Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, March 28, 2020

جمعہ اور جماعت کے سلسلے میں ہمارے فقہإ اور مفتیوں کا رویہ یہودی کے احبار و رہبان جیسا ہے ؟

/شکیل احمد ندوی مقیم بحرین /صداٸے وقت /ڈاکٹر نازش احتشام اعظمی۔
==============================
جمعہ اور جماعت کے سلسلے میں ہمارے فقہا اور مفتیوں کا رویہ یہود کے احبار و رہبان جیسا ہے ۔یہودیوں کے عوام و خواص کے دینی و اخلاقی بگاڑ سے قرآن مجید نے امت محمدیہ کو واضح طور پر آگاہ کر دیا تھا کہ تم سے پہلے جو امت مسلمہ( بنی اسرائیل ) تھے اس کی گمراہی اور بالاخر منصب امامت سے معزولی کے کیا اسباب تھے ؟ اب جبکہ انہیں معزول کر دیا گیا اور منصب امامت پر تمہیں فائز کیا گیا تو تمہیں ان pitfalls یعنی گڈھوں کو اچھی طرح دیکھ اور سمجھ لینا چاہئے جن میں بنی اسرائیل گرے اور ان کی ہلاکت کا سبب بنے تاکہ تم محفوظ رہو ۔سورہ بقرہ میں بنی اسرائیل کی حکایت اور اس کی تفصیلات زیب داستاں کے طور پر نہیں بیان کی گئی ہیں بلکہ پرابلمس اینڈ چیلنجز کی ایک کیس اسٹڈی ہے جو امت مسلمہ کے سامنے برائے تعلم و تذکر پیش کی گئی ۔مگر بڑے دکھ اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ فقہی موشگافیوں(لفظی ترجمہ بال کی کھال ادھیڑنا ) میں ہمارے علماء اور عوام سب کا حال یہود جیسا ہے ۔بظاہر تو متقیانہ شان نظر آتی ہے بباطن کچھ نہ کرنے کی خواہش ہے إن الله يأمركم أن تذبحوا بقرة قالوا اتتخذنا هزوا ،آج ہفتوں سے جو بحث چل رہی ہے اس میں ٹھیک ذبح بقرہ کی تمثیل نظر آتی ہے ۔میں نے آج ہمارے مدارس اور جماعتوں اور ان کے علماء و فقہاء پر نفسیاتی پہلو سے غور و فکر کیا تو مجھے میرا مطالعہ خطرناک نتائج کی طرف لے جاتا ہے میں اس کو نہیں شیئر کرنا چاہتا البتہ چند ہلکی پھلکی باتوں کا ذکر بطور اشارہ کافی ہوگا عقلمندوں کے لئے اشارہ کافی ہے ۔ ہر حال میں یہ تاثر دینا کہ ہم بہت زیادہ تقوی اور خشیت برتنے والے ہیں، پرہیزگاری اور پاکبازی میں ہم کسی شک و شبہ سے بالا تر ہیں، علمائے حق ہم ہیں حق ہمارے ساتھ ہے الحق يدور معهم أينما داروا، ہمیں لازما اصدار فتوی میں سبقت حاصل ہونی چاہئے کسی دیگر عالم اور جماعت کو ہم سے پہلے فتوی صادر کرنے کی جسارت نہیں کرنی چاہئے یہ حق ان کے لئے بحق سرکار محفوظ ہے، اگر کسی نے فتوے صادر کرنے میں سبقت کرنے کی جرات کی تو خواہ ہزار بار وہ قرآن و سنت کے مطابق اور ان کی روشنی میں ہو اس کی تردید لازمی ہے یعنی انانیت و غرور کا مسئلہ ہو جاتا ہے ۔فتوی بازی میں اپنے ادارے اور بزرگوں کی گزشتہ آراء و فتاوی کا لحاظ برتا جاتا ہے، یہاں بزرگوں سے خطا اور چوک کا امکان ہی نہیں ہے بلکہ بزرگوں سے ہٹ کر کوئی رائے قائم کرنے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا، مسلک اور جماعت کے سب اسیر ہیں ۔یہود کے مدارس فقہیہ کا یا تالمود کا آپ مطالعہ کریں تو ان کی ساری خامیاں خرابیاں معایب اور مساوی ہماری فقہ اور فقہا میں نظر آئیں گی ۔  اشکنازی مدراش کا مطالعہ آپ حضرات کے لئے مفید رہے گا ۔۔ آخری بات عالم عرب کے سیاسی حالات اور مسائل کو آپ ایک جانب کریں جس کو جو کچھ کہنا اور ماننا ہو کرے مگر جہاں تک علماء اور علم دین کی گہرائی و گیرائی کی بات ہے الحمد للہ خلیجی ممالک میں خصوصا سعودی عرب میں بڑے جید علماء کرام ہیں جو نہ صرف علم و فضل کا ہمالیہ ہیں بلکہ تقوی اور خدا ترسی میں بھی بے مثال ہیں فقہی امور میں جو کذا فی الہدایہ اور فی العالمگیری یا کما جاء فی الوقایہ و فتح القدیر او الشامی وغیرہ وغیرہ کہنے والے نہیں بلکہ برجستہ قرآن و حدیث سے نصوص نقل کر کے مسائل پر اعتماد سے گفتگو کرنے والے حقیقی اصحاب علم ہیں، انہوں نے اپنے ملک کے حالات اور کورونا وائرس کی وبا کے اثرات و خطرات کا عالمی اداروں و تنظیموں کی رپورٹس کی روشنی میں وطن کے دیگر اصحاب اختصاص کے ساتھ بیٹھ کر مطالعہ اور غور و خوض کیا گویا ایک ٹیم جس میں طبی ماہرین، معدی امراض کے انسداد کے اکسپرٹس، انتظامیہ وزارت داخلہ خارجہ مالیات اور شئون اسلامیہ نے مشترکہ غور و فکر اور احساس ذمہ داری کے نتیجہ میں اجتماعات پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ۔مساجد میں نماز باجماعت میں شرکت نمازیوں کے لئے اور ان کے ذریعہ ان کے افراد خاندان کے لئے صحت کے لحاظ سے خطرے کا باعث بن سکتی ہے چنانچہ مساجد کے بند کرنے کا فیصلہ ہوا اور اس فیصلے کو عوام نے بغیر کسی پریشانی ناراضگی اور تردد کے قبول کیا ۔بعد ازان کوئی یہودیانہ بحثیں نہیں ہوئیں کہ مساجد یہ کھولے وہ بند کرے فلاں فلاں جماعت کا اہتمام کریں وغیرہ یہ سب بکواس ہے ۔بس مساجد سے وقت پر اذان دی جاتی ہے یہ موذن کے اوپر ہے کہ وہ مسجد میں نماز پڑھے یا اپنے گھر جا کر پڑھے ۔ایسی کوئی بحث ہی نہیں ہوئی ۔ہندوستان میں مفتیان بنی اسرائیل کے زیر اثر لوگوں میں ایک جذباتی بلکہ بناوٹی پرہیزگاری بھڑکا دی گئی ہے ایسا لوگ مساجد سے چپک گئے ہیں جیسے سارے کے سارے پنج وقتہ باجماعت نماز پڑھنے کے عادی ہیں اس لئے ان پر شاق گزر رہا ہے جبکہ مساجد کی حاضری سے ہم اپنے گاؤں اور اطراف میں خوب واقف ہیں ۔خیر اللہ کے  فضل و کرم سے ہم ذاتی طور پر تو مساجد میں نماز پڑھنے کے نہ صرف عادی ہیں بلکہ ہمیں لطف بھی آتا ہے اور بجائے کار کے ہم ذرا دور والی مسجد میں پیدل چل کر جاتے ہیں مگر جس دن اعلان ہوا کہ آج مغرب سے مسجدیں بند رہیں گی تو ہمیں کچھ سمجھنے میں غلطی ہوئی اور سوچا کہ آج آخری نماز لازما مسجد میں ادا کی جائے اور پیدل چل کر کچھ وقت سے پہلے ہی پہنچے دیکھا کہ دروازے پر تالا پڑا ہوا ہے ادھر ادھر دیکھا کوئی نظر نہ آیا ،ایک بچے نے ہم سے پوچھا کہ نماز کے لئے کھڑے ہیں؟ ہم نے ہاں کہا تو وہ ہنسا اور بولا کہ آج مسجد بند ہونے کا اعلان ہو چکا ہے ۔ہم خاموشی سے واپس چلے آئے اور گھر نماز پڑھی ۔میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مجھے اول وہلہ میں کچھ حسرت کا احساس تو ضرور ہوا مگر پھر بالکل نارمل ۔میں نہیں سمجھتا کہ نعوذ باللہ میرے اندر مساجد کی حرمت اور نماز باجماعت کی عظمت کا احساس نہیں ہے ۔ یہ بھی بتا دوں کہ ان علاقوں میں بھانت بھانت بولیاں نہ بولی جاتی ہیں اور علماء و عوام اسے پسند کرتے ہیں ۔ وزارت شئون اسلامیہ یا اوقاف سنیہ کی طرف سے ایک اعلان ہو گیا بس وہ اعتماد کے لئے کافی ہے ۔ہاں پہلے روز بعض کمپنیوں میں بنگلہ دیشیوں پاکستانیوں اور بھارتیوں نے اپنی عجمی طبیعت اور فساد ذہن کا ثبوت دیا کہ چھتوں پر یا کیمپوں میں کہیں نماز باجماعت کا اہتمام کیا مگر انہیں فورا ہی نرمی سے تنبیہ کر دی گئی اور جب کورونا کی تباہ کاریاں سامنے آئیں تو پھر گدھوں کی سمجھ میں بھی بات آنے لگی ۔ میں نے بیٹھے بیٹھے بے ترتیب اتنا کچھ لکھ ڈالا میرا کوئی ارادہ نہیں تھا مگر میں دیکھ رہا ہوں کہ ہندوستان میں من کل حدب و صوب  بے تکے فتاوی، خوابوں کے مبشرات اور بزرگوں کے مجربات و عملیات کی دھواں دھار بارش ہو رہی ہے تو اپنے آپ کو روک نہ سکا میں خیالات کی بے ترتیبی کے لئے معذرت خواہ ہوں ۔