Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, March 28, 2020

کرونا واٸرس کی آڑ میں فرقہ واریت کا فروغ !!!

از/محمد خالد اعظمی /صداٸے وقت۔
========================
بلا شبہ کرونا وائرس کی موجودہ شکل نوع انسانی پر ایک عذاب کی شکل میں نازل ہوئی ہے اورترقی پذیر و  ترقی یافتہ کہے جانے والے دنیا کے  تمام ممالک اور انکی  حکومتیں بظاہر اس خدائی قہر کے سامنے بے بس نظر آرہی ہیں ۔ اٹلی، اسپین ، امریکہ، جرمنی اور برطانیہ اور خود چین جدید  طبی سہولیات اور    عوامی صحت کے معاملے دنیا میں سب سے آگے ہیں لیکن اس کے باوجود اس وبا کے سامنے بالکل بے بس و لاچار نظر آرہے ہیںں ۔متاثرین اور اس کی وجہ سے فوت ہو جانے والوں کی تعداد  میں لگا تار اضافہ ہو رہا ہے۔ ہمارا ملک دواؤں اور جدید عوامی طبی سہولیات  کی ممکنہ حصول یا بی میں کس مقام پر ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں ، وطن عزیز کا ہر فرد بچہ اور بڑا اس سے بخوبی واقف ہے۔ اس صورتحال میں صرف اور صرف بچاؤ ہی ایک قابل حصول علاج ہے اور حکومت بھی ملک میں لاک ڈاؤن کا اعلان کرکے اپنی ذمہ داریوں سے آزاد ہو چکی ہےُ، ہسپتالوں وغیرہ میں طبی سہولیات، ماسک ، کٹ یا ونٹیلیٹر  کے نام پر حکومت کے پاس کچھ نہیں ہے۔

موجودہ صورتحال میں ہمیں اس بات پر بار بار غور کرنا ہے کہ کیا بیماری سے بچاؤ کے لئے مجوزہ احتیاطی تدابیر پر پوری طرح عمل پیرا ہیں یا اسے بھی تفریح طبع کا ایک ذریعہ سمجھ کر ہمارے نوجوان سڑکوں پر گھوم رہے ہیں۔ ملک کا موجودہ سیاسی نظام اور اسکی مددگار گودی میڈیا  اس بحران میں بھی مسلمانوں کو بد نام کرنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے ہیں اور شائد ہم جانے انجانے انہیں اس کا موقع بھی فراہم کر رہے ہیں یا شائد خود ہمارے ہی لوگ پولیس کے ذریعہ مسلمانوں کو مسجدوں میں گھس کر مارنے کا ویڈیو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرکے جگ ہنسائی کا سامان پیدا کر رہے ہیں ۔ ابھی تک  ایک خبر چلائی جارہی تھی کہ اس بیماری سے متاثر ہونے والے اسی  فیصد مسلمان ہیں اور وہی ملک میں اس بیماری کو پھیلانے کا ذریعہ بن رہے ہیں اور اس کے پس منظر میں بار بار مساجد اور با جماعت نماز کا حوالہ دیا جارہا ہے، ۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ مسجدوں کے منتظمین اور متولیان پہلے دن سے جماعت اور جمعہ کو مؤخر کرنے اور نماز گھر پر پڑھنے کے لئے اعلان کر رہے ہیں اور لگاتار کر رہے ہیں اور ملک کی تقریباً تمام ہی مسجدیں اس وقت بند ہیں اور اذان کے ساتھ صرف امام اور مؤذن ہی مساجد میں نماز ادا کر رہے ہیں۔لیکن نزلہ تو عضو ضعیف پر گرتا ہے اور وہ ہر حال میں مسلمانوں پر گر کر رہیگا۔ اس سلسلے میں بہر حال اس بات پر نظر رہنی چاہئے کہ احتیاطی تدابیر میں ہماری طرف سے کہاں کہاں کمی ہو رہی ہے۔

حکومت کی نااہلی اور غربت و افلاس کے مارے مزدوروں کی تصویریں روز بروز سوشل میڈیا پر گشت کر رہی ہیں کہ کس طرح ان غریب اور بے یار و مددگار مزدور عوام کا جم غفیر سڑکوں پر ہجوم کی شکل میں اپنے اپنے صوبہ، شہر اور گاؤں کی طرف رواں دواں ہے  اور کوئی سپاہی ، پولیس انکی سوشل ڈسٹنسنگ کے لئے وہاں پر  موجود نہیں ہے ، دہلی  لکھنؤ اور دیگر بڑے شہروں سے نکلنے والی سڑکوں پر عوام کا ازدہام ہے لیکن وہاں نہ ڈنڈا بردار پولیس ہے اور نہ ان کی وجہ سے کچھ  کوئی بیماری پھیلنے کا خطرہ ہے ،ان لوگوں کے لئے نہ پولیس کے پاس کوئی ایکشن پلان ہے اور نہ حکومت ہی کے پاس کوئی انتظام ہے۔ دوسری  طرف مسجد میں اگر صرف پانچ  سات مسلماں  دروازہ بند کرکے ماسک لگا کر جماعت کر رہے ہیں تو پولیس گندی گندی گالیاں بک کر ان پر بے تماشہ ڈنڈے برسا رہی ہے ۔  دور  دراز یہاتوں میں بھی اگر کوئی راشن یا سبزی کے لئے  نکلتا ہے تو پولیس اسے بے عزت کرنے سے باز نہیں آرہی ہے
موجودہ فرقہ وارانہ ماحول میں جبکہ مسلمانوں کو بدنام کرنے اور انکے سماجی  بائیکاٹ کا کوئی موقع حکومتی ادارے اور گودی میڈیا نہیں چھوڑ رہا ہے  ، مسلمانوں کو ہرقدم بہت سوچ سمجھ کر اٹھانا چاہئے ، شاہین باغ کے دھرنے کو لیکر میڈیا چیخ رہا تھا کہ اس کی وجہ سے پورے ملک میں بیماری پھیلنے کا خطرہ ہے لیکن دوسری طرف  تالی ، تھالی اور  سنکھ کے تیوہاری جماوڑے پر ہر طرف خاموشی۔ موجودہ حالات میں اس طرح کی کئی مثالیں  دی جا سکتی ہیں ،لیکن یہ ہمارے لئے کوئی مثال نہیں بن سکتی ۔ہمیں ہر حال میں  اس وقت حکومتی احکامات پر عمل پیرا ہونا ہے تاکہ یہ خطرناک بیماری ہم تک نہ پہنچے اور خدا نخواستہ  ہماری وجہ سے کسی اور کو نہ لگ جائے  ۔

( محمد خالد  اعظمی)