Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, April 11, 2020

”ہاں میں اعظم گڑھ ہوں“ اعظم ضلع کی جغرافیاٸی علمی ادبی و ثقافتی تاریخ پر ایک مختصر مگر جامع تحریر۔

ہاں میں اعظم گڑھ ہوں!

از/ریحان اعظمی /صداٸے وقت ۔
==============================
ہاں میں اعظم گڑھ ہوں۔جی ہاں وہی اعظم گڑھ جو ہندوستان کے صوبۂ اتر پردیش کا ایک ضلع ہوں،جوکہ اترپردیش کے مشرقی حصے میں جلوہ فگن ہوں،ہاں میری پہچان ایک اور بھی ہے،جسے لوگ اپنے ناموں کے ساتھ جوڑے رکھتے ہیں،اسے اعظمی کہتے ہیں،ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں!جو گھاگھرا ندی کے وسط میں بسا ہوا ہوں،زمانۂ قدیم میں میرا کوئی وجود نہیں تھا،جنگل ہی جنگل ہواکرتا تھا۔
آبادی بہت کم اور فاصلے پر تھی،میری سرزمین کا تعلق دو ریاستوں کے زیر اثر تھا۔مغرب میں کوشلیا راج اجودھیا،اور مشرق میں کاشی راج بنارس سے تھا،درمیان میں ٹونس ندی سرحد تھی۔ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں!جسکا راجہ راجہ بکرماجیت سنگھ نے اپنے سگے بھائی کا قتل کردیا تھا،اور اسی کی پاداش میں مغل شاہی فوجوں نے اسے گرفتار کرکے دہلی لے گئے۔

وہاں جاکر انہوں نے اسلام قبول کرلیا،دہلی سے سزا مکمل کرکے واپس جب لوٹے تو ایک مسلم خاتون سے شادی کرلی،انکے بطن سے دو لڑکے پیدا ہوئے ایک کا نام اعظم خان اور دوسرے کا نام عظمت خان تھا،جی ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں،جسکے بسانے والے کو لوگ راجہ اعظم شاہ کے نام سے بھی جانتے ہیں،ویسے میرے وجود کو تو زیادہ زمانہ نہیں گزرا ہے،بلکہ چارصدی ہی گزری ہے۔
البتہ تاریخی اعتبار سے میرا پیدائشی نام 1665ء بمطابق 1074ھ میں پڑا۔جوکہ 282سال گزر چکے ہیں۔ٹونس ندی کے کنارے میرا قلعہ نما گھر بھی بناتھا، جس کے کنارے آبادیوں کا ایک ہجوم بس گیا،اور پھر میں اتنی پلی بڑھی کہ دنیا میں میرا نام روشن ہوا۔ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں جسکو انگریزوں نے 1836بمطابق 1252ھ میں ضلع کا درجہ دیا۔

اور میرے ضلع کے پہلے کلکٹر مسٹر تھامسن مقرر ہوئے۔ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں،جس میں صوفی سنت آکر بستے تھے،جسے دیکھ کر بادشاہ اورنگزیب نے مجھے شیراز ہند کےنام سے ایک الگ پہچان دی۔ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں،جس نے بھگوان رام کو بن باس کے زمانے میں آنوک گاؤں میں رکنے کےلئے دروازہ کھول دیا تھا۔
ہاں ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں جو مہا بھارت کے تین سو سال بعد ارجن کے پر پوتے اور ابھیمنو کے بیٹے راجہ پریکچھت کو ناگ راج سے بچنے کے لئیے پناہ دی۔ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں،جسکی سر زمین پر بھگوان رام چندرجی کے قدم پڑے، تووہیں سکھوں کے گرو گرو گوبند سنگھ جی مہاراج کے قدم سے لیکرگرو تیغ بہادر جی کی قدم بوسی کا شرف حاصل ہوا۔

اس خطۂ اعظم گڑھ کا کیا کہنا،جہاں حضرت نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ جیسے بزرگ کے قدم پڑے ہوں،اور اورنگ زیب جیسے انصاف پسند بادشاہ نے میری سرزمین کی زیارت کی ہو،ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں،جہاں پر ہندو دھرم کے چار دھاموں میں سے ایک دھام دورواسا میں موجود ہے،اور پھولپور تحصیل کے پکھیا گوند صاحب کے تاریخی مقامات موجود ہیں۔

دیورہابابا،مہاتما کے آشرم،موہن گھاٹ آشرم،نظام آباد میں شیتلا دیوی کا مندر،موجود ہے۔ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں!جس کے ایک سپوت مولانا پیر علی نے بہار کے پٹنہ میں برطانوی حکومت کی چولیں ہلا دی تھیں،اور ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کے جرم میں انہیں اور انکے ساتھیوں کو گنگا کے کنارے پھانسی دی گئی تھی۔

ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں جسکو دو بار آزادی نصیب ہوئی،1857ء میں بابوکنور سنگھ نے افغان پناہ گزینوں اور راجپوتوں کے ساتھ ملکر مجھے ڈھائی سال تک برطانوی تسلط سے آزادکرائے رکھا۔ ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں،جسکے سپوتوں کے بہت زیادہ قصے ہیں،تازہ مثال آزاد ہندوستان فوچ کے برگیڈیئر عثمان اور حولدار عبدالحمید کانام ہی دشمنوں کے لئیے کافی ہے۔
ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں، جس نے آزاد ہند فوج کے لئیے چالیس فیصد اپنے سپوتوں کو اس میں بھرتی کراکر دیش کے لئیےعظیم قربانیاں پیش کردیں،ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں،جونیتا جی سبھاش چندر بوس کے ڈرائیور کرنل نظام الدین جیسے سپوتوں کوجنم دیا۔ویسے تو میرے سپوت ہر میدان میں الگ الگ کارنامہ انجام دئیے ہیں۔

کوئی ہندی کا کوی بن گیا تو کوئی اردو کا شاعر،تو کوئی علامہ وقت کا فقیہ،اور ان سب میں ایک نام علامہ شبلی نعمانی کا ہے،جس نے سیرت نبی جیسی کتاب لکھ کر پوری دنیا میں میری زرخیزی کا لوہا منوایا،ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں جس نے ثانی اقبال کو جنم دیا جسنے میری تعریف کچھ ان الفاظوں میں کی تھی،اس خطۂ اعظم گڑھ پہ مگر،فیضان تجلی ہے یکسر،جوزرہ یہاں سے اٹھتا ہے، وہ نیر اعظم ہوتاہے۔

ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں،جس نے اسی صوبہ کو ایک وزیر اعلی رام نریش یادو کی شکل میں دیا،جو بعد میں مدھیہ پردیش کے راج پال بنائے گئے،اور دل کا دورہ پڑنے سے موت واقع ہوئی۔ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں،جس نےاپنے بطن سےان گنت مبلغ، فقیہ، علامہ، شاعر، ادیب،کوی،کوپیدا کیا،جنکے کچھ نام یہ ہیں،مولانا اسلم جیراج پوری،مولانا عبدالسلام ندوی۔

مولانا حمید الدین فراہی،مہاپنڈت راہل سانسکریت باین،مولانا عبدالرحمن محدث مبارک پوری، خلیل الرحمٰن اعظمی،شمس الرحمن فاروقی،سید احتشام حسین،اقبال سہیل،کیفی اعظمی،شیام نارائن پانڈے،اجودھیا سنگھ اپادھیائے،ہری اودھ،کملا کانت،اسرارنیوٹن،آئی جی،اسلام احمد،شیخ ثانی عبدالحق اعظمی،مولانا شاہ وصی اللہ،مولانا شاہ عبدالغنی پھولپوری،مرزا اسلم بیگ،بابو وشرام رائے،رام نریش یادو۔

مفتی عبداللہ پھولپوری،مولانا مجیب اللہ ندوی،قاضی اطہر مبارک پوری،علامہ ضیاء المصطفیٰ اعظمی محدث کبیر انڈیا،وغیرہ،کی ایک لمبی فہرست ہے،میں اپنے سپوتوں کا نام لکھنے بیٹھ جاؤں تو ایک دفتر بھر جائے مگر ناموں کا سلسلہ ناختم ہو،ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں،جس نے پڑوسی ملک پاکستان کو سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ کی شکل میں مزرا اسلم بیگ کو دیا۔
ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں،جسکا ایک سپوت فرینک ایف اسلام نے امریکہ میں میرا نام روشن کیا۔ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں، جسکی لمبائی85کلومیٹر، چوڑائی75کلومیٹر ہے۔ اور میرا کل رقبہ 4234کلومیٹر ہے، ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں جسکی آبادی 2014کی مردم شماری کےمطابق 4613913ہے، جس میں مردوں کی تعداد 2285004ہیں۔،جبکہ خواتین کی تعداد 2328909ہیں۔

ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں جہاں مردوں کے مقابلے خواتین چالیس ہزار سے زائد ہیں۔ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں،جس میں دو نگر پالیکا،سات تحصیل (تحصیل اعظم گڑھ،سگڑی،پھولپور،نظام آباد،لال گنج،بوڑھن پور،مہنہ نگر)بائیس بلاک(اہرولا،اترولیا،اعظم گڑھ،بلریاں گنج،ہریا،جہانا گنج،کوئلسا،لال گنج،مہاراج گنج،مارٹین گنج،مینہ نگر،مرزا پور،محمد پور،پلھنا،پلھنی،پوئی،پھولپور،رانی کی سرائے،تہبر پور،ترواں،ٹھیکما)۔

دس (10)نگر پنچایت(مبارکپور،اترولیا،اعظم گڑھ،بلریاں گنج، سرائےمیر، جین پور،لال گنج،مہاراج گنج،مینہ نگر،پھولپور،ماہل)،20117گرام سبھا:
10،اسمبلی سیٹ،(اعظم گڑھ صدر،گوپال پور،سگڑی،مبارک پور،مینہ نگر،پھولپور پوئی،لال گنج،نظام آباد،اترولیا،دیدار گنج)2پارلمانی سیٹ،(اعظم گڑھ صدر،لال گنج)موجود ہیں۔

ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں، جسکی آغوش میں دارالمصنفین جیسی عالمی لائبریری ہے، جسکی بنیاد علامہ شبلی نعمانی نے1913ء رکھی،ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں، جسکی آغ وش میں مدارس اسلامیہ کا جال بچھا ہوا ہے۔اور تقریباً ہر مکاتیب فکر کے مذہبی ادارے میرے سینے پر موجود ہیں۔مدرسہ عربیہ بیت العلوم،جامعہ فیض العلوم،جامعہ شرقیہ۔

اکثر مدارس میں دینی تعلیم کے علاوہ عصری تعلیم بھی دی جاتی ہے،جس میں بطور خاص نام،جامعۃ الفلاح،مدرسۃ الاصلاح،جامعہ اشرفیہ مبارک پور،پیش پیش ہیں۔ہاں میں ہی اعظم گڑھ ہوں،جہاں مکاتیب اسلامیہ کا جال بچھا ہوا ہے تو وہیں،اسکول و کالجوں و یونیورسٹیاں کی بہتات ہے،شبلی کالج،شبلی نیشنل کالج ابن سینا طبیہ کالج، جیتی نکیتن،پالی ٹیکنک کالج، اگرسین ڈگری کالج،دیو انٹر کالج،فاطمہ گرلس کالج،وغیرہ کافی مشہور ہیں۔

وہیں ایک اعداد وشمار کے مطابق اس خطے میں 1320 بیسک جونئیر اسکول،355 بیسک سینئر اسکول،117انٹر کالج،11ڈگری کالج،ایک پالی ٹیکنک کالج موجود ہیں۔ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں، جس میں روزگار کے نام پر ایک چینی(شوگر) مل ہے،ہاں یہ وہی شوگر مل ہے،جسکی بنیاد 1975ء میں رکھی گئی تھی،اسکے بعد اسکو تالا جڑ دیا گیاتھا۔

پھر ملائم سنگھ یادو کے فرزند سابق وزیر اعلی اکھلیش یادو کے ہاتھوں دوبارہ افتتاح کی گئی۔ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں،جہاں پر نوادہ گاؤں رہائشی حاجی حنیف پلائی فیکٹری نام سےعلاقے بھر میں کافی مشہور ہے،مگر کاغذی نام بھارت پلائی فیکٹری ہے،جسکو 2006میں پورا پورا ٹیکس بھرنے پر ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں جہاں،بچوں کے کھانے کی ٹافیاں،بسکٹ،نہانے دھونے کے لئیے صابن، تیل، پینٹ، آیورویدک دوائیاں وغیرہ بنائی جاتی ہیں۔ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں،جہاں پر روزگار ناہونے کے باوجود بھی میرے سپوت خوش حال زندگی بسر کررہے ہیں۔یہاں کے زیادہ تر لوگ خلیج ممالک میں رہتے ہیں۔ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں،جہاں کے مٹی کے برتن آج بھی بہت مشہور ہیں۔

نظام آباد کے مٹی کے برتن غیر ملکیوں کو آج بھی بہت ہی پسند ہیں۔ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں،جو مبارک قصبے کے ہر گھر میں بنارسی ساڑی تیار کی جاتی ہے،جسکو اندرون ملک ہی نہیں بلکہ بیرون ملک میں بھی کافی مشہور ہے،ہاں میں اعظم گڑھ ہوں،جسکے پیٹ سے چیرتی ہوئی کئی ندیاں گزرتی ہیں۔ٹونس ندی،مگھہی ندی،گھاگرا،چھوٹی سریو، مسئی،ملنی،قیار،ہاہا،سونی کانگی،ادنتی،بگھاری وغیرہ موجود ہیں۔

ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں،جہاں پر تقریباً ہر قسم کی فصل بوئی اور کاٹی جاتی ہے،لیکن کچھ خاص فصلیں یہاں پر زیادہ پیدا ہوتی ہیں،گیہوں، اونکھ،(گنا)چاول، سرسوں، مکئی،پھلوں میں پھلوں کا راجہ آم یہاں پر زیادہ پیدا ہوتاہے،اور اسکے ساتھ امرود،بیر،وغیرہ بھی پیدا ہوتی ہیں۔ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں، جہاں پر سرکاری و غیر سرکاری ہسپتال بھی قائم ہیں۔

جن میں کچھ خاص ہیں،صدر ہسپتال،رماٹراما سینٹر،ویدانتا ہاسپیٹل،لائف لائن،ڈینٹل ہاسپٹل،طاہر میموریل ہاسپٹل وغیرہ کافی مشہور ہیں۔ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں،جہاں پر ابھی بھی فرقہ وارانہ فسادات سے کافی حد تک محفوظ ہوں،میرے دشمنوں نے تو پوری کوشش کی مگر میرے سپوتوں نے میری لاج رکھی ہوئی ہے۔ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں۔

جسکو سیاسی بھیڑیوں نے اپنے مفاد کی خاطر مجھے آتنک گڑھ کے نام سے مشہور کرنا چاہا،مگرمیری تاریخی حیثیت کے آگے یہ پروپیگنڈہ زیادہ دیر تک ٹک ناسکا۔میرے کچھ جیالوں نے اسکا مقابلہ2008میں دہلی سے لیکر لکھنؤ تک کیا،اور بتایا کہ ہم امن کے پجاری ہیں،ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں،جہاں سے پورے ملک ہندوستان میں ٹرین سے آپ سفر کرسکتے ہیں۔

میری سرزمین سے کیفی اعظمی کے نام پر کیفیات ایکسپریس دہلی تک روز مرہ سفر کرتی ہے،گودان ایکسپریس چھپرا گورکھپور سے ہوتے ہوئے ممبئی کے لوک مانئہ تلک ٹرمنل تک دندناتی پھرتی ہے،ہاں یہیں سے امیروں کی غریب نواز بھی گزرتی ہے،یہاں سے بلیا مئو وارانسی،جونپور شاہ گنج تک بھی پسنجر ٹرین بھی چلتی ہے۔

ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں جہاں پر ہوائی آڈے کا کام زوروں پر ہے۔جلد ہی آسمانی سفر سے بھی میرے سپوت اتریں گے،میری سرحدیں،گورکھپور، امیڈکر نگر،مئو، جونپور، سلطان، پور غازی پور،سے ملتی ہیں۔اللہ تعالیٰ سے آخیر میں دعا ہے کہ میرے سینے پر بسنے والے تمام انسانوں کی ہر شروروفتن سے حفاظت فرمائے آمین۔
خالد اعظمی