Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, March 9, 2020

مظاہرین کے پوسٹرلگانےکا معاملہ:آلہٰ آباد ہائی کورٹ نے یوگی حکومت کولگائی پھٹکار، دیا ہٹانے کا حکم۔

پریاگ راج /اتر پردیش /صداٸے وقت۔/٩ مارچ ٢٠٢٩۔
============================
الہ آباد ہائی کورٹ نے پیر کے روز لکھنؤ کی ضلع انتظامیہ کو ریاستی دارالحکومت میں لگائے گئے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہرہ کرنے والے مظاہرین کے ہورڈنگزکوہٹا دینے کا حکم دیتے ہوئے حکام کو 16 مارچ تک تفصیلی رپورٹ داخل کرنے کو کہا ہے۔اس سےپہلے اتوار کو ہائی کورٹ نےشہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کی مخالفت میں مظاہرے کے دوران تشدد کے ملزمین کی ہورڈنگ لگانے کے معاملے میں اظہارِ ناراضگی کی ہے۔ریاست کی یوگی حکومت نے لکھنؤ میں 19 دسمبر کو ہونے والی تشدد میں عوامی جائداد کو نقصان پہنچانے والے افراد کے ہورڈنگس لگائے تھے ۔جس پر الہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس گووند ماتھر نے ازخود نوٹس لیا۔ چھٹی ہونے کے باوجود اتوار کو چیف جسٹس ماتھر اور جسٹس رمیش سنہا کی بینچ نے اس پر سنوائی کی۔
بینچ نے کہا کہ مبینہ سی اے اے مخالف مظاہرین کے پوسٹر لگانے کی حکومت کی کاروائی ناانصافی ہے۔ یہ متعلقہ افراد کی شخصی آزادی پر حملہ ہے۔یاد رہےکہ لکھنؤ میں انیس دسمبرکوشہریت قانون کےخلاف احتجاج پرتشددہوگیاتھا۔جس کےبعدتشدد کےملزموں کے خلاف اے ڈی ایم سٹی کی عدالت سے ریکوری آرڈر جاری ہوا تھا۔اورکئی مظاہرین کےخلاف لکھنؤ میں پوسٹرز اور بینرز لگائے گئے۔اس معاملے میں حکومت کا موقف رکھتے ہوئے ریاست کے ایڈووکیٹ جنرل راگھویندر سنگھ نے کہا کہ ہائی کورٹ کو اس طرح کے معاملے میں دخل دینے سے بچنا چاہیے۔ حکومت کے فیصلے کی حمایت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس سے مستقبل میں اس طرح کے پرتشدد واقعات پر قدغن لگے گی۔ انہوں نے از راہِ استدلال نظیریں پیش کیں۔
عدالت نے ریاستی حکومت کے افسران سے کہا کہ اس طرح کا کوئی عمل نہیں ہونا چاہیے جس سے کسی کے دل کو ٹھیس پہنچے۔ پوسٹر لگاناحکومت کے لیے بھی ذلت کا باعث ہے اور عام شہری کے لیے بھی ۔ چیف جسٹس نے لکھنؤ کے پولیس کمشنر اور ڈی ایم کوبھی طلب کیا تھا۔ بعدازاں پولیس کمشنر کی جانب سے ڈی سی پی نارتھ اور ڈی ایم کی جانب سے اے ڈی ایم کو بھیجا گیا۔چیف جسٹس کی بینچ نے لکھنؤ کے ڈی ایم اور پولیس کمشنر سے پوچھا کہ کس قانون کے تحت لکھنؤ کی سڑکوں پر اس طرح کے پوسٹر لگائے گئے۔ عوامی جگہوں پر متعلقہ افرا د کی اجازت کے بغیر اس کا فوٹو یا پوسٹر لگانا غلط ہے۔ یہ پرائیویسی کے حق کی خلاف ورزی ہے۔
غور طلب ہے کہ گذشتہ سال 19 دسمبر کو جمعہ کے روز نماز کے بعد لکھنؤ کے چار تھانہ حلقوں میں تشدد پھیلا تھا۔ ٹھاکرگنج، حضرت گنج، قیصرباغ اور حضرت گنج میں توڑ پھورڑ کرنے والوں نے کئی گاڑیاں بھی نذر آتش کر دی تھیں۔ ریاستی حکومت نے کہا تھا کہ وہ نقصان کی بھرپائی تشددکرنے والوں سے وصول کر کرے گی۔ بعد ازاں پولیس نے فوٹو-ویڈیو کی بنیاد پر 150 سے زائد افراد کو نوٹس بھیجے ۔ تفتیش کے بعد انتظامیہ نے 57 افراد کو عوامی جائداد کو نقصان پہنچانے کا مجرم پایا۔ ان سے کہا گیا کہ وہ تقریباً 88 لاکھ روپیے کے نقصان کی بھرپائی کریں۔
ضلع انتظامیہ نے5مارچ کی رات کو 57 افراد کے نام، پتہ اور تصاویر والے ہورڈنگ لگادیے۔ توڑ پھوڑ والے علاقوں میں یہ کاروائی کی گئی تھی۔ ہورڈنگس میں ہے کہ حسن گنج، حضرت گنج، قیصرباغ اور ٹھاکر گنج کے علاقوں میں 57 افراد سے 88 لاکھ 62ہزار 537 روپیے کی وصولی کی جانی ہے۔ لکھنؤ کے ڈی ایم ابھیشیک پرکاش نے کہا تھا کہ اگر طے وقت پر ان افراد نے جرمانہ نہیں بھرا تو ان کی جائیداد قرق کر لی جائے گی۔جن افراد کے نام ہورڈنگ لگائے گئے ان میں آئی پی ایس ایس آر داراپوری، سماجی کارکن اور اداکار صدف جعفری اور آرٹسٹ دیپک کبیر شامل ہیں۔ کبیر نے کہا تھا کہ حکومت ڈر کا ماحول بنارہی ہے۔ ہورڈنگ میں شامل افراد کی ماب لنچنگ ہو سکتی ہے۔ دہلی تشدد کے بعد ماحول محفوظ نہیں رہا ۔ سرکار ہر کسی کو خطرے میں ڈالنے کا کام کر رہی ہے۔