Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, April 6, 2020

کورونا اور تبلیغی جماعت۔۔۔۔۔۔۔کہیں پر نگاہیں کہیں پر نشانہ۔


از/ ضیاء الدین صدیقی /صداٸے وقت۔
==============================
تبلیغی جماعت1926 میں علاقہ میوات جو ہریانہ ودہلی کے اطراف کا علاقہ ہے لوگوں کے ذریعہ شروع ہوئی تھی۔مولانا الیاس ؒ بانی تبلیغی جماعت اور ان کے ساتھیوں نے اس علاقہ کومرکز بنا کر جماعتوں کی آمد ورفت کا اہتمام فرمایا تھا۔مولانا الیاسؒ کے بعدان کے صاحب زادے مولانا یوسف ؒ امیر بنائے گئے۔مولانا یوسفؒ،مولانا ذکریا ؒ  ”مصنف فضائل اعمال“کے داماد تھے مولانا یوسف کے بعد مولانا زکریاؒ کے دوسرے داماد مولانا انعام الحسنؒ امیر بنائے گئے۔ان کے بعد ۳/ رکنی کمیٹی (Presideum)کا رول ادا کرتی  رہی۔اس میں مولانا زبیر،مولانا سعد اور ایک اور صاحب تھے۔اس کمیٹی کے دو صاحبان کے انتقال کے بعد صرف مولانا سعد ہی رہ گئے جو اس کمیٹی کے رکن تھے۔بعض لوگوں نے انہیں امیر جماعت (حضرت جی)کہنا شروع کردیا۔امارت اور مشاورت کا اختلاف تبلیغی جماعت کو دو لخت کرگیا۔اورنگ آباد کے عالمی اجتماع میں لوگوں کی بڑی تعداد نے مولانا سعد کی امارت کی تصدیق کردی۔شوریٰ کے نام سے ایک حصہ الگ ہوگیا۔اصول و دلائل دونوں کے پاس ہیں۔دھیرے دھیرے یہ اختلاف ٹھنڈا ہوگیا۔دنیا میں اس جماعت کا کام 122ممالک میں ہے اور مرکز نظام الدین۔
اچانک کورونا کی آہٹ کے ساتھ مرکز نظام الدین بھی گفتگو اور پھر سرخیوں میں آنے لگا۔بالآخر بھارت میں کورونا کے پھیلاؤ میں مرکز نظام الدین کے حصہ کو لے کر مسلمانوں کو بلی کا بکرا بنا دیا گیا۔ہم سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ حکومتی کوتاہیوں کا وبال کہیں نظام الدین مرکز کے سر تو منڈھا نہیں جا رہا ہے۔واقعات کی تفصیل تاریخ وار سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
چین کے شہر ووھان سے کورونا کے نئے وائرس نے سر ابھارا۔دیکھتے ہی دیکھتے 179 ممالک کو اپنی چپیٹ میں لے لیا۔اس میں ہمارا ملک بھارت بھی شامل ہے۔کل تین ہزار سے زائد مریضوں سے86/ کی اموات ہوچکی ہے۔(یہ مضمون لکھے جانے کے وقت تک)
1)31/مارچ 2020ء مرکزی شعبہ صحت کے جوائنٹ سیکریٹری مسٹر اگروال نے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعہ یہ بتلایا کہ کسی قسم کی Health Emergancy نہیں ہے۔اس دن دہلی حکومت نے اپنے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے سمینار،کانفرنس پر پابندی عائد کی۔اس میں مذہبی اجتماعات کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
2)13تا15مارچ مرکز نظام الدین میں اجتماع ہوا۔کیوں کہ یہ ایک تبلیغی مذہبی اجتماع تھا جس کی انہیں اجازت تھی۔
3)14مارچ ہندو مہا سبھا کا اجلاس  ہوتا ہے جس میں کورونا کا علاج گومتر اور گوبر سے کیا جاتا ہے۔2000افراد نے شرکت کی تھی۔
4)16مارچ سکھوں کا مشہور گردوارہ گولڈن ٹیمپل کھلا تھا۔بمبئی کا سدھی ونائک مندر کھلا تھا۔اجین کا مہا کالیشور مندر کھلا تھا۔
5)17مارچ کو شرڈی کا سائی مندر کھلا تھا۔
6)18مارچ کو جموں و کشمیر کا وشنو دیوی مندر کپلا تھا۔
7)19مارچ کو ترپتی مندر چتور بند کیا گیا۔جس میں ہر روز 4000درشک آتے ہیں۔اسی روزوزیر اعظم نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے 22مارچ کو جنتا کرفیو کا اعلان کیا۔
8)20مارچ کو کاشی وشوناتھ کا مندر بند کیا گیا۔
9)22مارچ کو شام ۵/بجے تالی وتھالی بجا کر سڑک پر آکر جنتا کرفیو کو توڑا گیا۔اسی دن یو پی کے وزیر اعلیٰ یوگی نے اپنے 10,000ساتھیوں کے ساتھ رام للا کی مورتی کو دوسری طرف منتقل کرنے کے لیے تقریب کا انعقاد کیا۔
10)23مارچ کو ایم پی کے وزیر اعلیٰ شیوراج چوہان حلف لیتے ہیں اس کی تقریب منائی جاتی ہے۔اس دوران دو روز تک پارلمنٹ کا سیشن چلتا ہے۔اس کے بعد صدر جمہوریہ یہ تمام ایم پز کی دعوت فرماتے ہیں۔ساکشی مہاراج متھرا میں بھیڑ اکھٹی کرتے ہیں۔
ایدی یورپاوزیر اعلیٰ کرناٹک اپنے وزیر کی بیٹی کی شادی میں شرکت فرماتے ہیں۔جس میں 2000افراد شریک ہوتے ہیں۔
11)24مارچ کو وزیر اعظم نیشنل لاک ڈاؤن کا اعلان کرتے ہیں۔صرف 4گھنٹے کے بعد ہی لاک ڈاؤن شروع ہوچکا تھا۔
12)25مارچ دیوریہ میں ”ماں ادی شکتی“کے نام سے آشرم میں 200لوگو ں کو جمع کیا گیاتھا۔
اسی دن تبلیغی جماعت نے SHOنظام الدین سے تقریبا 1000لوگوں کو Shiftکرنے کے لیے گاڑیوں کی اجازت مانگی۔اس سے قبل لوگ بڑی تعداد میں جا چکے تھے۔SHOنے یقین دلایا،اسے باضابطہ تحریر دی گئی تھی جس کی کاپی مرکز کے پاس ہے۔
13)اس کے بعد ACPکو خط کے ذریعہ اطلاع دی گئی کہ اتنے لوگ مرکز میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے پھنسے ہوئے ہیں ان کے منتقلی کانظم کیا جائے۔لیکن انہوں نے بھی اس کی سنجیدگی کو نہیں سمجھا۔SHOاور ACPیہ دونوں حضرات سنٹر ہوم ڈپارٹمنٹ کے تحت آتے ہیں۔
14)اس کے بعد SDMسے ملاقات کرصورت حال بتلائی گئی،اس کے بعد DMسے اس مسئلہ میں گفتگو ہوئی لیکن کچھ مسئلہ حل نہیں ہوا۔ان لوگوں نے توجہ ہی نہیں دی۔یہ دونوں صاحبان دہلی حکومت کے تحت آتے ہیں۔
15)تمل ناڈو کے ایک صاحب جو مرکز میں تھے ان کا انتقال طبعی موت سے ہوا۔اس کو بنیاد بنا کر دہلی حکومت نے مرکز نظام الدین کو نوٹفکیشن دیا۔
16)نظام الدین مرکز میں28/مارچ کو NSAاجت ڈوبھال نے مولوی سعد سے ملاقات کی اور یہ طئے ہوا کہ مرکز کے تمام لوگوں کو کورنٹائن کیا جائے گا۔
17)اس سلسلے میں جنہیں مرکز سے نکال کر اسولشن میں لے جایا گیا،ان میں سے ایک بھی شخص کو کورونا ve+نہیں نکلا۔میڈیا جو کچھ دکھلا رہا ہے وہ سب جھوٹی اطلاعات ہیں۔البتہ پورے ملک میں کچھ مریض کورونا وائرس کے ہوں گے تو اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ ان کی بیماری کا ذمہ دار مرکز نظام الدین ہے۔
18)3اپریل کو حکومت کی جانب سے صاف بتلادیا گیا کہ لاک ڈاؤن کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔مرکز نظام الدین نے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔دو دنوں سے پورا میڈیا یہ ثابت کرنے کے درپے ہے کہ بھارت میں کورونا کو پھیلانے کا کام مولوی سعد اور ان کی جماعت نے ہی کیا ہے۔
19)حکومت لاک ڈاؤن کے اثرات چھپانے،منصوبہ بندی کے بغیر اس کا اعلان کرنے،بیماری سے نپٹنے کی معذوری،لاک ڈاؤن کے بعد بہار،بنگال اور یوپی کے دیہاڑی مزدوروں کا لاکھوں کی تعداد میں بس اسٹیشن پر جماؤ،گومتر،گوبر،تالی و تھالی بجانا،اور روشنی کے لیے دیپ جلانے سے کورونا کا علاج کرنے کی باتیں عوام الناس میں ہنسی کا باعث بن گئی ہیں۔انہیں بائے پاس کرنے کے لیے مرکز نظام الدین کو قربانی کا بکرا بنایا گیا ہے۔
ہم مولانا سعد سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ سامنے آئیں اور جو حقیقت ہے اس کا اعلان فرمائیں۔جو بھی مرکز آکر گیا ہو اسے اپنے علاقہ میں اسپتال میں جاکر اپنی جانچ کا حکم دیں۔ٹیسٹ کے لیے کٹس نہیں ہیں۔انہیں مہیا کرانے کے لیے حکومت کا تعاون فرمائیں اور جن جن میڈیا ہاؤس نے بدنامی کی ہے ان پر عدالتی کاروائی کریں۔
بعض لوگوں نے شاید سچ فرمایا کہ کورونا چین میں پیدا ہوا،اٹلی میں پلا،ایران میں جوان ہوا اور بھارت میں آتے آتے مسلمان ہوگیا۔مرکزی اور ریاستی حکومت دہلی کی نظر کہیں اور ہے اور نشانہ کوئی اور۔اب تبلیغی جماعت کی آڑ میں کورونا اور اس وابسطہ تمام خامیوں کا نپٹارا ہوگیا ہے۔