Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, March 29, 2020

کرونا واٸرس کا بحران ”نہ جاٸے ماندن نہ پاٸے رفتن“


                      از
             حکیم فخر عالم
ریجنل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف یونانی میڈیسن۔علی گڑھ/صداٸے وقت
==============================
      کورونا کے بحران سے پوری دنیا بے بس نظر آرہی ہے۔ہر سطح پر لاچاری  ہی لاچاری ہے۔ حکومت بے بسی میں ہاتھ کھڑے اور ہاتھ جوڑتے نظر آرہی ہے۔عوام میں دہشت اور ہراس کا ماحول ہے۔میڈیکل سائنس کی درماندگی کا عالم یہ ہے کہ اس کے پاس بچاؤ کے لیے نہ ہی ویکسین ہے،نہ تو علاج کے لیے مؤثر ادویات کی صورت میں کوئی چیز دستیاب ہے،جس سے طبی عملہ مجبور محض بنا ہوا ہے۔اس حالت میں گھروں میں قید رہ کر کورونا کی وبا سے زندگی بچانے کے سوا کو چارہ نہیں ہے۔اس طریقے سے محدود طبقے کی چارہ گری تو ہو سکتی ہے،مگر بڑی آبادی کے لیے یہ عملاً ممکن نہیں ہے، کئی بنیادی ضرورتیں جنہیں پورا کرنے کے لیے گھر سے باہر نکلنا مزدور طبقہ کی مجبوری ہے۔یومیہ اجرت والا مزدور گھر میں بیٹھ کر بیوی اور بچوں کی بھوک سے تڑپ اور بوڑھے والدین کی بیماری کا تماشائی نہیں بن سکتا۔خدشہ ہے کہ اس طرح کی پابندیوں کے علی الرغم وہ گھر سے نکلنے کی کوشش کرے گا،اس سے لاک ڈاؤن کے حکومتی اعلان کے بے اثر ہوجانے کا قوی امکان ہے۔
یومیہ اُجرت والوں کا اس وقت جو حال ہے،وہ کچھ ایسا ہے:
باہر وبا کا خوف ہے،گھر میں بلا کی بھوک
کس موت سے مروں میں ذرا رائے دیجیے
     کورونا وائرس کے بحران سے جو مسئلے پیدا ہوئے ہیں،ان کے کئی پہلو ہیں۔جو چیزیں حکومت کے دائرہِ اختیار میں ہیں ان میں اس کے مؤثر اقدام کی ضرورت ہے۔ان حالات میں سماج پر جو ذمہ دایاں عائد ہورہی ہیں انہیں محسوس کرتے ہوئے سماج کے لوگوں کو آگے آکر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
    کورونا وائرس کے بحران سے پیدا ہونے والے حالات اتنے سنگین ہیں کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بھی اس کے سامنے سپر ڈالتے نظر آرہے ہیں۔دنیا کی سب سے سپر سمجھی جانے والی طاقت امریکہ کی بے بسی سے سب کچھ سمجھا جا سکتا ہے۔اس بحران کی ہولناکی زندگی کے دوسرے شعبوں کو بھی زد میں لیتی محسوس ہوتی ہے۔تجارتی شعبہ تباہی کے دہانے پر آچکا ہے،جس سے معیشت بربادی کے کگار پر آگئی ہے،انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ(IMF) پہلے ہی اس بارے میں پیشین گوئی کر چکا ہے۔
     ہندوستان میں ابھی کورونا کی شروعات ہے،مگر روز یہ پاؤں پسارتا ہی جا رہا ہے۔یہاں کورونا پر نظر رکھنے والے ادارہ' کووڈ 19 اسٹڈی گروپ نے آگاہ کیا ہے کہ مئی تک اس کے اعدادوشمار تیرہ لاکھ تک پہنچ سکتے ہیں،وزیر اعظم بھی اپنے خطاب میں آگاہ کرچکے ہیں کہ بروقت یہ قابو میں نہیں آیا تو اکیس برسوں تک اس کے اثرات محسوس کیے جائیں گے۔
      موجودہ کورونا وائرس اپنی ساخت اور مرضی اثرات کے اعتبار سے میڈیکل سائنس کے لیے ایک نیا چیلنج ہے۔اس سے مقابلہ میں دشواری صرف اس کی سنگینی ہی نہیں،بلکہ یہ معاملہ بھی ہے کہ اس کی ماہیت،تشخیص اور علاج سے جڑے امور ابھی صحیح طور پر سمجھے نہیں جا سکے ہیں،لہذا مؤثر مدافعتی اقدام کما حقہ آگاہی کے بغیر نہیں کیے جا سکتے،اس بارے میں دنیا میں رائج تمام صحتی نظام ایک ہی صف میں کھڑے نظر آ رہے ہیں۔گویا اس معاملےمیں محمود اور ایاز کی حالت ایک دوسرے سے مختلف نہیں ہے ۔اس سے مقابلہ میں ابھی تک توجہ ایلوپیتھی ( ماڈرن میڈیسن)پر ہی ہے،حالانکہ وہ کوئی دعویٰ کرنے کے بجائے اب تک بے بضاعتی ہی ظاہر کرتی نظر آئی ہے۔ان حالات میں مناسب حکمتِ عملی یہ ہونی چاہئے کہ اس جد و جہد میں ایلوپیتھی کے ساتھ ملکی طبوں کے افادی کردار کو بھی مقابلہ آرائی کا حصہ بنایا جائے۔اس مرض کی شروعات چین سے ہوئی تھی،چین اس بیماری کو دنیا میں سب سے بہتر سمجھنے والوں میں شامل ہے۔وہ اس سے مقابلہ کے لیے ماڈرن میڈیسن کے ساتھ اپنے روایتی طریقہ علاج کو بھی ہتھیار بنا رہا ہے۔رپورٹ کے مطابق کورونا وائرس کے پچاسی فیصد متاثرین میں ٹریڈیشنل چائنیز میڈیسن بھی استعمال کی جارہی ہیں۔کورونا میں چین کی کسی حد کامیابی میں اس کے اس لائحہ عمل کا بڑا دخل ہے۔چین کا یہ تجربہ ہندوستان کے لیے خاصا مفید ہوسکتا ہے۔ہندوستان میں متعدد دیسی طبیں رائج ہیں۔اس ملک کی بڑی آبادی یونانی طب میں یقین رکھتی ہے،وبائی صورتوں میں ماضی میں بھی یونانی طب کا اہم کردار رہا ہے۔سارس اور سوائن فلو کی وبا کے زمانہ میں اس کی اثر پذیری کا مشاہدہ کیا جا چکا ہے۔اس تجربہ کی روشنی میں توقع ہے کہ کورونا وائرس کے حالیہ تعدیہ میں بھی یہ مؤثر رہے گی۔یونانی طب کی طرح کچھ لوگ ہندوستان کی دوسری ملکی طبوں میں یقین رکھتے ہیں ان کے علاج میں ان طبوں سے بھی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔
      وزیر اعظم نے اپنے حالیہ خطاب میں کورونا کے سلسلے میں آیوش سسٹم سے مستفید ہونے کی بات ضرور کی ہے، لیکن اس گفتگو میں ان کا سارا زور یوگا پر کنسنٹریٹ رہا۔میرے خیال میں یوگا کے علاوہ یونانی اور آیوروید اس سلسلے میں اہم افادی کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔انہیں بھی کورونا کی جنگ کا حصہ بنانا مفید عمل ہوسکتا ہے۔
     سارس اور سوائن فلو کی طرح کورونا سے مقابلہ کے لیے بھی یونانی طب کے حاملین کو آگے آنا چاہیے،مگر اس کے لیے انہیں تیاری کی ضرورت ہوگی۔covid-19 کی علامتیں کافی حد تک سامنے آچکی ہیں،انہیں دیکھ کر یونانی فلسفہ کی روشنی میں کورونا کی ماہیت اور اصول علاج طے کرکے موزوں ادویہ کے انتخاب کا کام کیا جا سکتا ہے۔یونانی طب میں وبائی امراض سے بچاؤ اور علاج کے لیے مؤثر ادویات کا اچھا بھلا ذخیرہ موجود ہے،اسے کارآمد بنانے کا یہ مناسب وقت ہے۔وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں دیسی ادویہ تیار کرنے والے اداروں سے سینیٹائزر جیسی مصنوعات بنانے کی اپیل کی ہے،اس کے ساتھ ان اداروں کو فوری طور ایسی دوائیں بنانے پر توجہ کرنے کی ضرورت ہے،جو کورونا سے تحفظ اور اس کے معالجہ میں کارآمد بن سکتی ہیں۔
       یہ وقت ہے سب کے ایک ساتھ آنے کا۔مختلف طبوں کو بھی مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔باہمی تعاون اور اشتراک سے کورونا وائرس سے لڑائی کا یہ مشکل مرحلہ کسی قدر آسان ہوسکتا ہے۔