Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, March 14, 2020

عوامی تحریک ، مراحل اور مشاورت۔


از/ ڈاکٹر حسن رضا/صداٸے وقت۔
=============================
شہریت ترمیمی قانون کے حوالے سے مسلمانان ہند باالخصوص طلبہ ،نوجوانوں اور خواتین  نے آزادی کے بعداپنی ملی شخصیت ، ایمانی وجود اور اجتماعی جرآت کا جیسا بے باکانہ اظہار  بصورت احتجاج کیا ہے ۔اس نے اقبال کے لفظوں میں یہ ثابت کردیا کہ
   تقدیر شکن قوت باقی ہے ابھی اس میں
 ۔نادان جسے کہتے ہیں تقدیر کا زندانی 
یہی اس عوامی تحریک کی پہلی کامیابی ہے کہ اس نے کاسہ لیسی اور گدا گری کی سیاسی پالیسی کو ترک کرکے موجودہ بھارت میں اپنے اجتماعی اور ایمانی وجود کی اس تقدیر شکن قوت کا احساس دلا دیا ہے جو اس ملک میں نصرت الہی کا تازہ اشارہ  ہے .

حالیہ دنوں میں  ملت اسلامیہ کے بارے میں برادران وطن کا پرسپشن بھی بہت منفی ہو چلا تھا فرقہ پرست قوتیں تو ہمیں اب نرم چارہ ہی سمجھنے لگی تھیں جو ۲۰۱۹ تک کلائمیکس پر پہنچ گیا ،چناچہ ان گروہوں کے حوصلے بہت بڑھ گئے۔وہ ملک کی بیس تا پچیس کروڑ باخدا مسلم آبادی کو بدنام اقلیت یعنی “دہشت گردی اور دیش در وہی “کے خانے میں ڈال کر بے وقعت اور بے وزن کرنے کے لئے ہر طرح کی کوشش کررہے تھے اور اس سلسلے میں مکر و فریب جھوٹ اور پروپیگنڈے  کے عادی ہو گئے بلکہ جھوٹ گڑھنے میں  ایک طرح کی مہارت حاصل کر لی بلکہ کہا جاسکتا ہے کہ قوم نوح کی طرح مکروا مکرا کبارہ کو سیاسی وطیرہ بنالیا ہے عالمی صورت حال نے بھی اس کو تقویت پہنچائی ۔عالم عرب کے نادان دوستوں نے بھی “صیہون ہند ی “ کے سیاسی مکر کو نہیں سمجھا
اس وقت ہم لوگ جارح ہند توا کے دور ناحق سے گزر رہے ہیں یہ دور  ۱۹۹۲ کے بعد حادثہ انہدام بابری مسجد اور ۲۰۰۲  کے گجرات  میں مسلم نسل کشی سے شروع ہوا ہے جو دفعہ  ۳۷۰ اور اس کے بعد سی ای اے اور ایک خاص کرونولوجیکل آرڈر کے ساتھ ابھی جاری ہے اسی سلسلے کا خوںچکا باب  حالیہ سپریم کورٹ کا فیصلہ پرسنل لاء میں زبردستی مداخلت  تین طلاق کا جھٹکا ،لو جہاد  کے نام پر فتنہ پروازی ،دن دہاڑے معصوم نوجوانوں کی موب لنچنگ ،دل آزار  سیاسی بیان بازیاں بلکہ گالیاں تک ہیں ۔مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنا دینے کے بعد تاریخی انتقام کا جھوٹا فسانہ ختم نہیں ہوا ہے بلکہ اب ملت کی ایک خاص تعداد کو تیسرے  درجے کا شہری ایک بڑی تعداد کو ڈاؤٹ فل یعنی نیم شہری اور بقیہ کو نیم گور شہری بنانے کی سازش رچی جارہی ہے جو کرونوجیکل آرڈر میں  سی ۔اے اے ۔این آر سی اور این پی آر کا مکمل پیکیج ہے جس کے بعد نیم گور شہری کو اپنی تربت یعنی ڈیٹینشن کیمپ میں محشر  کا انتظار کرنا پڑے گا یہ ہے آج کا سچ جس کو بہت لوگ سننا اور سمجھنا نہیں چاہتے ہیں لیکن اب تو یہ نوشتہ دیوار سے آگے کی بات ہے
 اسی کے ساتھ یہ بھی سچ ہے کہ اس پورے سلسلہ حادثات میں جو ابھی جاری ہے اس سے ڈیڑھ  ماہ  قبل ایک ڈراؤنی خاموشی اور بھیانک سناٹا تھا بس میڈیا میں ایک دو آوازیں تھیں ،ایوان سیاست میں چند  بول تھے عدالت میں حیلہ ٹال مٹول کے سوا کچھ نہیں اور سماج میں جلے ہوئے خوابوں کی راکھ اور دبی ہوئی سسکیاں سنائ دے رہی تھیں اس گونگے بہرے اندھے جمہوریت کش ماحول میں موجودہ احتجاج کی پرزور آواز ،انصاف کی مضبوط صدا ،ہر ظلم سے آزادی کے بلند نعرے نے ملک و ملت کے زخم خوردہ جسم میں ایک نئی جان ڈال دی اور اپنی تار تار قبا اور خواتین کی چاک در چاک ردا کو سینے کا خود نیاحوصلہ پیدا کردیا ملت نے جیسے مشئت ایزدی کے اشارے کو سمجھ لیا اور اپنی حالت کو خود بدلنے پر  کمر بستہ ہوگئی جس سے  ہندوستانی فضا حریت مساوات انصاف اور بھائی چار گی کے  نغمے سے گونج آٹھی اور دستور ہند کے پری ایمبل کے حوالے سے “ ہم بھارت  “کے لوگ صف بستہ ہوگئے ۔چنانچہ عام مسلمان بالخصوص نوجوانوں اور خواتین میں ملی حمیت اور قومی غیرت کا اظہار نیز اہل ملک کے ساتھ  اتحاد اور بھائ چار گی (fraternity)کی انقلابی فضا سے حکومت کی پریشانی بڑھنے لگی  کیونکہ حکومت کو اطمینان تھا کہ وہ اس تحریک کو آسانی سے ہندو مسلمان کے خانے میں ڈال کر ناکام کردے گی اور دوسری طرف اب تک مسلمان قوم کا معاملہ ان لیڈروں کے ذریعہ  طئے ہوجاتا تھا جنہیں وراثت میں منصب ارشاد ملا ہے یاجو قوم کے غم میں اقتدار وقت کے ساتھ چاہے حکومت جس کی بھی ہو دسترخوان پر چوسی ہوئی ہڈیوں کی  حرص میں  پشت در پشت شریک ڈنر رہتے آرہے ہیں ۔لیکن اس احتجاجی تحریک میں ایسے لوگ وادئی حیلہ وحیرانی میں پریشان ہیں
 یہاں احتجاج میں تو بس عوام ہے اور عوام کا پورا کنبہ ہے عورت مرد جوان اور بچے ہیں اقتدار کی گلیوں سے ان کی راہ و رسم نہیں رہی ہے یہ تو سادہ عوام ہے جو فطری اور وجدانی انسانی شعور کے تحت  سر سے کھیل جانے اور فرعون وقت کے سامنے بے عصا سینہ سپر ہوجائے کا جذبہ فطری  صبر وثبات اور دوست دشمن کی سادہ سمجھ کے ساتھ رکھتےہیں سیاست ان کا پیشہ نہیں ہے وہ ایک فرض کے تحت بے ساختہ اور بے باکانہ تاریخ کے اس دوراہے پر کھڑیے اپنا فرض ادا کر رہے ہیں ان کے قلب پر ان اللہ لا يغير ما بقوم حتى يغىير ؤ ما بأنفسھم کا دوبارہ نزول ہوا ہے جس سے ان  کی رگوں میں  زندگی کی نئی حرارت دوڑنے لگی ہے 
تیرے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب ۔گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشاف
لیکن یہ تحریک کی پہلی منزل ہے جہان وجدانی شعور کی کار فرمائیاں ہم دیکھ رہے ہیں لیکن دوسری منزل کی طرف پیش رفت کے لئے وجدان کے ساتھ مشاورت ،اجتھاد اور اجماع کی مخلصانہ کوشش بھی ضروری ہے اور یہ مشاورت محدود حلقے میں نہ ہو اسلام میں مشاور ت کی حقیقی روح رسم مشاورت ،روایتی نشست ،تنظیمی یا دستور ی تقاضے کی صرف بجا آوری نہیں ہے ۔بلکہ تکریم بنی آدم ،عقل وشعور کی  سطح پر اجتماعی زندگی میں  بندگی رب کی تکمیل ،عجز ذات اور عزم منصبی میں توازن اور بڑی جواب دہی کے احساس سے لبریز قلب سلیم کا نتیجہ ہے جب کسی محلے شہر یا گروہ اور قوم کا ذمہ دار مشاورت کی طرف رجوع کرتا ہے تو وہ صرف خدا کے بندے کی طرف رجوع نہیں کرتا ہے بلکہ عقل و شعور کی سطح پر اجتماعی زندگی کے اسٹرکچر میں آداب بندگی بجا لاتا ہے قرآن نے اپنے عام اسلوب سے ہٹ کر نماز کے بعد مشاور ت اور تب انفاق کا ذکر کیا ہے اس  پر غور کرنا چاہئے ۔اسی کے ساتھ یہ بھی واضح رہے کہ جو امور جن لوگوں سے متعلق ہوں مشورے میں ان سب کی شمولیت کسی نہ کسی شکل اور کسی نہ کسی سطح پر ہونی چاہئے شہریت ،دستور ،جمہوری قدریں  مذہبی رواداری انسانی حقوق عدل اجتماعی ان سب باتوں کا تعلق  تمام بردار ان وطن سے بھی ہے۔اس لئے اگلے کامیاب اقدام کے لئے مشاورت کا حسب حال نظم رکھنا ضروری ہے۔میرا خیال ہے کہ عوامی احتجاج کے اس پہلے مرحلے ہی میں عام بیداری اور اس سے وابستہ والنٹیرس کی سیاسی تعلیم وتربیت کے ساتھ پورے ملک میں  ایک مشترکہ مشاورتی نٹ ورکنگ بھی فطری انداز سے تیار کرنا چاہئے تاکہ پہلے مرحلے کے بعد ہم اپنی جد وجہد کو اخلاقی بلندی مشاورت اور کامیابی کے ساتھ آگے لے جا سکیں اس سے ملت اور سماج میں نئی صلاحیتوں کے لوگ سامنے آئیں گے اور ہر سطح پر ہر گوشے سے ہر طبقے سے بہتر عملی اور اجتماعی لیڈرشپ ابھرے گی ۔جو آگے کے اقدام کے لئے راہ ہموار کرے گی برادران وطن کے ساتھ ایک نصب العینی رشتہ اور نیا مکالمہ استوار ہوگا ۔یاد رہے فسطائیت ابھی جاں بلب نہیں ہے لڑائ لمبی اور صبر آزما ہے اس لئے قریب الحصول اور طویل المیعاد دونوں طرح کے منصوبے پرعمل جاری رکھنا ہوگا اور یہ کام عوامی تحریک کے پس پشت تھینک ٹینک ،ایڈو کیسی گروپ اور لابنگ ٹیم سب کو مل کر کر نا ہوگا ایسی عوامی جنگ  میں تابوت سکینہ کا حصول بھی کم اہم نہیں ہے اور اس کام کے لئے بھی اسٹرٹجی کی ضرورت ہوتی ہے اور یہی کام لیڈرشپ کو انجام دینا پڑتا ہے لمبے سفر کے لئے چھوٹی چھوٹی کامیابیاں اور وقتی کامیاب پڑاؤ تابوت سکینہ کا کام کرتی ہیں پرامن جمہوری اور عوامی تحریک کو اب کامیاب مراحل سے گزارنا ہی ہمارا اصل امتحان ہے اللہ ہمارا حامی وناصر ہو والسلام
(۔ڈاکٹر  حسن رضا سرپرست یو ایم ایف جھارکھنڈ)