Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, April 20, 2020

صاحب ‏دل ‏، ‏استاذالاساتذہ الحاج ‏مولوی ‏محمد ‏اسداللہ ‏مرحوم۔

سرزمینِ چہونٹیا ضلع جامتاڑا جھارکھنڈ کی عظيم الشان اور قبلہ نما ہستی 
صاحبِ دل، قطبِ دوراں، استاذ الاساتذہ
*جناب الحاج مولوی محمد اسداللّٰہ صاحب نوّراللہ مرقدہٗ* 

از قلم /جمشيد جوھر*/صداٸے وقت۔
=============================
سال گزشتہ ایک صاحب کی تدفین میں مجھے اپنے گاٶں چہونٹیا کے پرانے قبرستان میں  شریک ہونے کا موقع ملا۔
تدفین کے عمل سے فارغ ہوا تو دفعتًا دل میں حاجی اسداللّٰہ صاحب نوراللّٰہ مرقدہٗ کے مزارِ مبارک کی زیارت کا شوق کچوکے لگانے لگا
 مگر مسٸلہ یہ تھا کہ آپؒ کی آرام گاہ تک لے جاۓ کون؟
چونکہ آپؒ کے گذرے ہوۓ اک زمانہ گذر چکا تھا
اور جب آپؒ نے پردہ فرمایا تھا تو میں مدرسہ اصلاح المسلمین سرکار ڈیہ دھنباد میں زیر تعلیم تھا۔
اس لۓ میری ناواقفیت کوٸی تعجب خیز نہ تھی۔
ابھی میں اسی اُدھیڑ بُن میں تھا کہ میرے سامنے صغیر بھاٸی آکھڑے ہوۓ علیک سلیک کے بعد میں نے اپنی معروضات ان کے سامنے رکھی۔
بس انھوں نے جھٹ میرا ہاتھ تھاما اور بڑی سُرعت کے ساتھ رہبری کرتے ہوۓ ٹھیک حاجی صاحب کی قبر کے سرہانے لاکھڑا کردیا۔
السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ
عالمِ بےخودی میں سلام کے یہ الفاظ مجھ سے ادا ہوتے چلے گۓ۔
اب جن کیفیات کامشاہدہ  اس گنہگار نے کیا وہ بیان سے باہر ہے
۔قبر میں ایسی روحانیت دیکھنے کو کہاں ملتی ہے ؟
واللّٰہ
قبر کم اور گلزار زیادہ لگ رہا تھا
اس پر مستزاد یہ کہ
قبر مبارک کے ٹھیک بیچوں بیچ شاداب لہلہاتے ہوۓ تین خودرو تناور درخت {١شیشم٢نیم٣ٹھنکی} اُگ آۓ ہیں 
یہ سَدابَہار منظر دیکھا تو بے ساختہ لبوں پر مرزا اسداللّٰہ خان غالب کا شعر مچل گیا

*سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگٸیں*
*خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگٸیں*
ان درختوں کے برگ وبار سے مزار کے اوپر ایک گنبد نما چھتری کا گماں ہوتا تھا
میں نے ہمیشہ حاجی صاحبؒ کی زندگی میں دھوپ سےبچاٶ کے لۓ ہاتھ میں ایک عدد چھتری ضرور دیکھی تھی
جیسے چھتری سے یک گونا تعلق سا ہوگیا ہو 
کیا بعید ہےاسی واسطے قدرت نے بعد وفات کے آپ کی خاطر داری کا خیال کرتے ہوئے   دھوپ۔ گرمی۔ برسات سے تحفظ کے پیش نظر قدرتی چھتری کا انتظام کردیا ہو۔
مرورِ ایّام کے سبب قبر کی سرحدیں خستہ ہوچکی تھیں تاہم بہت حد تک محفوظ تھیں
کتبہ بغور دیکھا گیا تو حسب ذیل نتیجہ سامنے آیا 
  تاریخ وفات۔٢٩/ صفرالمظفر/ سنہ١٤٠٥ھجری
مطابق ۔3/ اکتوبر/ سنہ1984عیسوی 
بروز سوموار
 بوقت ١٠ بجے دن۔
میں فاتحہ پڑھ کر قبر کی بانڈری کی دیوار پکڑ کر انتہائی نیازمندانہ انداز میں کھڑا ہوگیا۔
صغیر بھاٸی حاجی صاحبؒ کے کارنامے گناتے رہے ۔
اور میں جذباتی ہوتا چلاگیا
میرے سرکی آنکھیں قبر کی مٹی دیکھ رہی تھیں 
اور دل کی آ نکھ کوٸی اور ہی شۓ کو تلاش کررہی تھی
بقول میر کے
*آنکھیں تو کہیں تھیں، دلِ غم دیدہ کہیں تھا* 
فضا روح کو معطّر کررہی تھی
کسی جانب سے ہوا کا ایک جھونکا آیا اور
مجھے سرشار کرگیا۔
معاً
 غنودگی سی محسوس ہونے لگی اور نظر کے سامنے جھلملاتا ہوا اک ہیولا رقص کرنے لگا۔۔۔۔۔۔
لامبا قد ۔چھرہرا بدن۔گندُمی رنگ۔کلی دار گھٹنوں کے نیچے تک جھولتا بالکل سفید قمیص۔چارخانے کی تہبند۔سرپہ دوپلّی ٹوپی۔آنکھوں پہ لٹکتاہوا موٹے گلاس والے عینک۔شانے پر عربی رومال۔ پیرانہ سالی کے سبب جُھرّیوں کے باوجود شگفتہ چہرہ۔
پیشانی پر سِیمَاھُم فِی وُجُوھِھِم مِن اَثَرِ السُّجُود کی زندہ تفسیر۔ ایک ہاتھ میں چھتری دوسرے میں ریڈیم والی تسبیح تھامے ہوۓ حاجی صاحبؒ اپنے دولت خانے {جو بظاہر فقير کی کٹیا لگتاتھا} سے خراما خراما چلے آرہے ہیں
*میرا مرشد ، میرا راہبر آگیا*
*بے خبر! دیکھ لے باخبر آگیا*
 جوں ہی مدرسہ کی حدود میں داخل ہوۓ 
طلبا ٕ کی جانب سے السلام السلام کا شور بلند ہونے لگا 
گویا اس روایتی سلام میں محض سلام ہی نہیں شدت کا اشتیاق بھی جیسے چھپا ہوا ہو۔
اور ہو بھی کیوں نہیں؟ آپؒ جو واقعی ایسے ہی طلبا پر  شفیق و مہربان رہتے تھے۔
یہی وجہ تھی کہ طلبا میں آپؒ حد درجہ مقبول تھے۔
 کیونکہ یہاں ضَرَبَ  یَضربُ کی گردان تھی ہی نہیں ۔
میں اس وقت ناظرہ خوان تھا
 اور حاجی صاحبؒ ابتدائی درجے ہی کے استاد تھے 
حالانکہ اس درجہ میں اور بھی اساتذہ تھے
مگر پتہ نہیں کیوں  سارے لڑکے اٹھ کے حاجی صاحبؒ ہی کے پاس سبق سنانے پہنچ جاتے تھے
حتی کہ جوبچے آپ کی آمد سے قبل کسی اور استاد کے پاس پہنچ چکے ہوتے
اگر انھیں بھی معلوم ہوتا کہ حاجی صاحبؒ آچکے ہیں
 تو سابق استاد کو چھوڑ کر بھاگ لیتے تھے
 اور یوں آپؒ کے پاس اک بھیڑ جمع ہوجاتی
 یہ منظر دیکھ کر تمام اساتذہ  ہنس پڑتے 
حاجی صاحبؒ کا اک تکیہ کلام اب تک میرے حافظہ میں محفوظ ہے کہ جب ہر بچہ سبق پوچھنے لگتا تو تنگ آکر اپنی مادری زبان( کھورٹھا) میں فرماتے
”  ناٸی سُوجھے ہو؟“
اتنے ہی پر بس کرتے
اور ان کا غصہ فرو ہوجاتا
 چھڑی پکڑنے کی نوبت ہی نہیں آتی ۔
اللّٰہ اکبر 
*اس سادگی پہ کون نہ مرجاۓ اے خدا؟*
*لڑتے ہیں مگر ہاتھ میں تلوار نہیں ہے*
اس زمانے میں مدرسہ انوارلعلوم چہونٹیا (جس کا قیام سنہ 1962عیسوی میں  ہوا )کی ایک ہی  عمارت تھی آفس۔ کلاس روم ۔اقامہ سب وہی تھی
بچے  صحن مدرسہ میں  آم کے درخت کے ساۓ میں پڑھتے تھے
 اس زمانے میں چہاردیواری بھی نہیں تھی
اب تو ماشإاللہ مدرسہ ھٰذا ترقی یافتہ نہ سہی مگر ترقی پزیر ضرور  ہے
مدرسہ کا جغرافیہ اور محل وقوع  بھی دیدہ زیب  ہے
یہ ایک مسطح سبزہ زار پہاڑی سلسلے کے دامن میں واقع ہے
اس کاصدر دروازہ پہاڑی کو کاٹ کر بنایا گیاہے
یہ پہاڑی سلسلہ شرق و غرب تک پھیلا ہواہے
مدرسہ انوار العلوم وہ مادر علمی ہے جس کے کوکھ سے بڑے بڑے فضلإ اور فن کار پیدا ہوۓ۔
مدرسہ ھذا کے بانیان میں دو خوش نصیب اور مخلص حجاج کا ذکر ملتا ہے 
ایک حاجی پینتو صاحب مرحوم سے موسوم ہیں 
دوسرے  حضرت حاجی اسداللّٰہ صاحبؒ ہیں
جس ماحول میں مدرسہ کا قیام عمل میں آیا
وہ بڑا پر فتن دور تھا
ایسے میں انوار العلوم جیسے ادارہ کا قیام 
 اک بڑا کارنامہ تھا 
حاجی صاحبؒ جہاں اک سچے علم دوست اور شریعت و سنت کے شیداٸی کےطور پر جانے جاتے تھے وہیں سماجی اور معاشرتی کا موں میں بھی خوب بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے
آپؒ کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ گاٶں سے منسوب کسی قانونی چارہ جوٸی میں حُکّام کے نزدیک آپؒ ہی جواب دہ ہوتے تھے
یعنی معاملہ کسی کا بھی ہوتا تھانیدار آپ ہی سے رجوع کرتا تھا
اور یوں معاملہ رفع دفع ہوجاتا تھا
اس سے پتہ چلا آپؒ علاقہ کا اک با اثر اور ذمہ دار شخص تھے
آپؒ نرے زاہدِ خشک انسان  نہیں تھے
بلکہ ہرایک جہت پہ یکساں نظر رکھتے تھے
اس طرح آپ کی ذات دنیا والوں  کے لۓ مشعل راہ تھی
 چنانچہ آپ کے متعلق مجھے  معتبر ذرائع سے خبر پہونچی
 کہ آپ نراین پور ہاٸی اسکول  کا بھی سنگ بنیاد رکھنے میں شامل رہے 
اس عمل میں آپ کے ساتھ ہیڈ ماسٹر  نند کشور جی اور دوسرے لوگ بھی تھے
بقول کلیم عاجز کے
*اپنا تو کام ہے کہ جلاتے پھرو چراغ* 
*رستے میں دوست یا کسی دشمن کا گھر ملے*
نراین پور دراصل غیر منقسم بہار کا اک چھوٹا سا قصبہ ہے اور بلاک بھی
اس زمانے میں دُمکا ضلع کے تحت آتا تھا
 اور اب جامتاڑا جھارکھنڈ کے میں آتا ہے
یہ وہ مصر ہے جہاں جانوروں کا بازار بھی لگتا ہے
اور دیگر اشیاۓ خوردونوش کے سامان بھی ملتے ہیں 
اب تو ماشإاللہ یہاں اک عالیشان مسجد بھی ہے
اس مسجد کی خصوصيت یہ ہے کہ اس میں کٸی مسلک کے لوگ ایک ساتھ نماز جمعہ ادا کرتے ہیں
واقعی جمعہ کے روز یہاں  فرزندان توحید کا اک حسین سنگم نظر آتا ہے
یہ منظر بھی دیدنی ہوتاہے
نراین پور  چہونٹیا سے ٨ /کیلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے
اسی طرح آپؒ کے بارے میں آتا ہے کہ گوکھلا (جوہمارا پوسٹ آفس ہے) مڈل اسکول  کے سرکاری ٹیچر بھی تھے
اور تو اور آپؒ چہونٹیا بستی کے پہلے پردھان بھی رہ چکے ہیں 
نیز یہ بھی مشہور ہے
 کہ اللّٰہ نے آپؒ کو گاٶں کے پہلے جن وترن پرنالی کے ڈیلر کے منصب سے بھی نوازا تھا
شاید اسی کو دین و دنیا کی بھلاٸی کا نصیب ہونا کہتے ہیں
 جو حضرت حاجی صاحبؒ کو اللہ تعالی نے وافر مقدار میں عطا فرمایا تھا۔   
آپ باضابطہ عالم تھے یا نہیں ؟
یہ تو میں نہیں بتاسکتا
 تاہم یہ بتانے میں کوٸی عار نہیں کہ عالِم گَر ضرور تھے
البتہ یہ محقَّق ہے کہ آپؒ کی تعلیم  اسکول لاٸن سے مڈل تک تھی
حاجی صاحبؒ مدرسہ انوارالعلوم چہونٹیا کے بانی ہونے کے ساتھ ساتھ تاعمر مدرّس بھی رہے
 کہا جاتا ہے یہ ادارہ اس وقت قاٸم ہوا جب علاقہ میں ہر جگہ جہالت بدعات خرافات  رسوم اور اوھام پرستی عام تھی 
یہ بات تو زبان زدِ خاص و عام ہے کہ علاقہ میں سالانہ اک فقير آتا تھا اور وہ تمام گھروں کی چُھریوں پرایک بار دم کرکے چلا جاتا تھا 
ُان ہی چُھریوں سے سال بھر جانور حلال ہوتے تھے
استغفراللہ 
کیسی جہالت تھی۔
گویا اب بسم اللّٰہ سے بے نیاز ہوگۓ
اب میں اپنا دیکھاہوا واقعہ پیش کرتاہوں 
 یہ بات ہمارے یہاں بالکل عام تھی کہ لوگ لُنگی بنیاین میں دھڑلے سے نماز پڑھ لیتے تھے
اور کچھ سادہ لوح بناٸن کی جگہ انگوچھا {گمچھا}ہی سے کام چلا لیتے تھے
یعنی انگوچھا ہی کُرتا بھی ہوتا اور ٹوپی بھی
یہ حال تھا علاقہ کا
 ایسے میں انوار العلوم،
 حاجی صاحبؒ کی کسی کرامت سے کم نہیں تھا
حاجی صاحبؒ اک مرجع خلاٸق صفت انسان تھے آپؒ کی ہستی قبلا نما تھی 
وجہ اس کی یہ تھی کہ آپؒ اک صاف مخلص اور سادہ آدمی تھے آپؒ کو تفرقہ بازی سے سخت نفرت تھی
 اسی لۓ بلاکسی تفریق ہرمکتبِ فکر کے لوگ آپؒ سے خوش تھے۔
اس زمانے میں بالاتفاق امام عیدین اور جمعہ آپؒ ہی ہوا کرتے تھے
آپؒ کا بیان بڑا پرسوز ہوا کرتاتھا
خورد نوازی کا اک واقعہ عرض کرتا چلوں جو متعدّد بارخود میرے ساتھ پیش آیا
وہ یہ کہ جب حاجی صاحبؒ جمعہ میں خطبہ سے قبل بیان فرماتے
 اور قرآن کی کوٸی آیت تلاوت فرماتے
 تو وہ میری طرف اشارہ کرکے فرماتے کہ پوچھ لو یہاں حافظ صاحب بیٹھے ہوۓ ہیں
قرآن کی آیت ہے کہ نہیں؟
میں عمومًا دوسری صف میں سامنے بیٹھا ہوتا 
اللہ اکبر کبیرا 
کیسی شان تھی انؒ میں
 جبکہ میں تو انؒ ہی کے علم  سے کشید کیا ہوا اک طفل مکتب تھا۔
اس زمانے میں حافظ بھی تو خال خال ہی ہوتے تھے 
حاجی صاحب کے استدلال سے لوگ میری طرف رشک آمیز نظروں سے دیکھنے لگتے
 اور مجھے محسوس ہوتا جیسے میں کوٸٕی آسمانی مخلوق ہوں
جو ابھی ابھی زمین پہ اترا ہوں
 عمر ہی کیاتھی یہی دس بارہ سال کے قریب۔
میں نے بارہا دیکھا انوارالعلوم کا پڑھاہوا جب کوٸی سینٸر طالب علم باہر سے
چھٹیوں میں گھر آکر مدرسہ ھذا کے اساتذہ سے بغرض ملاقات رخ کرتا
 تو جب حاجی صاحبؒ سے ملتا
 تو لگتا اُن ہی کا حقیقی بیٹا ہو
ہم لوگوں  کی طرف سے توجہ ہٹاکر اسی سے ہمہ تن گوش ہوجاتے
اور ہم لوگ سمجھتے لو بھٸی آج کا سبق گول ہوگیا
*اُٹھٸے کہ اب تو لذت خواب سحر گٸی۔۔۔۔*
اللّٰہ اکبر کیسا اونچا اخلاق تھا حضرتِ موصوفؒ کے اندر۔
مجھے خوب یاد ہے میں دینی تعلیم کا رسالہ نمبر ٧ پڑھ رہاتھا
میں نے حاجی صاحبؒ سے دو الفاظ کے معانی معلوم کۓ 
ایک حضورکے بابت دوسرا حُکّام کے متعلق 
فرمایا حضور بڑے کو خطاب کر نے کے لۓ استعمال ہوتا ہے
اور حکام افسران کو کہتے ہیں۔
حضرت حاجی صاحبؒ بڑے کھلے دل کے آدمی تھے۔
حاجی صاحبؒ کی کل چھ(٦) اولادیں تھی 
تین بیٹے اور تین بیٹیاں
بیٹے اس طرح ہیں
پہلے عبدالطیف صاحب جو پردھان اور پوسٹ مین بھی تھے
دوسرے عبدالرقیب صاحب جو پیداٸشی گونگے تھے 
دونوں مرحوم ہوچکے ہیں
 تیسرے اسلام صاحب ہیں جو الحمدللّٰہ ابھی حیات ہیں 
اور حاجی صاحب کی آخری نشانی ہیں
جن کا مکان گاٶں کے سب سے پرانے بزرگ ۔معمّر  اور بوڑهے برگد کے سامنے ہے ۔
اور بیٹیاں اس طرح ہیں
آمنہ بی بی۔
سیمون بی بی 
طیمون بی بی۔
یہ سب کے سب اللہ کو پیاری ہوچکی ہیں 
اللہ تعالی سب کو جنت نصیب کرے آمین
محترم ناظرین! 
آپ 
حضرت حاجی صاحب جیسے قدآور ہستی کی روداد پڑھ کر یہ محسوس کر رہے ہوں گے کہ آپ کا مکان بھی کو ٸی محل نما ہوگا
مگر نہیں ایسا کچھ نہیں ہے
بلکہ اک کھپڑیل ہے 
اسی کاخِ فقیری میں آپ نے پوری زندگی گذاردی
گویا زبانِ حال سےیہ شکستہ مکان بتا رہاہے
*دنیا میں ہوں، دنیا کا طلبگار نہیں ہوں*
*بازار سے گذرا ہوں خریدار نہیں ہوں* 

چلۓ محترم! مغرب کی اذان ہوا چاہتی ہے
 صغیر بھاٸی کے تخاطب نے فکر کے لامتناہی سلسلہ کو ایک جھٹکے میں جدا کردیا ۔
اوہہہہہہہہہہہہہہہہہ ہ  میرے اللہ 
بے ساختہ زبان سے اک سرد آہ نکل گٸی 
سچ کہاہے کہنے والے نے
*ایسے ویسے کیسے کیسے ہوگٸے*
*کیسے کیسے ایسے ویسے ہوگٸے*

جھلملاتے ہوۓ جگنو جو استادِ گرامی کی یاد میں  پلکوں پہ جل اٹھے تھے رومال سے صاف کۓ 
الوداعی سلام کیا اور ہم قبرستان سے باہر نکل آۓ۔
صاحب مضمون