Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, March 22, 2020

اتنا سستا سودا مسٹر گوگوئی ؟

از/ایم ودود ساجد/صداٸے وقت / نماٸندہ۔
============================
چار مہینے پہلے ریٹائر ہونے والے (سابق چیف جسٹس)  رنجن گوگوئی کو حکومت کی سفارش پر صدر جمہوریہ رام ناتھ کوونڈ نے خصوصی زمرہ سے راجیہ سبھا کے لئے نامزد کرکے علی الاعلان یہ واضح کردیا تھا کہ مسلمانوں کے ساتھ بھیانک نا انصافی کرنے کا 'صلہ' دینے میں حکومت کو کوئی عار نہیں ہے۔۔۔ رنجن گوگوئی نے بھی اس صلہ کو بعجلت تمام قبول کرنے میں کوئی عار نہیں دکھائی ۔۔۔
آزاد ہندوستان میں ایسی کھُلی ناانصافی اور ایسی کھلی بے حیائی کا واقعہ شاید پہلے کبھی رونما نہیں ہوا۔۔۔ عدلیہ کی معتبریت کو جو زَک پہنچی اس کی تلافی اب دہائیوں تک نہ ہوسکے گی۔۔۔ نا انصافی کا جو بیج رنجن گوگوئی نے بودیا ہے اس کی بیخ کنی آسانی سے نہ ہوسکے گی۔۔۔ 
یہ سمجھنا ضروری ہے کہ جس زمرہ میں رنجن گوگوئی کو نامزد کیا گیا اس زمرہ میں ادب' صحافت' کھیل اور فلم کے میدان میں نمایاں خدمات انجام دینے کے اعتراف کے طور پر شخصیات کو راجیہ سبھا میں بھیجا جاتا ہے۔۔۔ جاوید اختر' شبانہ اعظمی' ریکھا' سچن تیندولکر وغیرہ کو اسی زمرہ سے راجیہ سبھا کے لئے نامزد کیا گیا تھا۔۔ مگر گوگوئی نے ان میدانوں میں سے کسی میدان میں کوئی نمایاں خدمت انجام نہیں دی۔۔۔ اگر بالفرض محال جوڈیشیری میں انہوں نے کچھ کارکردگی دکھائی بھی تو بھی انہوں نے یہ خدمت مفت انجام نہیں دی بلکہ ملکی خزانے سے اس کی تنخواہ لی۔۔۔ وہ ملک کے ملازم تھے۔۔۔ انہوں نے ملک پر کوئی احسان نہیں کیا۔۔۔ انہوں نے اپنے متنازعہ اور غیر منصفانہ فیصلوں سے ملک کی نیک نامی میں بھی کوئی اضافہ نہیں کیا۔۔۔ 
رنجن گوگوئی سپریم کورٹ کے ان چار ججوں میں شامل تھے جنہوں نے 12 جنوری 2018 کو ایک پریس کانفرنس کرکے کہا تھا کہ جمہوریت خطرہ میں ہے۔۔ انہوں نے چیف جسٹس دیپک مشرا پر الزام لگایا تھا کہ وہ اہم مقدمات میں بنچز کی تشکیل کے وقت سینئر ججوں سے مشورہ نہیں کرتے۔۔۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ سپریم کورٹ نے ججوں کی تقرری کے لئے جو میمورنڈم آف پروسیجر بنایا تھا اسے حکومت نے ابھی تک کلیر نہیں کیا ہے۔۔۔ جسٹس دیپک مشرا بہر حال اپنے رویہ پر قائم رہے اور کم وبیش 9 ماہ بعد ریٹائر ہوگئے ۔۔۔
اکتوبر 2018 کو رنجن گوگوئی چیف جسٹس بن گئے ۔۔ 12 جنوری 2019 کو Kewin James نے جائزہ لے کر بتایا کہ رنجن گوگوئی کے چیف جسٹس بننے کے بعد بھی صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی اور رنجن گوگوئی بھی دیپک مشرا کے اسی نقش قدم پر قائم رہے جس کے خلاف وہ میڈیا کے سامنے آئے تھے۔۔۔ 
رنجن گوگوئی نے اپنے فیصلوں سے حکومت کی نہیں بلکہ بی جے پی کی خدمت کی۔۔۔ حکومت کا کام نا انصافی نہیں ہے۔۔۔ حکومت کی کوئی امتیازی آئیڈیالوجی نہیں ہوتی۔۔۔ گوگوئی نے اپنے فیصلوں سے بی جے پی کی متعصبانہ آئیڈیالوجی کے مطابق اپنے فیصلوں سے اسے راحت پہنچائی۔۔۔ انہوں نے نہ صرف اپوزیشن کے تمام خدشات اور اپیلوں کو مسترد کردیا بلکہ مظلوم فریقوں کو بھی کوئی انصاف فراہم نہیں کیا۔۔۔ 
انہوں نے (1) رافیل کی مہنگی خریداری میں مبینہ بدعنوانی کی تحقیقات کے مطالبہ کو مسترد کردیا۔۔۔ (2) انہوں نے سہراب الدین کے انکاؤنٹر کی سماعت کرنے والے جج کے پُراسرار قتل کی تحقیقات کے مطالبہ کو مسترد کردیا ۔۔ (3) انہوں نے کشمیر سے آرٹیکل 370 کو ہٹانے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور اس سلسلے میں دائر ہونے والی پٹیشنوں پر سماعت میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی ۔۔۔ (4) انہوں نے ہی NRC کا بیج بویا تھا اور آسام میں دسمبر 2014 سے اگست 2019 تک این آر سی کے عمل کی نگرانی کی۔۔۔ اور (5) انہوں نے ہی تمام ثبوت وشواہد ہونے کے باوجود شہید بابری مسجد کو رام مندر کی تعمیر کے لئے متشدد عناصر کے حوالے کردیا۔۔۔۔
صدر جمہوریہ اس سوال سے نہیں بچ سکتے کہ انہوں نے آخر گوگوئی کو ان کی کس ادبی' فلمی یا کھیل خدمت کے عوض راجیہ سبھا کے لئے نامزد کیا۔۔۔ گوگوئی دوران سماعت خود اس خیال کا کئی بار اظہار کرچکے تھے کہ ججز کو سبکدوشی کے بعد کوئی سرکاری پوسٹ یا صلہ قبول نہیں کرنا چاہئے ۔۔۔ انہوں نے جب راجیہ سبھا میں حلف لیا تو تمام اپوزیشن نے Shame,  shame کے نعرے لگاکر واک آؤٹ کیا۔۔۔ رنجن گوگوئی نے اپنی تو بے عزتی کرائی ہی خود عدلیہ کے وقار کو بھی مٹی میں ملوادیا۔۔۔ ان کے اس عمل کی خود ان کے ساتھی ججوں جسٹس کورین جوزف' جسٹس جے چلمیشور اور جسٹس مدن بی لوکور نے بھی سخت الفاظ میں مذمت کی۔۔۔ جسٹس اے کے پٹنایک نے اسے عدلیہ پر شرمناک دھبہ قرار دیا۔۔۔ 
بی جے پی کہتی ہے کہ کانگریس بھی یہ کام کرتی رہی ہے ۔۔۔ مجھے کانگریس کا دفاع مقصود نہیں ۔۔۔ لیکن کانگریس نے جسٹس رنگناتھ مشرا کو 1991 میں ہونے والی ان کی سبکدوشی کے سات سال بعد 1998 میں پہلے کانگریس میں شامل کیا اور پھر انہیں ٹکٹ دیا۔۔۔ وہ باقاعدہ الیکشن میں جیت کر راجیہ سبھا پہنچے۔۔۔ کانگریس نے انہیں اپنے کوٹے سے ممبر بنایا سرکاری کوٹے سے نہیں ۔۔۔ اسی طرح جسٹس فاطمہ بی کو سبکدوشی کے 6 سال بعد گورنر بنایا۔۔۔ اور اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ کانگریس نے ان دونوں ججوں کو اپنے حق میں دئے جانے والے غیر منصفانہ فیصلوں کے انعام کے طور پر یہ عہدے دئے۔۔۔ جبکہ مودی حکومت نے جسٹس سداشوم کو سبکدوشی کے فوراً بعد کیرالہ کا گورنر بنایا۔۔۔ جسٹس سداشوم نے چیف جسٹس رہتے ہوئے امت شاہ کو متعدد معاملات میں کلین چٹ دی تھی۔۔۔ انہیں 'گجرات بدر' کرنے کے گجرات ہائی کورٹ کے فیصلے کو بھی جسٹس سداشوم نے ہی کالعدم کیا تھا۔۔۔۔
اس حکومت نے نہ صرف یہ کیا کہ بی جے پی کو راحت پہنچانے والے ججوں کو بے شرمی کے ساتھ سرکاری قیمت پر اعزازات سے نوازا بلکہ بی جے پی اور پولیس کی گرفت کرنے والے ججوں کو 'سزا' بھی دی۔۔۔ پہلے قدم سے جہاں اس نے sitting ججوں کو یہ پیغام دیا کہ ہمارے ساتھ چلوگے توریٹائر ہوتے ہی انعام پاؤگے وہیں دوسرے قدم سے ساتھ نہ چلنے والے ججوں کو بھی پیغام دے دیا کہ ساتھ نہیں چلوگے تو سزا بھی پاؤگے۔۔۔ جسٹس کے ایم جوزف' جسٹس عقیل قریشی' جسٹس ارشاد علی' جسٹس تاہل رمانی' جسٹس مرلی دھر اور جسٹس دھرم ادھیکاری کے ساتھ کئے جانے والا سلوک اس کا ایک نمونہ ہے۔۔۔ 
لیکن یہ حکومت یہ بھول گئی کہ احکم الحاکمین کی سزا کا کوئی توڑ نہیں ہے۔۔۔ اس کی گرفت سے کوئی نہیں بچ سکتا ۔۔۔ اس کی گرفت آکر رہے گی۔۔۔ مسٹر گوگوئی تم نے اتنی بھاری بھرکم عبادت گاہ کا اتنا سستا سودا کرلیا؟ ۔۔ راجیہ سبھا پہنچ کر جو بے توقیری اور جو بے عزتی تمہیں ملی ہے وہ تمارے اسی کریہہ عمل کا فوری نتیجہ ہے۔۔۔ تاریخ تمہارا نام ایسے غلیظ کوڑے دان میں پھینک دے گی کہ جس پر مدتوں تک نسلیں تھوکتی رہیں گی۔۔۔