Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, April 13, 2020

کورونا واٸرس کی وحشت اور مسلمانوں کا تدفین کے سلسلے میں افسوسناک رویہ۔

ایک سچا اور دل دہلا دینے والا واقعہ ۔۔مسلمان موت سے اتنا خوفزدہ کیوں ہے۔۔مسلمانوں کو تدفین میں بقدر اجازت حصہ لینا چاہٸے اور کسی کو بھی دفن کرنے سے انکار نہیں کرنا چاہیے۔
                            صداٸے وقت۔

از/ محمد شمیم اختر ندوی /صداٸے وقت ۔
=============================
گزشتہ ۸ مارچ کو *صغیر احمد انصاری 
مرحوم* (جوکہ بہار سیتامڑھی سے تعلق رکھتے تھے اور الحمداللہ ایک کامیاب تاجر ہونے کی وجہ سے فارغ البال اور خوشحال بھی تھے) کی *واسی ناکہ ممبئ* میں  طبیعت زیادہ خراب ہوگئی، مرحوم کی بیوہ نے اپنے کئی رشتہ داروں کو بذریعہ فون اطلاع دی اور مرحوم کو کسی *اسپتال* میں علی الفور لے جانے کو کہا لیکن اس بیچاری بیوہ کے لیے  اسوقت *قیامت کا المناک منظر* سامنے آگیا  جب کوئی رشتہ دار تو کیا اپنا *سگا بھائی* بھی مختلف  بہانہ بناکر آنے سے انکار کرتے ہوئے فون کاٹ دیا اور کوئ کام نہ آسکا۔
*مرحوم* کا ایک نوجوان لڑکا ہے،  سوئے اتفاق وہ بھی اس شب میں بیمار ہونے کی وجہ سے  کسی اسپتال میں *ایڈمیٹ* تھا اور اس کے آنے کی کوئی شکل بھی نہیں بن پارہی تھی، بالآخر بیچاری بیوہ اپنے داماد کے ساتھ مرحوم کو لیکر *سائن اسپتال* رات کو ہی کسی طرح پہونچی، *طبی معائنہ* کے بعد یہ بتایا گیا کہ مرحوم *کرونا وائرس* سے متاثر ہیں،  چنانچہ  حسب ضابطہ مرحوم کو *کرونا وارڈ* میں شفٹ کیا گیا اور بیوہ اور ان کے داماد اسپتال میں ہی *کرونٹائن* کردیئے گئے ، پورے ایک دن گزرنے کے بعد بیوہ کو *کرونٹائن* میں ہی رات کو بارہ بجے فون کیا گیا کہ آپ کے شوہر کو سائن اسپتال سے *اندھیری اسپتال*  شفٹ کیا گیا تھا اور وہ وہاں انتقال کر گئے ہیں،  ان کو لے جانے کی کوئی ترتیب آپ لوگ  بنوالیں اور چونکہ آپ اور آپ کے داماد کرونٹائن میں ہیں اسلئے آپ لوگوں کو اپنی جگہ سے نکلنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے ۔بالآخر مرحوم کے فرزند *ناصر* سے رابطہ کیا گیا اور وہ طبیعت کی ناسازی کے باوجود گھر لوٹے، اپنے رشتہ داروں کو *والد* کے انتقال کی اطلاع دیتے ہوئے ساری صورتحال سے آگاہ کیا لیکن حیرت ہے کہ کوئی بھی اندھیری تک ساتھ آنے کو تیار نہ ہوا، خیر جیسے تیسے وہ صبح کو اندھیری پہونچے۔
اندھیری کی *اسپتال انتظامیہ* نے ان کو اطلاع دی کہ ضابطہ کے مطابق مرحوم کی  تدفین *چیتا کیمپ* کے قبرستان میں کی جائیگی آپ وہاں *نماز جنازہ* کی تربیت بنالیں،  ناصر صاحب نے اپنے بزرگ دوست اور معراج العلوم چیتا کیمپ کے فخر القراء *محمد بدرعالم* صاحب کو فون کردیا کہ جنازہ  چونکہ چیتا کیمپ ہی آئیگا اسلئے آپ نماز جنازہ پڑھا دیں، قاری صاحب یہاں اپنے چند دوستوں کے ساتھ نماز جنازہ کیلئے تیار ہوگئے۔
*جمعہ* کی نماز کے بعد تقریبا تین بجے بذریعہ ایمبولینس  جنازہ جیسے ہی چیتا کیمپ پہونچا مسلمانوں کی بے حسی کا المناک،   دردناک اور افسوسناک رویہ سامنے آیا، مسلمان  سڑک جام کرتے ہوئےچیتا کیمپ میں تدفین سے انکار کرنے لگے ،پولیس اور گورنمنٹ کے عملہ نے ہزار سمجھانے کی کوشش کی لیکن یہ لوگ ماننے کو تیار نہیں ہوئے، مرحوم کے فرزند *ناصر* ہاتھ جوڑ کر، رو رو کر لوگوں سے فریاد کرتے رہے لیکن ان لوگوں کو *کرونا وائرس کی وحشت* نےایسا بے رحم  بنا رکھا تھا کہ ماننے کو تیار نہیں ہوئے، تقریبا پون گھنٹے کی بحث و مباحثہ کے بعد بھی جب بات نہ بنی تو مرحوم کے جنازہ کو *گونڈی دیونار قبرستان* لایا گیا۔ 

*ڈاکٹروں* کی ہدایت کے مطابق *وائرس سے متاثر متوفی* کے جنازہ کو  *نماز جنازہ* کیلئے ایمبولینس سے نہ اتارنے کی اجازت دی جاتی ہے اور نہ غسل و کفن کی، بلکہ اسپتال سے تیار کردہ *پیکینگ* میں ہی سیدھے ایمبولینس کو قبر تک یا اسکے قریب تک لے جانے کی ہدایت ہوتی ہے، البتہ *نماز جنازہ* کیلئے صرف اتنی اجازت دی جاتی ہے کہ ایمبولینس کو قبرستان میں  ایک طرف کھڑا کردیا جاتا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ چند لوگ ایک میٹر کی دوری پر پیچھے کھڑے ہوکر *نماز جنازہ* پڑھ لیں

*مرحوم* کے ساتھ یہاں یہ صورتحال پیش آئ کہ حافظ ناصر کے علاوہ  کوئی اپنا نہ ہونے کی وجہ سے  مرحوم کے فرزند کو بدحواسی میں نماز جنازہ کا نہ خیال آیا اور نہ شاید  اس کا موقع  دیا گیا اور ڈائریکٹ *جنازہ* قبر کے حوالے کردیا گیا، مرحوم کے فرزند  تین مٹھی مٹی ڈال کر جیسے ہی فارغ ہوئے ان کو ایمبولینس میں بٹھا کر اندھیری واپس لے جایا  گیا اور *کرونٹائن* کردیا گیا، *ناصر* کے بقول قبر بھی پوری طرح ڈھنکی گئی یا نہیں مجھے کوئی خبر نہیں ۔

اللہ تعالی ہم سب کی حفاظت فرمائے اور مرحوم کی مغفرت فرمائے اور جملہ اہل خانہ بالخصوص بیوہ کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین ۔

*اس پورے افسوسناک واقعہ سے تین چیزیں ہمیں معلوم ہوتی ہیں* ۔

(۱ )اس *کرونا وائرس* کی وحشت نے قیامت کا منظر ہمارے سامنے پیش کردیا ہے ،سگے رشتہ دار بھی کام نہیں آرہے ہیں

(۲ )مسلمان ہی خود مسلمانوں کیلئے درد سر بن رہے ہیں، جب *بی ایم سی* نے سارے ہی وائرس سے متاثرمتوفی کو جلانے کا آڈر جاری کیا تھا  تو *علماء و دانشوران* نے احتجاج کرتے ہوئے اسے واپس کروایا اور تدفین کی اجازت بڑی دشواری سے حاصل کی، لیکن افسوس کہ آج مسلمان ہی اپنے رویے سے لوگوں کو ہنسنے اور دیگر کاروائی کا جواز فراہم کرنے کا  موقع فراہم کررہے ہیں جیسا کہ *مالونی ملاڈ* کا واقعہ اسکا شاھد ہے ۔

(۳ ) ایسی صورتحال میں مسلمانوں کو چاہئے کہ حد درجہ احتیاط برتیں، گورنمنٹ کی ہدایات پر سختی سے عمل کریں اور بلاوجہ گھر سے باہر نہ نکلیں ۔

مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنے رب کی طرف *صدق دل* سے رجوع کریں اور اس طرح کی دردناک موت سے کثرت سے پناہ مانگیں ۔ 


اخیر میں *سارے مسلمانوں سے درخواست ہے کہ اللہ واسطے کسی میت کی تدفین سے ہرگز نہ منع کریں اور ایک اسلامی عمل کو بجالانے سے منع کرکے اپنی آخرت تباہ نہ کریں*


*محمد شمیم اختر ندوی*
(مہتمم جامعہ الابرار وسئ ایسٹ )