Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, March 4, 2020

دہلی فسادات کا آنکھوں دیکھا حال۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر ظفر الاسلام۔


ڈاکٹر ظفر الاسلام خان ۔۔چیئرمین دہلی اقلیتی کمیشن/صداٸے وقت 
=============================
دہلی اقلیتی کمیشن کے ایک وفد نے شمالی مشرقی ضلع کے تشدد سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا۔ وفد میں کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خان اور ممبر کرتار سنگھ کوچر شامل تھے۔ کمیشن نے سب سے پہلے علاقے کے اے سی پی اور ڈی سی پی سے ملاقات کی جنھوں نے امن وامان، لوگوں کے بچانے اور بازآبادکاری کے مسائل سے کمیشن کو آگاہ کیا۔ انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ پولیس والوں نے گھرے ہوئے ۳۵۰ مسلمانوں کو شیرپور سے بحفاظت نکالا۔ اس کے بعد پولیس افسران اور کمیشن کی مشاورتی اور امن کمیٹی کے کچھ ممبران کے ساتھ وفد نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا۔ اس دورے کے دوران کمیشن نے جو کچھ دیکھا اس کی تفصیلات حسب ذیل ہیں:
ہر جگہ ہم نے پایا کہ مسلمانوں کے گھروں، دوکانوں اور ورکشاپس کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ ہم نے پایا کہ دو شنبہ کو کچھ لوگ ۲۴۔۲۵؍ فروری کے بعد پہلی بار اپنے تباہ شدہ گھروں اور دوکانوں کو دیکھنے آئے تھے۔ گھروں اور دوکانوں بلکہ سڑکوں پر بھی ملبہ پڑا ہوا تھا ، اس لیے ان گھروں یا دوکانوں کو دوبارہ آباد کرنے کا فی الحال کوئی سوال نہیں ہے۔ مزید برآں لوگوں کو اندیشہ ہے کہ گھروں اور دوکانوں سے ملبہ ہٹانے اور مرمت کا کام شروع کرانے کی حالت میں ممکن ہے کہ سرکار سے ان کو معاوضہ ملنے میں دقت ہو۔
امبیڈکر کالج کے پاس ایک پارکنگ لاٹ میں ہم نے جلے ہوئے ٹھیلے اور ٹریکٹر دیکھے۔ موقع پر گارڈ نے ہم کو بتایا کہ وہاں ۱۰۰ ٹھیلے اور ۱۱ ٹریکٹر جلائے گئے۔ پاس میں کھڑی ہوئِ ایک اسکول بس کو بھی بہت نقصان پہنچایا گیا۔ حملہ آواروں نے جلانے سے قبل گاڑیوں کی قیمتی اشیاء جیسے بیٹریاں نکال لیں۔

یمنا وہار میں ہم نے پایا کہ سڑک کے ایک طرف ہندوؤں  کی دکانیں اور مکانات ہیں اور سڑک کے دوسری طرف مسلمانوں کی دکانیں اور مکانات ہیں اور دونوں طرف آگ زنی اور لوٹ پاٹ ہوئی ہے۔یہاں ایک جلے ہوئے پیٹرول پمپ کے مالک مہیندر اگروال نے ہم کو بتایا کہ ان کے پیٹرول پمپ پر ۳۰؍گاڑیاں جلائی گئیں۔

بھجن پورہ میں ہم نے پایا کہ مسلمانوں کی ٹریول ایجنسی اور موٹر سائیکل کی دوکان لوٹ کر جلادی گئی تھیں جبکہ ہندوؤں  کی دوکانیں پوری طرح محفوظ تھیں۔

وفد نے کاؤنسلر طاہر حسین کی فیکٹری  بلڈنگ تھی دیکھی جس کی فنشنگ ابھی مکمل نہیں ہوئی  ہے۔  ان پر تشدد میں شریک ہونے کا الزام ہے۔

کھجوری خاص کے ای بلاک میں ہم نے پایا کہ صرف مسلمانوں کی دوکانیں جلی ہیں۔ ایک پولیس افسر نے ہم کو بتایا کہ اس جگہ سے مقامی ڈی سی پی نے ۳۵۰؍ مسلمانوں کو بچایا۔کھجوری خاص کی گلی نمبر ۵؍میں مقامی لوگوں نے ہم کو بتایا کہ ۲۳؍فروری کی رات میں ہی کپل مشرا کے بیان اور دھمکی کے فوراً بعد فساد شروع ہوگیا تھا ۔ یہ گلی آگے سے بند ہے۔ یہاں ایک سو مسلمان رہتے تھے اور وہ سامنے کی سڑک سے باہر نہیں جاسکتے تھے۔ یہ لوگ ۲۵؍فروری کی صبح کو پولیس کی حفاظت میں اپنے علاقوں سے نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ اس گلی میں بی ایس ایف جوان محمد انیس کا مکان بھی ہم نے دیکھا جو بری طرح سے جلایا گیا تھا۔ اس وقت یہ جوان گھر پر نہیں تھا لیکن اس کے خاندان کے چار لوگ دنگے کے وقت وہاں موجود تھے۔ یہاں ساتھ میں ہم نے ایک بڑھئی کی دوکان بھی دیکھی جس کے مالک محمد الیاس نے ہمیں بتایا کہ لوٹنے کے بعد اس کو تباہ کردیا گیا۔

کھجوری ایکسٹینشن کے مکان نمبر 51/3 میں جمیل احمد کا گراج چل رہا تھا ۔ انھوں نے ہم کو بتایاکہ ان کے گراج میں سات کاریں، چھ آٹو رکشا اور نو موٹر سائکلیں جلائی گئیں۔ انھوں نے ہم کو بتایا کہ جلانے سے چند گھنٹے پہلے ہندو آکر اپنی گاڑیاں گراج سے نکال کر لے گئے ۔ گراج میں موجود گاڑیوں کو جلانے کے بعد اس کی بلڈنگ کو بھی لوٹ کر شدید نقصان پہنچایا گیا۔

کھجوری خاص کی گلی نمبر 29؍کے پلاٹ نمبر سی۔429 میں مسجد فاطمہ قائم ہے جسے بری طرح سے جلا دیا گیا ہے۔ وہاں مقامی مسلمان کافی تعداد میں آکر جمع ہوگئے تھے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ مذہبی مقام کو فسادی ہاتھ نہیں لگائیں گے۔ مسجد کے ساتھ ہی معصوم علی کا مکان ہے۔ انھوں نے ہم کو بتایا کہ مقامی ایس ڈی ایم کہہ رہا ہے کہ ایک گھر میں صرف ایک خاندان کو ریلیف ملے گی یعنی اگر ایک گھر میں کئی خاندان رہتے ہوں تو سب کو ریلیف نہیں ملے گی۔اسی گلی میں مکان نمبر سی/1/28/413 ہے جس کا مالک پریم چند دلی پولیس میں آئی ایس آئی  ہے اور اس نے یہ مکان 2007 سے ایک مسلم خاندان کو کرائے پر دے رکھا تھا۔ اس خاندان کے بھاگنے کے بعد فسادیوں نے اسے جلادیا لیکن ان کو تسلی نہیں ہوئی تو ایک بار اور واپس آکر اسے دوبارہ جلایا۔

برج پوری میں ہم نے 30 سال پرانا ارون موڈرن اسکول دیکھا جس کے مالک بھیشم شرما کانگریس پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں اور کئی بار ایم ایل اے رہ چکے ہیں۔ اس اسکول کو 25؍فروری کی شام کو بری طرح جلایا گیا ۔ کمپیوٹر اور دوسری لے جانے والی چیزیں لوٹ لی گئیں، یہاں تک کہ سٹینلیس اسٹیل کی ریلنگ کو بھی فسادی اکھاڑ کر لے گئے ۔ اپنے دورے کے دوران ہم نے یہ واحد جگہ دیکھی جہاں مرمت کا کام تیزی سے چل رہا تھا۔ غالباً اسکول کو دوبارہ کھولنے کی تیاری تھی۔

شیووہار میں ہم نے دو اسکول دیکھے جن پر باہر سے آنے والے غنڈوں نے قبضہ کرلیا تھا ۔ پہلا اسکول راجدھانی پبلک اسکول ہے جس کے مالک فیصل فاروق ہیں اور دوسرا اسکول ڈی آر پی کا نونٹ اسکول ہے جس کے مالک پنکج شرما ہیں۔ دونوں اسکولوں کے درمیان صرف ایک دیوار ہے۔ راجدھانی پبلک اسکول میں ڈرائیور راج کمار نے ہم کو بتایا  کہ دو شنبہ 24؍ فروری کی شام ساڑھے چھ بجے تقریباً 500 لوگ اسکول میں گھس آئے ۔ وہ ہیلمیٹ پہنے ہوئے تھے اور انھوں نے اپنے چہروں کو چھپا رکھا تھا۔یہ لوگ وہاں اگلے 24 گھٹے تک رہے اور اگلے دن شام کو پولیس کے آنے کے بعد علاقے سے چلے گئے۔ ان میں سے کچھ ایک موٹی رسی استعمال کرکے اسکول کی چھت سے ساتھ ملے ڈی پی آرکانونٹ اسکول میں اتر گئے ۔ انھوں نے اسکول کی چھت سے بڑے غلیلوں کے ذریعے سڑک کے اس پار گھروں میں پیٹرول بم پھینکے۔ یہ موٹی رسی ابھی تک اسکول میں پڑی ہوئی ہے۔ یہ لوگ اسکول میں کمپیوٹر سمیت جو کچھ بھی لے جا سکے اٹھا لے گئے۔ اس کے بعد انھوں نے باقی چیزوں کو توڑ پھوڑ کر آگ لگادی۔ ڈی پی آراسکول میں ان غنڈوں کی تعداد تقریباً 1500؍ تھی اور وہ 24؍فروری کی شام کو آنے کے بعد یہاں اگلے 24؍گھنٹے تک رہے۔ وہ یہاں پاس والے راجدھانی اسکول کی چھت سے موٹی رسی کے ذریعے نیچے اترے۔ اسکول کے گارڈ روپ سنگھ ہم کو ان باہری غنڈوں کا وہی وصف بتایا جو ہمیں پاس کے راجدھانی پبلک اسکول کے ڈرائیور نے بتایا تھا۔ روپ سنگھ نے بتایا کہ عقبی دروازے سے انھوں نے باہر بھاگ کر اپنی اور اپنے خاندان کی جان بچائی جو اسکول میں ہی رہتے تھے۔ روپ سنگھ نے ہم کو بتایا کہ یہ لوگ جو کچھ لوٹ سکے، انھوں نے لوٹ لیا اور باقی میں آگ لگادی۔ ہم نے اسکول کے کھلے میدان میں بے شمار جلے ہوئے ڈیسکوں کے  لوہے کے فریم پڑے ہوئے  دیکھے۔ ان پر دوبارہ لکڑی کے ٹاپ لگائے جائیں گے۔ راجدھانی اسکول نے ہم کو ان غنڈوں کا ایک فوٹو بھی مہیا کیا جنھوں نے اسکول پر قبضہ کررکھا تھا۔ تقریباً دو ہزار کی تعداد میں ان غنڈوں نے ان دونوں اسکولوں میں 24؍گھنٹے سے زیادہ قیام کیا اور اس دوران وہ 2۔3 گھنٹے کے لیے چھوٹے چھوٹے ٹرکوں میں جاکر باہر لوٹنے اور جلانے کا کام کرتے اور پھر واپس لوٹ آتے ۔ ان کا کھانا انھیں یہیں اسکولوں کے اندر ملتا تھا۔ یہ واضح تھا کہ ان لوگوں کو مقامی مدد حاصل تھی۔

شیوپوری علاقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ یہاں مسلمان کم تعداد میں تھے اور چن چن کر ان کے گھر لوٹے گئے اور جلائے گئے ۔ یہاں ہم کو اولیاء مسجد ملی جس کو بری طرح نقصان پہنچا ہے۔ اس کے فرش پر ملبہ بھرا ہو اتھا اور وہاں دو گیس سلنڈر بھی فرش پر پڑے تھے۔ لگتا ہے کہ یہ سلنڈر پھٹے نہیں تھے۔ زیادہ تر گھروں میں گیس سلنڈر وں سے بلاسٹ کیا گیا ہے۔ یہ گیس سلنڈر گھروں سے حاصل کیے گئے تھے ۔ ہم نے یہاں گلی نمبر 10 میں اقرار ولد محمد افسر کی بیکری دیکھی جسے لوٹ کر غنڈوں نے 25؍ فروری کی رات میں جلا دیا۔

شمالی مشرقی ضلع میں مزید متاثرہ علاقے جہاں ہم نہیں جاسکتے۔ مزید برآں ہزاروں لوگ اس علاقے سے بھاگ کر یو۔پی  اور ہریانہ میں اپنے آبائی  گاوؤں  چلے گئے ہیں یا دہلی کے دوسرے علاقوں میں اپنے رشتہ داروں کے پاس یا مسلم سماج کے بنائے ہوئے کیمپوں میں مقیم  ہیں۔ کچھ لوگ دہلی  حکومت کے بنائے ہوئے کیمپوں میں بھی رہ رہے ہیں۔
ہمارا اندازہ ہے کہ شمالی مشرقی ضلع میں ہونے والا تشدد یک طرفہ تھا اور اس کی عمدہ پلاننگ کی گئی تھی تاکہ مسلمانوں کے گھروں اور دوکانوں کو خوب نقصان پہنچایا جاسکے۔ اس کام میں غنڈوں کو مقامی مدد حاصل تھی۔ بغیر بھاری مدد کے متاثرین دوبارہ اپنے پاوؤں پر نہیں کھڑے ہوپائیں گے۔ ہمارا احساس ہے کہ حکومت دہلی نے جو معاوضہ متعین کیا ہے وہ اس مقصد کے لیے ناکافی ہے۔