Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, April 8, 2020

شب بارات کی فضیلت اور اس میں کرنے ، نہ کرنے کے کام۔

از/ ابو طالب بھاگلپوری /صداٸے وقت۔
=============================
          ماہ شعبان المعظم کی پندرہویں شب جسے "شب برات" کے نام سے جانا جاتا ہے، بہت ہی اہمیتوں اور فضیلتوں کی حامل ہے، دس صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اس شب کا اعلی و ارفع ہونا مروی ہے؛ 
     لہذا جو حضرات سرے سے اس شب کے فضائل و مناقب کے منکر ہیں، ان کی بات لائق قبول نہیں، قابل رد ہے۔

       ہاں یہ بات اور ہے کہ اس سلسلے کی مرویات میں سندا کچھ ضعف ہے، لیکن محدثین و فقہاء کے یہاں یہ اصول متفق اور مسلم ہے، کہ ضعیف درجے کی روایات کی تائید دوسرے احادیث سے ثابت ہو جائے؛ تو اس کا ضعف جاتا رہتا ہے، اور اس مقام پر کچھ ایسا ہی ہوا ہے، چونکہ دس صحابہ کرام سے اس شب کے فضائل میں احادیث وارد ہوئے ہیں، بنا بریں کلی طور پر اس کا انکار مبنی بر حقیقت نہیں، بلکہ بداہت کے خلاف  ہے۔ 
       امت مسلمہ کے خیر القرون زمانہ صحابہ، تابعین، تبع تابعین ہی سے یہ رات عبادت کا محور رہی ہے اس رات میں عبادات  کا اہتمام پر زور طریقے پر کیا جارہا ہے، مخلوق اپنے خالق کی چوکھٹ پر سر بجسود ہو کر اس کے خلاق اعظم ہونے کا ثبوت دیتے آرہے ہیں، عابدین معبود حقیقی کے سامنے اپنی عبدیت اور غلام ہونے کا اقرار کرتے آرہے ہیں، موحدین اللہ واحد کے رو بہ رو اس کے احدیت کا اعتراف کرتے آرہے ہیں، الغرض زمانہ اسلام کے آغاز ہی سے کل مسلم امہ اس کے فضائل کثیرہ سے مستفید ہوکر اپنی نیکی کے نامہ اعمال بھاری اور وزنی کرتے چلے آرہے ہیں؛ اس لئے اس رات میں اپنے آپ کو محو عبادت کر دینا، اپنی ذات کو فنا فی اللہ کی تصویر بنا کر اللہ کے حضور پیش کرنے کے لئے جہد مسلسل کرنا، خود کو اذکار و تسبیحات اور دعاؤں کی نذر کردینا، نوافل و ادعیہ میں منہمک ہوکر اپنے گناہوں کی بخشش میں پیہم کوشش کرنا، تلاوت قرآن پاک سے اس رات کو پر نور اور تانباں بنا دینا امر مستحسن ہے۔  
           البتہ اس رات کے تئیں کچھ چیزیں ایسی ہیں جو ہمارے غفلت کے شکار معاشرے میں چور دروازے سے در آئیں ہیں۔ 
       جیسے کہ بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ اس رات کوئی خاص طریقہ نماز ہے، جس میں سورہ فاتحہ کے علاوہ کچھ مخصوص سورت قرآنی، خاص طور پر پڑھی جاتی ہے حالانکہ شریعتِ مطہرہ میں شب برات کی مخصوص نماز کا کوئی بیان نہیں ملتا۔ نیز مساجد میں اجتماعی طور پر عبادات کا التزام بھی کہیں سے ثابت نہیں؛ ہاں انفرادا جتنا چاہے بساط بھر عبادت کرے کوئی ممانعت نہیں ۔ 
        اسی طرح کچھ لوگوں نے اپنے اعزہ و اقارب کے قبروں پر جاکر ایصال ثواب کو اسی رات کے ساتھ مختص کردیا ہے، چنانچہ آپ دیکھیں گے، کہ اس رات لوگوں کا ایک جم غفیر قبرستان کی طرف رواں دواں نظر آئیگا۔ 
        اس میں کوئی شک نہیں کہ  قبرستان کا رخ اور اپنے اعزہ واقارب کو ایصال ثواب کرنا مستحق اجر ہے، 
  لیکن اس چیز کو شب برات کے ساتھ ہی مختص کرنا، ضروری سمجھ کر اس کا اہتمام کرنا، اسے شب برات کا جزو لازم قرار دینا، ایسا نہ کرنے والوں پر زبان لعن طعن دراز کرنا، انہیں مستحق ملامت خیال کرنا قطعاً باعث اجر و ثواب نہیں؛ بلکہ بدعت ہے، اس سے اجتناب لازم ہے۔ اس موقع پر آپ علیہ السلام سے قبرستان کو جانا بجز ایک مرتبہ کے ثابت نہیں لہذا جو چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جس طرح ثابت ہو اسے علی حالہ باقی رکھ کر کرنا ہی اصل اور صحیح ہے، افراط و تفریط کے نرغے میں پھنس جانا غلط ہے۔ 
      { اور بھی کافی امور ہیں جس کو بقید تحریر لانے سے گریزاں ہونے کی وجہ طوالت تحریر ہے، جسے لوگ پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھتے۔}
         *الغرض!* ہماری سوسائٹی میں بھولے بھالے مانس کی حالت اس قدر زار و نزار اور عقیدہ اس قدر متزلزل ہے، کہ ان کے سامنے عبادت کے نام پر کوئی بھی جدید طرز و طریق پیش کر دیا جائے، اسے ان کا دل و دماغ حق کی تصویر جان کر، عبادت کا ایک نیا طریقہ گردان کر، یک لخت قبول کر لیتے ہیں؛ جبکہ وہی عبادت صرف عبادت کہے جانے کے لائق ہے جو قرآنی آیات اور نبوی ارشادات کے موافق ہو، ورنہ وہ فعل، حدیث رسول "من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھو مردود" کا مصداق ہوکر مردود اور ردی کے ٹوکرے میں پھینکے جانے کے مستحق ہے۔ 

     *ابو طالب بھاگلپوری*