Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, April 25, 2020

نماز ‏تراویح ‏میں ‏قرآن ‏مجید ‏یا ‏موباٸل ‏میں ‏دیکھ ‏کر ‏قرأت۔۔۔۔۔۔۔۔ایک ‏لمحہ ‏فکریہ۔


از قلم: محمد زبیر ندوی
دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا
رابطہ  9029189288۔
                  صداٸے وقت 
             ==============
نماز شریعتِ اسلامی کی نہایت اہم اور مثالی عبادت ہے جو عبد و معبود کے رشتے کو مضبوطی کے ساتھ جوڑتی ہے اس رشتے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف احادیث میں سے سمجھایا ہے؛ اس لئے نماز پورے آداب سنن و مستحبات کے ساتھ ادا کرنا چاہیے اور ان تمام باتوں سے بچنا چاہیے جن سے نماز میں خلل یا سنن و مستحبات کا ترک لازم آتا ہو، حالت نماز بطور خاص نمازِ تراویح میں قرآن مجید دیکھ کر پڑھنے کے سلسلے میں اس وقت بعض علماء (جیسے مولانا سلمان ندوی، ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی) کی تحریریں اور تقریریں سوشل میڈیا پر گشت کررہی ہیں جن میں بتایا جارہا ہے کہ نماز تراویح میں قرآن مجید دیکھ کر پڑھنے یا دوران نماز موبائل میں دیکھ کر قراءت کرنے میں حرج نہیں، اور اس سلسلے میں حضرت ذکوان کی امامت والی روایت (صحيح البخاري | كِتَابُ الْأَذَانِ | بَابُ إِمَامَةِ الْعَبْدِ وَالْمَوْلَى) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت امامہ بنت زینب کو گود میں لے کر نماز پڑھنے (صحيح مسلم رقم الحديث ٥٤٣ كِتَابٌ : الْمَسَاجِدُ وَمَوَاضِعُ الصَّلَاةِ | بَابٌ : جَوَازُ حَمْلِ الصِّبْيَانِ فِي الصَّلَاةِ)
اور حالت نماز میں جوتا اتارنے والی روایات (سنن أبي داود رقم الحديث ٦٥٥ كِتَابُ الصَّلَاةِ | بَابٌ : الْمُصَلِّي إِذَا خَلَعَ نَعْلَيْهِ ؛ أَيْنَ يَضَعُهُمَا ؟) سے استدلال کیا جارہا ہے، ان تحریروں اور تقریروں کے آنے کے بعد نوجوانوں میں بڑا غلط رجحان اور منفی اثر پیدا ہوگیا ہے۔

اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، آپ کے خلفاء راشدین، جمیع صحابہ و تابعین اور ائمہ مجتہدین سے قرآن مجید میں دیکھ کر نماز میں قراءت قولا و عملاً ثابت نہیں ہے، ان حضرات نے اپنی پوری زندگی میں کبھی ایسا نہیں کیا، صرف ایک صحابی حضرت ذکوان کا عمل بخاری اور بعض دیگر کتب حدیث میں موجود ہے، لیکن یہ روایت حدیث نہیں ہے؛ بلکہ اثر ہے یعنی صحابی کا ذاتی عمل ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان یا عمل نہیں ہے، اور امام بخاری نے اس روایت کو تعلیقا ذکر کیا ہے، اس عمل کے خلاف خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور جمیع صحابہ و تابعین کا عمل موجود ہے اس لئے کہ ان حضرات کا عمل زبانی قراءت کا تہا، چنانچہ ایک اجماعی مسئلہ کو چھوڑ کر اس سے متضاد ایک صحابی کے عمل کو پیش کرنا اور اس پر عمل کی ترغیب دینا نہ دانشمندی کی بات ہے اور نہ ہی دور حاضر میں اس کی ترغیب کی ضرورت ہے۔
اس سلسلے میں دوسری بات یہ بھی ذہن میں رکھنا نہایت ضروری ہے کہ تراویح میں قرآن مجید مکمل کرنا ایک سنت ہے جو سنت مؤکدہ بھی نہیں ہے؛ بلکہ غیر مؤکدہ ہے؛ چنانچہ فتاوی شامی میں ہے والختم مرة سنة و مرتين فضيلة (الدر المختار مع رد المحتار 597/2 كتاب الصلاة) جبکہ اس کے بالمقابل دونوں ہاتھوں کو باندھنا سنت مؤکدہ ہے اور صریح و مستند روایات اور عمل متواتر سے ثابت ہے چنانچہ سنن ابوداؤد کی روایت میں ہے عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ ، أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : مِنَ السُّنَّةِ وَضْعُ الْكَفِّ عَلَى الْكَفِّ فِي الصَّلَاةِ تَحْتَ السُّرَّةِ (سنن أبي داود رقم الحديث ٦٥٧| كِتَابُ الصَّلَاةِ | أَبْوَابُ تَفْرِيعِ اسْتِفْتَاحِ الصَّلَاةِ | بَابٌ : وَضْعُ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى فِي الصَّلَاةِ) ظاہر ہے کہ قرآن مجید یا موبائل ہاتھ میں لے کر پڑھنے سے اس سنت مؤکدہ پر عمل ممکن نہیں ہے؛ اس لئے سنت مؤکدہ کو چھوڑ کر قرآن ہاتھ میں لینا کہاں صحیح ہوسکتا ہے؟ پھر حالت نماز میں خشوع وخضوع بھی مقصود ہے جس کا حکم قرآن مجید میں "و قوموا لله قانتین"(البقرہ 238) کے الفاظ میں موجود ہے، اور خضوع و خشوع کا ایک اہم حصّہ یہ ہے کہ حالت نماز میں نظریں پیشانی کے مقام پر رکھی جائیں چنانچہ امام محمد رحمہ اللہ لکھتے ہیں "ینبغی للمصلي اذا قام في صلاتہ أن یرمي ببصرہ الی موضع سجودہ، وہو قول أبی حنیفة رحمہ االلّٰه" (الموطا، باب وضع الیمین علی الیسار، حدیث:۲۹۱) غور کیجیےُ کہ قرآن مجید میں یا موبائل فون میں دیکھ کر قرآن پڑھنے سے اس مستحب پر عمل کرنا ممکن ہوگا؟
تیسری بات یہ ہے کہ قرآن مجید کے اوراق کو پلٹنا اور رکوع سجدہ کے وقت قرآن رکھنا اور پھر اٹھانا اور ورق گردانی کرنا یا موبائل فون کھولنا اور آف آن کرنا کیا اتنے سارے عمل کو عمل کثیر نہیں کہا جایے گا؟ ایک نظر عمل کثیر کی حقیقت پر بھی ڈالیے عمل کثیر سے فتاوی ہندیہ میں مذکور ہے "العمل الكثير يفسد الصلاه والقليل لا كذا في محيط السرخسى واختلفوا في الفاصل بينهما على ثلاثه اقوال الاول ان ما يقام باليدين عادة كثير وان فعله بيد واحدة .... والثالث انه لو نظر اليه ناظر ان كان لا يشكشك انه في غير الصلاة فهو كثير مفسد، وإن شك فليس بمفسد وهذا هو الاصح هكذا في التبيين. وهو احسن كذا في محيط السرخسى. وهو اختيار العامة كذا في فتاوى قاضي خان و الخلاصة. (الفتاوى الهندية ١/ ١٠١-١٠٢ الباب السابع في ما يفسد الصلاة)اب اس کی روشنی میں دیکھیے اگر یہ عمل کثیر نہیں ہے تو پھر کیا ہے؟
ان مقررین و محرریں نے بڑا غلط استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ عمل کثیر نہیں ہے، دلیل یہ دی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نواسی کو حالت نماز میں اٹھاتے اور رکوع کے وقت کھڑا کردیتے، تو یہ عمل کثیر نہیں تھا، اب اگر بچی اٹھانے اور بٹھانے کو عمل کثیر نہیں کہا جاسکتا ہے تو حالت نماز میں واٹساپ چلانے، فیسبک چلانے ایک دوسرے کو میسیج کرنے، دونوں ہاتھ سے پسینہ صاف کرنے اور مچھروں کو بھگانے اور یوٹیوب کھول کر سرچ کرنے کو بھی عمل کثیر نہیں کہنا چاہیے؟ یعنی موبائیل میں تلاوت کرتے کرتے اگر کسی کا واٹساپ میسیج آجائے تو واٹساپ پر آکر میسیج کا جواب دے دینا چاہیے، فیس بک پر کچھ شیئر کرکے پھر آگے نماز بڑھانی چاہیے؛ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچی کو اٹھایا، کھڑا کیا اور جوتا پہنا، کیونکہ یہ کام اس کے مقابلے میں تو عمل قلیل ہویے، سوچیے کیا یہ نماز کا مزاق اڑانے کے مترادف نہیں ہوگا؟ کیا کوئی صاحب عقل و دانش اس کی ترغیب دیگا؟
پھر اس سلسلے میں دیگر اہل علم و تحقیق کی تحقیقات پر بھی نظر ڈالىے کیا وہ حضرات بھی اس کے قائل ہیں؟ سب سے پہلے صحابی رسول حضرت عمار بن یاسر کی بات دیکھیے؛ حضرت عمار بن یاسر نماز میں قرآن مجید دیکھ کر پڑھنے کو برا سمجھتے تھے اور اسے اہل کتاب کا طریقہ بتاتے تھے "عَنْ عَمَّارِ بْنِ یَاسِرٍ کَانَ یَکْرَہُ أَن یَّوٴُمَّ الرَّجُلُ النَّاسَ بِاللَّیْلِ فِيْ شَہْرِ رَمَضَانَ فِي الْمُصْحَفِ ہُوَ مِنْ فِعْلِ أَہْلِ الْکِتَابِ" (تاریخ:۹/۱۲۰ الخطيب البغدادي) غور کیجیےُ کہ صحابی جلیل تو اس کو اہل کتاب کا طریقہ بتلا رہے ہیں اور دونوں ندوی حضرات اس کا انکار کر رہے ہیں، اب صحابی کی بات مانی جائے گی یا ندوی حضرات کی؟
حضرت سوید بن حنظلہ رضی اللہ عنہ نے ایک صاحب کو قرآن مجید دیکھ کر پڑھتے دیکھا تو ان کا قرآن لے کر الگ رکھ دیا "عن سويد بن حنظلة رضي الله عنه « أنه مر بقوم يؤمهم رجل في المصحف فكره ذلك في رمضان ونحا المصحف »
(أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف (7301 - ط. عوّامة =  7224 ط. الرشد)، وابن أبي داود في المصاحف (786، 787 ط. البشائر الإسلامية( وسنده صحيح) غور کیجیے کہ صحابی اس عمل پر روک لگا رہے ہیں ہیں جبکہ ہمارے زمانے کے محققین اس کی ترغیب دے رہے ہیں، کیا صحابی کی رائے کے مقابلے میں ان حضرات کی بات درست ہوسکتی ہے؟
حضرت عبداللہ بن عباس کہتے ہیں کہ امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ہم لوگوں کو حالت نماز میں قرآن دیکھ کر پڑھنے سے قطعا منع فرما دیا تھا "عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما قال: نہانا أمیر المؤمنین عمر بن الخطاب رضي اللّٰہ عنہ أن نؤمَّ الناس في المصحف ونہانا أن یؤمنَّا إلا المحتلم" (کنز العمال ۸؍۱۲۵ رقم: ۲۲۸۳۲، إعلاء السنن ۵؍۶۱ رقم: ۱۴۱۷) کیا آج کے علماء حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے زیادہ شریعت اسلامی کے مزاج شناس ہیں؟
شہر مدینہ کے سب سے بڑے عالم امام مالک حالت اضطرار یعنی جب آدمی کو کچھ بھی زبانی یاد نہ ہو تو دیکھ کر پڑھنے کی اجازت دیتے تھے ورنہ نہیں "سمعت مالکا سُئل عمن یوٴم الناس في رمضان في المصحف؟ فقال لا بأس بذلک إذا اضطروا إلی ذلک" (کتاب المصاحف: ۱۹۳)
جلیل القدر تابعی حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ بھی اسی وقت اس کی اجازت دیتے تھے جب آدمی زبانی پڑھنے پر قادر نہ ہو "عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : لاَ بَأْسَ أَنْ يَؤُمَّ فِي الْمُصْحَفِ إذَا لَمْ يَجِدْ يَعْنِي مَنْ يَقْرَأُ ظَاهِرًا" ( مصنف ابن ابی شیبہ : 2/338 ح 7299)
حضرت سعید بن مسیب جو نہایت بلند درجہ کے عالم و فقیہ تھے وہ کہتے تھے کہ جو یاد ہو وہی بار بار پڑھو مگر قرآن دیکھ کر نہیں پڑھنا "عن سعيد والحسن « أنهما قالا : في الصلاة في رمضان : تردد ما معك من القرآن ولا تقرأ في المصحف إذا كان معك ما تقرأ به في ليلته » (كتاب المصاحف 775 , 776 , ابن أبي شيبة 2/339)
حضرت محمد ابن سیرین قرآن دیکھ کر نہیں پڑھتے تھے جہاں بھولتے وہاں قرآن سے مراجعت کرلیتے "کان ابن سیرین یصلی والمصحف إلى جنبہ فإذا تردد نظر فیہ ( المصاحف ح 813 مصنف عبد الرزاق ح 3931 )
ظاہریہ کے امام اور وسیع النظر عالم علامہ ابنِ حزم بھی قرآن دیکھ کر قراءت کے قائل نہیں تھے جبکہ وہ ظاہر حدیث پر عمل میں مشہور ہیں ابن حزم لکھتے ہیں "ولا یحل لأحد أن یوٴم وھو ینظر ما یقرأ بہ في المصحف لا في فریضة ولا نافلة، فإن فعل عالما بأن ذلک لایجوز بطلت صلاتہ وصلاة من ائتم بہ عالما بحالہ عالما بأن ذلک لا یجوز" (المحلی:۳/۱۴۰)
دنیائے اسلام کے مجتھد اعظم امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا تحقیقی فتویٰ ہے کہ قرآن مجید دیکھ کر پڑھنا درست نہیں ہے اس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے "وإن قرأ المصلي القرآن من المصحف أو من المحراب تفسد صلاتہٗ عند أبي حنیفۃ" (حلبی کبیر ۴۴۷ لاہور)
"وإذا قرأ الإمام من المصحف فسدت صلا تہ عند أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ" (حلبي کبیر ۴۴۷، ہدایۃ ۱؍۱۳۷)
"وقراء ۃ ما لا یحفظہ من مصحف" (مراقي الفلاح)
"ولأبي حنیفۃ في فسادہا وجہان: أحدہما: أن حمل المصحف والنظر فیہ وتقلیب الأوراق عملٌ کثیرٌ الخ۔ والثاني: أنہ تلقن من المصحف فصار کما لو تلقن من غیرہ وہو مناف للصلاۃ، وہٰذا یوجب التسویۃ بین المحمول وغیرہ فتفسد بکل حال وہو الصحیح، کذا في الکافي" (طحطاوي علی المراقي ۲۳۶ أشرفي)
امام احمد بن حنبل کا فتویٰ ہے کہ قرآن مجید دیکھ کر پڑھنا جائز نہیں ہے ہاں بحالت مجبوری درست ہے "ما یعجبني إلا یضطر إلی ذلک" (فتح الرحمن:۱۲۷)
اب غور کیجیے کہ اتنے جلیل القدر صحابہ اور تابعین و ائمہ مجتہدین کی تحقیقات غلط ہیں؟ کیا انہیں حضرت عائشہ صدیقہ کا اثر معلوم نہیں تھا، ضرور معلوم تھا مگر وہ اس عمل کو غیر راجح اور قابل تاویل سمجھتے تھے۔
اب رہی بات حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے عمل کی تو یہ ان کا ذاتی اجتہاد تھا اور مجتھد کو اپنے اجتہاد پر عمل کرنے میں حرج نہیں، نیز ان کا یہ اجتہاد ان اجتہادات میں سے ہے جن کو جمہور امت نے قبول نہیں کیا ہے، خود کتب حدیث میں ایسی صحیح روایات موجود ہیں جو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہیں لیکن امت نے انہیں قبول نہیں کیا ہے مثلاً یہی روایت دیکھیے کہ کیا اس کو امت نے قبول کیا ہے اور اگر قبول بھی کیا ہے تو اس میں تاویل سے کام لیا ہے "عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ : مَنْ حَدَّثَكُمْ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَبُولُ قَائِمًا فَلَا تُصَدِّقُوهُ، مَا كَانَ يَبُولُ إِلَّا قَاعِدًا" (سنن الترمذي رقم الحديث١٢ أبْوَابٌ : الطَّهَارَةُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ | بَابٌ : النَّهْيُ عَنِ الْبَوْلِ قَائِمًا)
ماضی قریب میں ظاہر حدیث پر عاملین کے امام علامہ البانی اس سلسلے میں لکھا ہے کہ حضرت ذکوان کا یہ عمل ان کا خصوصی عمل تھا یہ عمومی بات نہیں تھی "لا نری ذلک، وما ذکر عن ذکوان حادثة عین لاعموم لہا، وبإباحة ذلک لأئمة المساجد یوٴدي بہم إلی ترک تعاہد القرآن والعنایة بحفظہ غیبا وہذا خلاف قولہ صلی اللہ علیہ وسلم: تعاہدوا القرآن فوالذي نفسي بیدہ لہو أشد تفصیا من الإبل في عقلہا، ومعلوم أن للوسائل حکم الغایات کقولہم مالا یقوم الواجب إلا بہ فہو واجب وما یوٴدي إلی معصیة فہو معصیة" (فتح الرحمن:۱۲۴، ۱۲۵)
جہاں تک بات ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوران نماز اپنی نواسی کو اٹھانے اور کھڑا کرنے کی تو اس کا ایک جواب تو وہی ہے جو مولانا سلمان ندوی صاحب نے بتایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس عمل سے لڑکیوں کی عظمت و عزت کو بتایا تھا، چونکہ عرب میں لڑکیوں کی ناقدری تھی تو آپ نے ان کی قدر و منزلت کے پیش نظر ایسا کیا، دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ اس وقت کی بات ہے جب نماز میں ایسے عمل کرنے کی ممانعت نہیں تھی، تیسرا جواب یہ ہے کہ یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھی یہی وجہ ہے کہ باوجود صحابہ کرام کے کثیر حرص کے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ایک طور طریقے پر عمل کرتے تھے اس طرح نماز پڑھنا کتب حدیث کی ایک بھی صحیح روایت میں موجود نہیں ہے۔ نیز فقہاء و اصولین نے متضاد روایات کے لیے جو اصول ناسخ منسوخ، راجح مرجوح وغیرہ بیان کئے ہیں ان اصول کی روشنی میں دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل اس وقت کا ہے جب اس طرح کے عمل کرنے کی اجازت تھی، اس لئے بعد کے حالات پر اس کو فٹ نہیں کیا جاسکتا ہے۔
خلاصہ یہ کہ نماز میں قرآن مجید دیکھ کر یا موبائل فون میں دیکھ کر قراءت کرنا صحیح نہیں ہے اور فقہا احناف و دیگر فقہاء کرام کے نزدیک نماز باطل ہوجائے گی جیسا کہ مذکورہ بالا تحقیق سے ثابت ہوا اس لئے خدا را کسی کی تحریر سے تشویش اور تقریر سے دھوکہ و مغالطہ میں نہ پڑیں، خدایے تعالی ہمیں عقل سلیم اور فہم سلیم عطاء فرمائے آمین۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔