Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, April 12, 2020

ممبٸی کے نام نہاد مسلمانوں کا انسانیت سوز رویہ۔



از / شرف الدین عظیم الاعظمی/صداٸے وقت /عاصم طاہر اعظمی۔
==============================
  زندگی ایک سفر ہے' اور  دنیا ئے فانی کی صورت میں اس سفر کی رہگزر آزمائشوں اور امتحانات سے بھری ہوئی ہے، یہاں کلفتوں کے ساتھ راحتوں، مصائب وآلام کے ساتھ عافیتوں اور مشکلات کے ساتھ آسانیوں کے قافلے ساتھ ساتھ چلتے ہیں،
  کائنات کا یہ فطری نظام خلاق عالم کی طرف سے متعین ہے' جسے کوئی مادی مخلوق چیلنج کرنے کی طاقت نہیں رکھتی،
  وہ کبھی دولتوں کے انبار دے کر آزماتا ہے'کبھی چھین کر، کبھی عہدہ و منصب اور عز وجاہ کے ذریعے امتحان میں ڈالتا ہے'کبھی ان ساری چیزوں سے محروم کرکے، انسان کے پاس کبھی اولاد وخاندان کی مضبوطی اور اس کی وسعت وقوت اس کے ظرف کو آزماتی ہے'کبھی اس سرمائے سے محرومی اور مختلف النوع ارمانوں اور تمناؤں کے بجھتے ہوئے چراغ اسے سخت امتحان کی تاریکیوں میں ڈال دیتے ہیں (البقرہ)
  سرخرو اور کامیاب ہے'وہ انسان جو اس شاہراہ پر صبر وثبات اور قضا وقدر پر ایمان ویقین کا ۔ اخلاق وکردار اور انسانیت نوازی کے ذریعےمظاہرہ کرکے ان آزمائشی مراحل سے گزر جائے، اور دنیاوی سکون وعافیت کی گراں مایہ متاع حیات کے ساتھ ساتھ آخرت کی ابدی زندگی کو بھی کامرانیوں سے ہمکنار کر جائے۔
   زندگی اور اور کارگہ عالم کی اس حقیقت کی تشریح کے بعد اب مزید وضاحت کی ضرورت نہیں رہ جاتی ہے'کہ آزمائش کے مرحلے میں انسان خداکی قدرت پر یقین رکھے اور اس کے بندوں کے ساتھ انسانیت کا سلوک کرے،یا وہ خلاق عالم کی قوتوں کو نظر انداز کرکے صرف ظاہری اسباب پر ایمان لاکر مادہ پرستی کا ثبوت دے اور انسانوں کے ساتھ وہ رویہ اختیار کرلے جو اسےحیوانیت کی سطح پر لاکھڑا کرے، ایک ایسا شخص جس کا توحید پر ایمان ہو،جو اسلام کی عالمگیر تعلیمات پر یقین رکھتا ہو، وہ زندگی کی تمام آزمائشوں میں اسباب وتدابیر کو اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ تقدیر الہٰی پر بھی یقین رکھتا ہے،وہ اس بات کو جانتا ہے'کہ اگر مصائب زندگی کا حصہ ہیں تو تدبیریں اس کے آگے گرد ہیں، اور اگر آسانیاں مقدر ہیں تو روئے زمین کی ساری طوفانی طاقتیں بے اثر ہیں، یہی وہ انقلابی عقیدہ ہے'جو خوشحالی میں بھی اسے سکون فراہم کرتا ہے'اور مشکلات میں بھی عافیت کا سائبان عطا کرتا ہے'،

اس نظریے کے برعکس اس حوالے سے جتنے بھی عقائد ہیں اور جس قدر بھی نظریات ہیں،جتنے بھی افکار ہیں۔وہ اور کچھ ہوں تو ہوں ۔اسلام نہیں ہوسکتے ،خواہ وہ اسلام کے لبادے میں ہوں یا اسلام کے لیبل کے ساتھ ہوں، ان نظریات کے علمبردار خود کو اسلام میں شمار کریں یا وہ اسلام کا چیخ چیخ کر نعرہ لگائیں،

اس وقت دنیائے انسانیت جس آفت سماوی کے چنگل میں سسک رہی ہے'، اس کی کشتی حیات جس کرونا کے طوفانوں میں ہچکولے کھا رہی ہے'، جس طرح ایک مختصر سے غیر مرئی وائرس سے دنیا کی طاقتیں لرزہ براندام ہیں،آفتاب نیم روز کی طرح عیاں ہے،ایسے وقت میں انسانوں کا وہ طبقہ جو مادہ پرست ہے، اور خدا کی طاقت وقوت ہی نہیں بلکہ اس کے وجود کا بھی منکر ہے'وہ بھی نوشتہ دیوار ایک لمحے کے لیے پڑھنے لگتا ہے اور خدا کے آگے جھک جانے میں ہی عافیت سمجھتا ہے ۔رہے وہ لوک جن کے قلوب میں وحدانیت کی شمعیں فروزاں ہیں،وہ حالات کی شدت میں مزید انہماک اور قوت کے ساتھ  اپنی ساری توجہات اور تمام سرگرمیوں کا رخ معبود حقیقی کی طرف کردیتے ہیں اور مکمل اخلاص کے ساتھ اس کی تعلیمات کو زندگی میں داخل کرلیتے ہیں۔۔۔

 لیکن اسی سرزمین پر اور اسی ملک میں ایسے لوگ بھی ہیں جو خود کو اسلام کا پیرو اور مسلمان شمار کرتے ہیں انھوں نے اس قیامت خیز وقت  میں بھی اسلام اور انسانیت کے خلاف عمل کرکے پوری دنیائے انسانیت ہی نہیں بلکہ اسلام کو بھی شرمسار کرڈالا ہے'اس واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ
 آج ممبئی شہر کے ایک علاقے چیتا کیمپ میں ایک مسلم میت قبرستان میں تدفین کے لئے آئی،یہ میت کسی غیر مسلم کی نہیں بلکہ اسلام کے نام لیوا کی تھی، صرف اس شبہ کی بنا پر کہ مرنے والا کرونا وائرس کا شکار تھا اسے قبرستان میں دفن نہیں کرنے دیا گیا اور تدفین کے خلاف مسلمانوں کے ایک جم غفیر نے سڑکوں پر احتجاج کیا بالآخر میت کے گھر والے وہاں سے ناکام واپس آئے اور کامگار نگر جو وہاں سے چھ سات کلو میٹر کے فاصلے پر ہے وہاں اس کی تدفین ہوئی،

ممبئی شہر میں اس طرح کی انسانیت سوز واردات چوتھی بار پیش آئی ہے'،اسی طرح کا رویہ ممبئ کی ناریل واڑی قبرستان میں بھی پیش آیا ہے'، اس سے پہلے ملاڈ مالونی میں میت کو اسی بنیاد پر قبرستان کی انتظامیہ نے تدفین پر روک لگا دی جس کے نتیجے میں لاش کو غیروں کی طرح نذر آتش کر دیا گیا، یہ کردار ان لوگوں کا ہے' جو پوری دنیا میں خود کو اسلام کا ٹھیکیدار سمجھتے ہیں اور اپنے علاوہ ساری جماعتوں کے لئے کفر کی مشین گن لیکر ہمہ وقت تیار رہتے ہیں،اور بزعم خویش یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام صرف ربیع الاول میں میلاد النبی منعقد کرنے کا نام ہے'یا خواجہ کی چھٹی میں رقص و سرود اور محرم کے تعزیہ داری وجلوس کا نام ہے'،ایک مسلمان میت کے ساتھ ان کا یہ عمل جہاں توہم پرستی مادہ پرستی کے ایمان کا مظہر ہے وہیں انسانیت کے ساتھ بدترین ظلم وبربریت اور اس کے ساتھ شرمناک حرکت ہے'،

حالانکہWHO کی صراحت کے مطابق اور میڈیکل سائنس کی تصریح کی روشنی میں یہ بات متحقق ہے'کہ جسم سے روح پرواز کرجانے کے بعد وائرس اور جراثیم کچھ مدت کے بعد خود بخود مرجاتے ہیں،مگر باوجود اس کے ان لوگوں نے فضا وقدر اور مشیت الٰہی سے آنکھیں بند کرکے صرف ظاہری اسباب پر اعتماد کرلیا، انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ چائنا میں سب سے زیادہ اور سب سے پہلے تباہی پھیلانے والی اس قیامت کے ظہور میں جس ذات کی طاقت کا کرشمہ تھا وہ ذات اب بھی اپنی تمام قوتوں کے ساتھ موجود ہے
اگر ذرا بھی یہ لوگ دانش مندی سے کام لیتے اور بصیرت کی نگاہوں سے دیکھتے اور سوچنے سمجھنے کی قدرتی صلاحیتوں کو استعمال کرتے تو انہیں معلوم ہو جاتا اور اللہ تعالیٰ کی قدرت اس حالیہ عذاب میں انہیں نظر آجاتی کہ وہ ممالک جو وسائل و ذرائع کے لحاظ سے دنیا میں اپنی مثال آپ ہیں وہ اس مہلک وائرس کا  نسبتاً زیادہ شکار ہیں۔ان کے مضبوط اور آہنی محلات،زندگی کی تمام جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس ان کی خواب گاہیں، زرق برق چمچماتی ہوئی گاڑیوں کی قطاریں،اور چاند تک رسائی حاصل کرنے والی سائنسی ایجادات اور عارضی اجسام کو حسن وصحت کی ضمانت دینے والی میڈیکل سائنس کی دنیا نے انہیں ذرا بھی تحفظ فراہم نہیں کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔

 کسی بھی مصیبت اور کسی بھی ناگہانی آفت طوفان سے حفاظت کی تدبیر فطرت کے مطابق بھی ہے'اور اسلام کی تعلیم بھی۔
 مگرتدبیر واحتیاط اور وسائل و ذرائع کے استعمال کی آڑ میں انسانیت کے ساتھ بے حرمتی،خدا کے نظام کے ساتھ بغاوت،اور اس کے نبی کے ساتھ منافقت کہ دعویٰ تو اس کی تعلیمات پر ہو مگر ایمان مادیت اور اسباب پر،اور اخلاق سوز وایمان شکن کردار۔ یقیناً مجرمانہ اور ملحدانہ عمل ہے' جس کا نہ ایمان سے کوئی تعلق ہے'نہ اسلام و پیغمبرِ اسلام سے اور نہ ہی اخلاق وانسانیت سے،
 ایسے لوگوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ جس بنیاد پر اور جس وہم پر انہوں نے یہ شرمناک فعل انجام دیا ہے'اس سے وہ اس بلا اور مصیبت سے  اگر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ محفوظ ہوجائیں گے تو یہ ان کی خام خیالی اور حد درجہ کی حماقت ہے'
  کیا عجب کہ یہی سیاہ کردار اور غیر انسانی سلوک جس نے خدا کے نظام اس کے دین اور اس کے وحدانیت کے ایمان سے انحراف کی تباہ کن راہ پر کھڑا کیا ہے'اس کے غضب کا سبب بن جائے اور بلا کسی سبب کے وہ سارے لوگ اس وبا کا شکار ہوکر دنیا والوں کے لیے نشان عبرت بن جائیں،اور یہ اس لیے عین ممکن ہے'کہ مصائب اور لامحدود وباؤں کا طوفان اگر دلوں میں انقلاب برپا کردے اور زندگی مالک حقیقی کی طرف جھک جائے تو یہ تنبیہ وآزمائش ہے'اور اگر اس سنگین حالات میں بھی دل کی دنیا نہ بدلے اور بدستور غیر ایمانی،غیر اخلاقی اور غیر انسانی روش جاری رہے ،زندگی منافقانہ پالیسی پر گامزن رہے، زبان سے عشق رسول کا دعویٰ ہو اور بھروسہ اؤر عقیدہ توہمات کے صنم خانوں پر ہو، ظاہر میں خدا کے دین کے علمبردار ہوں اور باطنی لحاظ قلب وروح مادی خداؤں کے آگے سجدہ ریز ہو، تدبیروں کی آڑ میں مادہ پرستی کا کھیل کھیلا جارہا ہو۔ تو یہی طوفان عبرت ناک عذاب بن جاتا ہے جس کا انجام تباہی کے سوا اور کچھ نہیں ہے، 

شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی

مسجد انوارشواجی نگر گوونڈی ممبئی