نئی دہلی/صداٸے وقت 11/مارچ2020/ (ذرائع) ۔
=============================
اُترپردیش سرکار نے شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کی مخالفت کرتے ہوئے مظاہروں کے دوران ہوئے تشدد اور توڑ پھوڑ کے ملزمین کے پوسٹرس ہٹانے کے آلہ باد ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف بدھ کو سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی ہے۔
عدالت نے 9/مارچ کو لکھنو انتظامیہ کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ متعلقہ تمام ملزمین کے فوٹوز اور نام درج کئے گئے پوسٹرس 16/مارچ تک ہٹائے۔اُترپردیش کے ایڈوکیٹ جنرل رگھویندرا سنگھ نےبتایا کہ ریاستی حکومت کی اس اپیل پر سپریم کورٹ کی بینچ نے جمعرات کو سنوائی کرے گی۔ حالانکہ رگھویندرا سنگھ نے سپریم کورٹ کے حکم کے خلاف دائر اپیل کی بنیاد کیا ہوگی، اس سوال کا جواب دینے سے انکار کردیا۔
عدالت نے ریاستی سرکار کو یہ بھی حکم دیا تھا کہ قانونی نقطہ نظر کے بغیر ایسے پوسٹرس نہیں لگائے جائیں، عدالت نے ملزمین کے نام اور فوٹو کے ساتھ لکھنو میں سڑک کنارے لگائے جانے والے پوسٹروں کو فوری ہٹانے کی ہدایت دیتے ہوئے تبصرہ کیا تھا کہ پولس کی یہ کاروائی عوام کی پرائیویسی میں غیر ضروری مداخلت ہے۔ عدالت نے لکھنو ضلع کے مجسٹریٹ اور پولس کمشنرکو 16 مارچ یا اس سے پہلے کاروائی کی رپورٹ داخل کرنے کا بھی حکم دیا تھا۔
واضح ر ہے کہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف لکھنؤ میں احتجاج میں مبینہ طور پر سرکاری اور غیر سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے والوں کی تصاویر عوامی مقامات پر لگا دی گئی ہیں۔ اس کے خلاف دائر عرضی پر سماعت کرتے ہوئے اتوار کو الہ آباد ہائی کورٹ نے ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا کون سا قانون ہے جس سے حکومت کو عوامی مقامات پر تصاویر چسپاں کرنے کا حق مل جاتا ہے۔
ان پوسٹروں میں شائع کئے گئے ناموں اور تصویروں میں سماجی کارکنوں اور لیڈران سمیت صدف جعفر اور سابق آئی پی ایس عہدیدار ایس آر داراپوری کے نام بھی شامل ہیں۔ یہ پوسٹرس لکھنو کے اہم چوراہوں پر لگائے گئے ہیں۔