Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, April 26, 2020

وارانسی ‏کے ‏موضع ‏بھٹ ‏پوروا ‏میں ‏نفرت ‏پھیلانے ‏کا ‏افسوسناک ‏واقعہ۔

وزیر اعظم نریندر مودی کے انتخابی حلقے وارانسی کے  گاؤں بھٹ پروا میں نفرت پھیلانے کا افسوسناک واقعہ پیش آیا ایک این جی او میں کام کرنے والی فوزیہ انجم کو گاؤں سے صرف اس لئے نکال دیا گیا کہ وہ مسلمان ہے اور کورونا وائرس پھیلا رہی ہے

 وارانسی۔۔اتر پردیش /صداٸے وقت /ذراٸع /٢٦ اپریل ٢٠٢٠۔
==============================
وزیر اعظم نریندر مودی کے انتخابی حلقے وارانسی کے راجہ تالاب علاقے کے تھانا مرزا مراد کے گاؤں بھٹ پروا میں ایک انتہائی افسوسناک واقعہ پیش آیا ہے۔ ایک این جی او میں کام کرنے والی مسلم لڑکی فوزیہ انجم کو گاؤں سے صرف اس لئے نکال دیا گیا کی وہ مسلمان ہے اور یہاں پر کرونا پھیلانے آئی ہے۔ یہی نہیں گاؤں میں اسے اپنے گھر میں پناہ دینے والی این جی او سے ہی جڑی سریتا اور اس کے شوہر کو بھی گاوں والوں کی طرف سےکافی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس مسلم لڑکی کو پناہ دینے کے الزام میں گاؤں والوں نے ان کے شوہر کو کافی اذیت دی اور دکانداروں نے انہیں سامان وغیرہ دینے سے بھی منع کر دیا تھا۔

 غور طلب ہے کہ فوزیہ انجم گرامین پورن نرمان سنستھان اور ایشین برج انڈیا میں کام کرتی ہے۔ اس این جی او نے لاک ڈاؤن کے دوران پریشان حال گاؤں والوں کی مدد کے لیے راشن اور خواتین کو سینٹری نیپکن اور صابن وغیرہ تقسیم کرنے کا کام شروع کیا تھا۔ فوزیہ اس کام کی نگرانی کر رہی تھی۔ گزشتہ چار پانچ دنوں سے گاؤں میں فوزیہ کو لے کر کافی تشویش پائی جارہی تھی۔ گاؤں والوں کے ذریعے سریتا پر فوزیہ کو گھر میں پناہ نہیں دینے کی بات کی جارہی تھی۔ گاؤں والوں کے ذریعے یہاں تک دھمکی دی جارہی تھی کہ اگر انہوں نے فوزیہ کو اپنے گھر سے نہیں ہٹایا تو انہیں بھی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ سریتا اور ان کے شوہر ان دھمکیوں کو لگاتار نظرانداز کر رہے تھے۔ لیکن کل شام میں گاؤں والے اکٹھا ہو کر کے سریتا کے گھر پر جمع ہوگئے اور فوزیہ کو زبردستی باہر نکالنے کی کوشش کرنے لگے۔ گاؤں والوں نے یہاں تک دھمکی دی کی اگر فوزیہ کو گھر سے نہیں نکالا تو پورے گھر کو آگ کے حوالے کر دیں گے۔ گاؤں والوں نے فوزیہ کے خلاف پولیس میں بھی شکایت بھی درج کرائی تھی اس بیچ موقع پر پولیس پہنچ گئی اور حالات کو سنبھالتے ہوئے گاؤں والوں کو سمجھا بجھا کر کسی طرح سے فوزیہ کو وہاں سے باہر نکالا اور اسے تھانہ آدم پور پیلی کوٹھی میں واقع اس کے ماموں کے گھر پہنچایا گیا۔ فوزیہ کا کہنا ہے کہ اسے اس واردات کے بعد کافی ڈر لگ رہا ہے۔ اس نے بتایا کہ اس کے ساتھ اس طرح کا یہ پہلا واقعہ پیش آیا ہے جب کہ وہ گزشتہ دو سالوں سے اسی طرح کے گاؤں دیہاتوں میں لوگوں کی مدد اور بھلائی کا کام کرتی آرہی ہے۔ اس نے بتایا کہ آپ گاؤں دیہاتوں میں بھی ہندو مسلمانوں کے بیچ نفرت کی آگ تیزی سے پھیل رہی ہے جسے روکنے کی ضرورت ہے۔ اس نے بتایا کہ گاؤں دیہاتوں میں مسلمانوں کو کرونا وائرس پھیلانے کا ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔ جبکہ مسلمانوں کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اس نے بتایا کہ اس کے این جی او سے جڑے لوگ اسے کافی ہمت دے رہے ہیں اور اس کے ساتھ ہونے والے اس طرح کے واقعات کی کھل کر مذمت کر رہے ہیں۔اس نے بتایا کہ لوگوں کی اس ہمت افزائی سے اسے کافی حوصلہ مل رہا ہے۔