرکے انسانوں پر حملہ آور ہوا ہے۔ جس نے اب تک چار ہزار چھ سو سے زائد افراد کو موت کے منہ دھکیل دیا ہے۔ جبکہ اجمالی طور پر اس وقت دنیا بھر تقریباً147 ممالک میں یہ وائرس پھیل چکا ہے اور (www.worldometers.info)کی رپورٹ کے مطابق تادم تحریرکورونا وائرس کے245,913 مریض اس وقت دنیا بھر میں متاثر ہیں اور10,048 افراد اس کا شکار ہوکر ہلاک ہوچکے ہیں۔ کورونا وائرس(Covid-19) کی موجودہ شکل اس لئے زیادہ ہلاکت خیزثابت ہورہی ہے کہ یہ سانس تمام نلیوں کو متاثر کرتا ہے اور حتمی طور پر گردے کو بالکل ناکارہ بنا دیتا ہے،جس کے سبب انسان کی موت یقینی ہوجاتی ہے۔ 
اگر عالمی ادارۂ صحت اور فارما ٹریڈ پر قابض ممالک نے سنجیدگی اور ایمانداری کا مظاہرہ کیا ہوتا تو پورے اعتماد کے ساتھ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ وقت رہتے دنیاکو اس تباہی بچایا جاسکتا تھا۔ہم یہ اس لئے کہہ رہے ہیں کہ آج سے سات برس قبل ہی 2013 میں@marco_Acotesنے 3 جون 2013 کی شام کوہندوستانی وقت کے مطابق 32:8   بجے اپنے ٹوئٹر ہینڈل سے یہ وارننگ دیدی تھی کہ۔۔۔۔Corona virus...its comingمسٹر مارکو کے اس ٹوئٹ کو 65 ہزار لوگوں نے ری ٹویٹ کیا تھا، جبکہ ایک لاکھ سترہ ہزار یوزرس نے اسے لائک کیا تھا۔ ری ٹوئٹ اور لائکس کے اس بڑے اعداد وشمار کو دیکھنے والا اس بات سے قطعی انکار نہیں کرسکتا کہ اس ٹوئٹ کو عالمی ادارۂ صحت اور انٹرنیشنل فارما کمپنیوں کے ذمے داران نے اسے نہیں دیکھا ہوگا، یا ان تک اس کی خبر نہیں پہنچی ہوگی۔ مگر کاروباری منفعت کوشی اور تجارتی نفع کو سامنے رکھتے ہوئے مذکورہ وارننگ کو نظر انداز کردیا گیا۔ اور آج جب یہی کوروناوائرس (Covid-19) قہر بن کر ٹوٹا ہے تو اس کا فائدہ براہ راست فار ما سیو ٹیکل کمپنیاں اور میڈیکل ایکویپمنٹ بنانے والے انسٹی ٹیوشنز کتنی دولت جٹارہے ہیں ، اس کی رپورٹ بھی جلد ہی دنیا کی نظروں کے سامنے ہوگی۔
فی الحال ہمارے لیے ضروری ہے کہ اس کی ابتدائی اور ظاہری علامات پر گہری نظر رکھیں اور شبہ ظاہر ہوتے ہی سرکاری اسپتال سے رجوع کریں۔یہ بات ذہن نشین رہے کہ کورونا وائرس کی باضابطہ کوئی دوا موجود نہیں ہے، لہذ ا کسی بھی حال میں پرائیویٹ اورسوپر اسپیشلٹی کے نام پر لوٹنے والے اسپتالوں میں جاکر اپنی گاڑھی کمائی کو برباد نہ ہونے دیں۔ وہاں بھی آپ کو انتہائی نگہداشت یا علیحدہ یونٹ یا آئسولیشن میں ہی رکھا جائے گا اور دوا کے نام پر صرف گلوکوز اور نمکیات کے گھول فلوئڈ کی شکل میں نسوں کے ذریعے چڑھائے جائیں گے، تاکہ آپ کی قوت مدافعت کمزور نہ ہونے پائے، بس اتنی سی تشخیص کے لیے انسانی جسموں کا کاروبار کرنے والے یہ پرائیویٹ اسپتال کروڑوں روپے آپ سے اینٹھ لیں گے۔جبکہ یہی تمام خدمات سرکاری اسپتالوں میں پرائیریٹی کے طور پر مفت فراہم کی جائیں گی۔