Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, April 24, 2020

تراویح کی رکعاتیں؟

از/ ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی /صداٸے وقت /24 اپریل 2020.
==============================
  ہر سال ماہِ رمضان سے پہلے گھمسان شروع ہوجاتا ہے _ اہل حدیث حضرات یہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے رمضان اور غیر رمضان میں ہمیشہ 8 رکعات تہجد کی نماز پڑھی ہے _ یہی رمضان کی تراویح ہے _ جب کہ احناف پورا زور یہ ثابت کرنے پر لگاتے ہیں کہ تراویح کی رکعتیں 20 ہیں _ خلیفۂ دوم حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت سے اس کا آغاز ہوا ہے اور اُس وقت سے اب تک اس پر عمل ہورہا ہے _ اس موضوع پر اب تک سیکڑوں کتابیں لکھی جا چکی ہیں _ ہر فریق نے اپنے موقف کے دلائل پیش کیے ہیں اور دوسرے فریق کے دلائل کا رد کیا ہے _ لیکن یہ مسئلہ نہ اب تک طے ہوپایا ہے ، نہ آئندہ اس کے طے پانے کی امید ہے _ یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ امّت کے بہترین دماغوں نے اپنی صلاحیتیں بے مصرف کاموں میں صرف کی ہیں اور اب بھی انہی میں لگے ہوئے ہیں _
     * صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے رمضان اور غیر رمضان میں روزانہ رات کے آخری پہر ہمیشہ 11 رکعات (8 تہجد +3 وتر) پڑھی ہیں _ (بخاری :1147 ، مسلم :738) اگر کوئی شخص اس کو معمول بنالے تو سنّت نبوی کی پیروی کرنے والا ہوگا .
       * بعض احادیث سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا رات میں 13 رکعتیں(8 تہجد +3 وتر) پڑھنا ثابت ہے _ (بخاری :1138 ، مسلم :763) اس لیے اس کا شمار بھی سنّت ہی میں ہوگا _
     * حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت کے دوسرے برس (14 ھ میں) تراویح کی باجماعت نماز کا آغاز کروایا _ اس کی رکعات کی تعداد میں اختلاف ہے _ بعض روایات میں 8 رکعات ہی مذکور ہیں ، جب کہ بعض میں ہے کہ حضرت عمر نے 20 رکعتیں پڑھے جانے کا حکم دیا تھا اور تمام صحابہ نے اس سے اتفاق کیا تھا ، کسی نے اس پر نکیر نہیں کی تھی _ اس لیے اس پر بھی عمل کیا جاسکتا ہے _
       * بعض علماء نے یوں تطبیق دینے کی کوشش کی کہ حضرت عمر نے ابتدا میں 8 رکعتوں کا ہی حکم دیا تھا _ اس کی وجہ سے لوگوں کو طویل قیام کرنا پڑتا تھا _ انھوں نے زحمت محسوس کی تو پھر حضرت عمر نے 20 رکعات پڑھے جانے کا حکم دیا _
      * اہل مکہ ہر 4 رکعات کے بعد وقفہ (ترویحہ) کے دوران طواف کرنے لگتے تھے _ اس کا بھی ثواب ہے _ اہل مدینہ ثواب میں ان کی برابری کی خاطر طواف کی جگہ نوافل پڑھنے لگے _ اس طرح ان کی رکعتوں کی تعداد 36 ہوگئی _ ( بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کے زمانے سے 36 رکعتیں پڑھی جانے لگیں _) چنانچہ مالکیہ نے اس رائے کو اختیار کرلیا _
      * رمضان کی راتوں میں عبادت کی غیر معمولی فضیلت احادیث میں بیان کی گئی ہے _ تراویح نفلی عبادت ہے _ (اصطلاحی طور پر سنت کا شمار بھی نوافل میں ہوتا ہے _) جو شخص جتنے زیادہ نوافل پڑھ لے اتنا ہی اسے ثواب ملے گا _ اس لیے تراویح کی تعداد کو بحث و جدال کا موضوع بنانا دانش مندی نہیں ہے
      * مجھے یہ دیکھ کر بہت زیادہ خوشی ہوئی کہ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے یہی موقف اختیار کیا ہے _ انھوں نے لکھا ہے :
  ” قیامِ رمضان کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ و سلم نے رکعتوں کی کوئی تعداد متعین نہیں فرمائی ہے _ آپ نے رمضان اور غیر رمضان میں کبھی 13 رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھی ہے _ لیکن آپ ہر رکعت میں طویل قیام کرتے تھے _ جب حضرت عمر نے حضرت ابی بن کعب کی امامت میں باجماعت نمازِ تراویح شروع کروائی تو وہ 20 رکعت تراویح اور 3 رکعت وتر پڑھاتے تھے _ رکعتوں کی تعداد زیادہ ہو جانے کی بنا پر وہ ہر رکعت میں مختصر قراءت کرتے تھے _ اس سے نماز پڑھنے والوں کو آسانی ہوگئی کہ انہیں طویل قیام نہیں کرنا پڑتا تھا _ بعد میں سلف میں سے بعض لوگ 40 رکعتیں تراویح اور 3 رکعت وتر پڑھنے لگے _ بعض لوگوں نے 36 رکعت تراویح اور 3 رکعت وتر پڑھنی شروع کر دی _ ان سب کی گنجائش ہے _ چاہے جتنی رکعتیں پڑھ لی جائیں ، بہتر ہے _ نمازیوں کے حالات کے اعتبار سے افضل حکم بدلتا رہتا ہے _ اگر کوئی شخص طویل قیام کر سکتا ہے تو اس کے لیے 10 رکعت تراویح اور 3 رکعت وتر پڑھنا افضل ہے ، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم رمضان اور غیر رمضان میں کرتے تھے _ اور اگر وہ طویل قیام نہیں کر سکتا تو اس کے لیے 20 رکعت پڑھنا افضل ہے ، جیسا کہ مسلمان کرتے ہیں _ یہ تعداد 10 اور 40 کے درمیان ہے _ اگر وہ تراویح میں چالیس رکعتیں پڑھ لے ، یا اس کے علاوہ کسی تعداد میں پڑھ لے تو بھی جائز ہے _ اس میں کچھ کراہت نہیں ہے _ متعدد ائمہ مثلاً امام احمد وغیرہ نے اس کی صراحت کی ہے _ جو شخص یہ گمان کرتا ہے کہ قیامِ رمضان میں رکعتوں کی تعداد نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی جانب سے متعیّن ہے ، جس میں کمی یا زیادتی نہیں کی جاسکتی ، وہ غلطی پر ہے _“