Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, April 13, 2020

نثار میں تیری گلیوں کا اے وطن


از/ ابو اسامہ۔استاد، شعبہ سوشل ورک، مانو، حیدرآباد/صداٸے وقت ۔
==============================
راج موہن گاندھی سردار پٹیل کےسوانحی خاکے میں پٹیل اور گاندھی کے درمیان فرق بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ گاندھی بچپن سے ہی مسلمانوں کے ربط میں رہے  جب کہ پٹیل کویہ  خوش نصیبی حاصل  نہ ہوئی۔  غالبا یہی وجہ ہے کہ پٹیل مسلمانوں کے تئیں ہمیشہ چوکنے رہتے تھے وہیں   دوسری طرف گاندھی نے عوامی زندگی میں مسلمانوں کی شراکت اور حصے داری کو یقینی بنانے کی ہر چھوٹی بڑی کوشش کی ۔حیران کن  بات یہ ہے کہ ناتھورام گوڈسے نے سرکاری ٹرائل میں استغاثے کے دوران پانچ گھنٹوں تک تقریر کی جس میں وہ  گاندھی  اور ان کی مسلمانوں سےہمدردی کی گاتھا گاتے رہے۔گوڈسے نے ان پراور کانگریس پارٹی پر سنگین الزامات لگاتے ہوئے کہا کہ وہ دونوں'مسلم پرست'ہیں(ملاحظہ کریں بی بی سی  کے لیے راجیش کمار کی خصوصی رپورٹ)۔

افسوس کہ آج ہمارے بیچ گاندھی جیسا کوئی نہیں جو یہ الزام برداشت کرنے کا حوصلہ رکھتا ہو۔ حیرانی اس وقت اور بھی زیادہ  ہوئی جب  اسی کانگریس پارٹی نےپچھلے لوک سبھا الیکشن میں  'مسلم پرستی'کا یہ بوجھ  بھی اپنے ناتواں کندھے سے اتار پھینکا۔مزید حیرانی تب  ہوئی جب  اسی الیکشن میں آزاد ہندوستان کی انتخابی سیاست میں پہلی بار مسلمانوں  کے ووٹ کی قطعا ضرورت محسوس نہیں کی گئی  چنانچہ مسلمانوں کے حوالے سے کی جانے والی اس  ووٹ بینک کی سیاست بھی اب ختم ہوچلی ۔یوں معلوم ہوتا ہے کہ سیاسی ترجیحات  اورسماجی حصے داری  سے خارج ہو  جانے سے مسلمانوں کی محرومیت اور ان کے ساتھ کیے جانے والے ساختیاتی امتیازی سلوک کو روکنا اب کسی کے دائرہ اختیار میں نہیں  ہے۔ہمارے ملک کا مزاج اور ذائقہ دونوں ہی بہت کم عرصے میں بدل گئے  اور  ہندو مسلم رشتوں  میں تیز ی کے ساتھ بدلاؤ آئے ہیں ۔آج عملی صورت حال یہ ہے کہ دونوں قوموں کےدرمیان رابطہ ترسیل  یکسر ٹوٹ چکا ہے۔
دہلی میں جماعت تبلیغی کے مرکز میں ہونے والے حالیہ واقعے سےمعلوم ہوتا ہے کہ کورونا وائرس سے نمٹنے کی  جنگ میں ایک نیا موڑ آگیا ہےجس نے پہلے سےلگی ہوئی فرقہ پرستی کی آگ میں دو آتشے کا کام کیا ہے۔ فرقہ پرستی ایک ذہنی بیماری ہے جو سالہا سال کی آبیاری کے بعد آج اس شکل و صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے۔اس پورے واقعے کو مسلمانوں کے دوسرے مسائل سے علاحدہ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا ہے ۔یہ سانحہ بھی عالمی پیمانے پر چلائے جانے والے اسی پروجیکٹ کی ایک چھوٹی سی کڑی  ہے جس کے تحت پوری دنیا میں مسلمانوں کے خلاف ہسٹریا پیدا کیا گیا  اور پھر انھیں منظم  طریقے سے ٹارگیٹ کیا گیا۔اکیسویں صدی کی ابتدا  میں امریکہ کی  دو عمارتیں زمیں بوس ہوئیں  پھر یکے بعد دیگرے مسلمان ملکوں میں زبردست تباہی کا نظارہ دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ۔  اسی دوران گجرات کے وزیر اعلا(جو آج وزیر اعظم ہیں )نے ایک تاریخی جملہ کہا تھا کہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کو بموں سے اڑانے والے، بامیان بدھ کو گرانے والے اور سومناتھ کا مندر لوٹنے والے درحقیقت ایک ہی قبیلے کے لوگ ہیں!یہ جملہ ان لوگوں  کے بارے میں کہا گیا تھا جو  اس ملک کی  سب سےبڑی اقلیت ہیں !کیا بدنصیبی ہے کہ ہزار سالوں سے رہنے والی ایک قوم  کی ثقافت، رہن سہن، اور ان کی بنیادی اجتماعی نفسیات کے بارے میں اس ملک کی ایک بڑی آبادی ناآشنا رہی ، بیگانی رہی (ملاحظہ کریں منوج کمار جھا کی کتاب 'ٹرانزٹ ٹاکس ')۔یہی وجہ  ہے کہ ایم این رائے یہ لکھنے پر مجبور ہوئے کہ اس ملک کی ہندو اور مسلمان دو ایسی قومیں جو ہزاروں سال سے ایک دوسرے کے ساتھ رہتے چلے آرہے ہیں مگر وہ ایک دوسرے کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ہیں۔  
ٹی وی پر ہونے والے ہنگامے، شہری تعلیم یافتہ طبقے میں گرما گرم بحث و مباحثے ، سوشل میڈیا کے گروپوں پر موصول ہونے والے پیغامات  اور دستر خوان پر  گفتگو زیادہ اس بات پر ہورہی ہے کہ آخر تبلیغی جماعت نے اپنی بین الاقوامی کانفرنس کو ملتوی کیوں نہیں کیا جب کہ اس وقت پوری دنیا ایک ناقابل شکست وائرس سے لڑ رہی تھی؟حالاں کہ یہ بات اس وقت کی ہے  جب خود ہماری حکومتیں اس مسئلے کی سنجیدگی اور سنگینی کو سمجھ بھی نہیں سکی تھیں ورنہ کوئی ویزا کیوں کر حاصل کرپاتا، لوگ کیسے اکٹھا ہوپاتے،پولیس اسٹیشن کو خبر نہ ہوتی، اور دہلی انتظامیہ کے علم میں کیوں نہ آتی؟وہیں مہاراشٹرا کی حکومت نےاس تباہ کن وائرس کے پیش نظر  تبلیغی جماعت کے اجتماع  پرپابندی لگادی  تھی  تو کیا جماعت نے اپنے صوبے کے سرکاری احکامات  کی خلاف ورزی کی ؟کیا مرکز  اور دہلی کی حکومتیں  اسی انتظار میں تھیں  کہ پہلے حالات بگڑنے دیے جائیں پھر جماعت کے لوگوں دبوچ لیا جائے؟ اب صورت حال یہ ہے کہ اس تنظیم کے عہدیداران اور اس سے وابستہ افراد پر نہ صرف تنقید کی جارہی ہے بلکہ جماعت تبلیغی  کی 'سازش'کو بے نقاب کرنے میں ہماری حکومت اور با لخصوص میڈیا انتھک کوشش کر رہی ہے۔چلیے ایک کام تو ٹھیک ہوا، لاک ڈاؤ ن میں  تقریبا پورا ملک  (بے گھر اور بے شمار مزدوروں کے علاوہ )سنسنی خیز خبروں  سے محروم ہوگیا تھا ۔امید ہے کہ اب  بقیہ بچے ہوئے دن تیزی سے گزر جائیں گے۔جدید اقوام عالم کی تاریخ میں یقینا پہلی بار وہ وقت آیا کہ لوگ اس قدر لاچار محسوس کررہے ہیں کہ  انسان  کی وجودی صلاحیت پر ہی سوالیہ نشان لگ گیا ہے ۔مگر ہم ایک بار پھر سے ہندو مسلم کھیلنے میں کوئی   جھجھک  محسوس نہیں کررہے ہیں ۔ جب کہ امرتیہ سین اور پرتاپ بھانو مہتا جیسے عوامی دانشوران  حکومت اور شہریوں سے  یہ امید کررہے ہیں کہ اس وائرس سے لڑائی کو شراکت داری اور مل جل کے ہی ختم کیا جاسکتا ہے، مگر  وہ ایک بے جا امید کررہے ہیں!  
تبلیغی جماعت کے  واقعے میں میڈیا اور سیاست دانوں نے مل کراس تنظیم اور اس سے وابستہ افراد کے بارے  ملک کے عام شہریوں کے جذبات کو اکسایا اور ان کی نفسیات پر منفی اثرات مرتب کیے۔جس سے نہ صرف یہ کہ اس جماعت سے  پوری طرح بدظن ہوئے بلکہ عمومی طور پر مسلمانوں کے تئیں بھی تعصب اور دقیانوسیت کو مضبوطی ملی۔ عام طور پر اسلام کو نظریاتی اور اصولی طور پر ترقی پسند ہونے کے لیے سراہا جاتا تھا مگر اب تین طلاق، حلالہ، اور مسلم کمیونٹی کے دوسرے معاملات میں مداخلت کرکےیہ بیانیہ رچا گیا کہ جس اسلام  کی ٹیکسٹ میں انصاف، مساوات، امن اور انسانیت  درج ہے  اس کے ماننے والوں میں غیر رواداری، ظلم ، ناانصافی اور غیر برابری  کا چلن   کی ایک دیرینہ روایت ہےجو ابھی تک دنیا کی نظروں سے اوجھل تھی ۔
مگرساتھ ہی ساتھ  ہمیں یہ  حقیقت بھی قبول کرنی  پڑے گی کہ بحیثیت قوم مسلمانوں نے عام سماجی زندگی میں  حصے داری نبھانے کی کوئی مستقل روایت قائم نہیں کی اور  چونکہ انھیں اپنی پسماندگی کو ماننے میں تذبذب ہے اسی لیے وہ  دوسری پسماندہ اقوام کے ساتھ مناسبت اور ربط و ضبط استوار  کرنے میں بھی مکمل طور پر ناکام رہے۔لیکن اس سماجی بے زاری کا کون ذمے دار ہے ؟یہ سوال ہمیں خود سے کرنا ہوگا!مسلمانوں کا طبقہ اشرافیہ نظریاتی ترجیح اور مسلکی موشگافیوں  میں مصروف ہے ۔سو، اب صورت حال یہ ہے کہ بہت سارے افراد اپنی مسلم شناخت  اور مذہبی و ثقافتی جڑوں سے بھی اچاٹ ہوگئے ہیں، کچھ ایسے ہیں جو لبرل طبقے کی بچھائی گئی بساط پر قدر ےآسانی سےچہل قدمی کر رہے ہیں ، مناسب تعداد ان لوگوں کی ہے جو ملک کی بیشتر آبادی کے سامنے شناخت کو قائم کرنے میں ڈرتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ مجموعی اعتبار سے ہم کسی موثر مذہبی اور سیاسی لیڈرشپ کے لیے  بے تاب ہیں جو قوم کو صحت مند رہنمائی فراہم کرے۔ 
وہ افراد جو عموما کسی بھی سماجی مسئلے پر اپنی رائے نہیں رکھتے تھے یا یوں کہیں انھیں سیاسی مسائل میں کوئی خاطر خواہ دلچسپی نہیں ہوا کر تی تھی وہ آج جماعت تبلیغی کے ا س 'جرم'پرانھیں سخت  ترین سزا دینے کے مطرب نظر آتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انھیں ایسے کسی بھی اجتماع سے گریز کرنا چاہیے تھا لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ  اس وقت ملک کے بہت سارے مذہبی مقامات پرلوگ اکٹھا تھے ۔ لیکن صرف ایک تنظیم کو پونجی اور تنگ نظری کے کاکٹیل پر مبنی  مین اسٹریم میڈیا نے اچھالا ، چنانچہ نوبت ایں جا رسید کہ نظام الدین میں واقع مرکز کی بلڈنگ کوایم سی ڈی ایکٹ کے تحت  ڈھا دینے کی بات ہورہی ہے اور سپریم کورٹ میں ایک عرضی داخل کی گئی  ہے کہ جماعت پر ہمیشہ کے لیے پابندی لگا دی جائے۔افواہوں کا بازار اس قدر گرم ہے کہ ہر ایک واقعے کو جماعت تبلیغی سے منسلک کردیا جارہا ہے (ملاحظہ کریں الٹ نیوز، نیوز لانڈری، دی للن ٹاپ  وغیرہ کی اسپیشل رپورٹیں)۔اس واقعے کے بعد مسلمانوں کے ساتھ جا بجا امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑ رہا ہےیہاں تک  کہ کئی سارے علاقوں میں ان کا سماجی بائیکاٹ کردیا گیا ہے ۔ہمیں تو شکرگزار اس بات پر ہونا چاہیے کہ کم از کم حکومتیں جماعت تبلیغی کے جلسے میں شریک ہونے والے افراد کا سراغ لگا پارہی ہیں  ورنہ مارچ کے مہینے میں   دوسرے مذہبی جلسوں کے شرکاء اور نہ جانے کتنے ایسے افراد ہیں جو اپنے ساتھ کورونا وائرس لیے ہوئے ہیں!
ہمیں یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ تبلیغی  جماعت میں بیشتر افراد وہ ہیں جن کی  دین و دنیا کی تشریح بیشتر مسلمانوں سے  یکسر مختلف ہے۔وہ عام انسان سے بھی زیادہ عام انسان ہیں  اور بقیہ کروڑوں ہندوستانیوں کی فہرست میں شامل ہیں۔چنانچہ ان سے یہ امید کرنا کہ وہ بغیر کسی سخت ہدایات کے اپنی صواب دید پر کوئی بڑے فیصلے کرلیں گے ، ایک فضول اور بے جا امید ہے۔ان میں سےایسے بہت سارے افراد مل جائیں گے جو غیر تعلیم یافتہ ہیں ۔وہ ایک روحانیت اور ذکر و اذکار پر مبنی اخلاقی سماج قائم کرنے میں مشغول ہوکر اورموجودہ دنیا کی زندگی اور اس کے مسائل سے بے نیاز ہوکر اسی مثالی دنیا کے خواب دیکھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بہت ساری مسلم تنظیمیں ان سے نظریاتی اختلاف رکھتی ہیں۔دیگر عام ہندوستانیوں کی طرح وہ بھی یہی مانتے ہیں کہ یہ ایک آسمانی وبا ہے جو انسانوں کے گناہ کی سزا ہے لہذا اس کا علاج بھی ذکرواذکار اور گناہوں سے توبےمیں ہے۔ان کے نکتہ نظر کو مذہبی یا محدود فکر سے تعبیر تو کیا جاسکتا ہے مگر انھیں سازشی اور فرقہ پرست کہنا درحقیقت ایک تنظیم کو پوری طرح ختم کرنے کا پہلا قدم ہے ۔یہ عین ممکن ہے کہ وہ اپنی کانفرنس یا جلسوں کو ملتوی کرنے میں پس و پیش کرتے مگر وہ قانون اور حکومتی ہدایات کی حکم عدولی کریں گے،یہ عام شہریوں کو  بے وقوف بنانے والی بات ہے ۔تبلیغی جماعت کا باب بند ہونے کے بعد اب دیکھنا  یہ ہے کہ اگلی  نظر کرم  کس پر ہونے والی ہے!