Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, April 4, 2020

مودی کے فرمان کے تناظر میں !!!

از/ محمد عاصف قاسمی /صداٸے وقت۔
==============================
        ہندوستان میں مسلمانوں کو دستور ہند کی رو سے مکمل اسلامی تشخصات کے ساتھ بود و باش اختیار کرنے کی پوری آزادی حاصل ہے، یہاں ہمیں کسی ایسے اعمال و افعال پر مجبور نہیں کیا جاسکتا جو ہمارے دین و مذہب سے متصادم ہو، یا جن سے شرک کی بو آتی ہو لیکن باوجود اس کے، کچھ لوگوں کی کوشش ہے کہ مسلمانوں کو ترک مذہب پر مجبور کیا جائے یا ان سے مذہبی آزادی کا حق چھین کر انہیں دوئم درجے کا شہری قرار دے دیا جائے
   دو روز ہوئے مودی کا اعلان سننے کو ملا، وہ کہ رہے تھے کہ پورے دیش واسیوں سے انورودھ ہے کہ کو رونا سے لڑنے میں ہماری مدد کریں، اس طرح کہ اتوار کے روز، راتری 9 بجے سے 9 منٹ تک اپنے اپنے گھروں کی لائٹیں بند کر دیں اور گھر کے گیلریوں میں کھڑے ہو کر دیا، موم بتی، ٹارچ وغیرہ وغیرہ جلائیں جیسا کہ اس سے پہلے 22 مارچ کو تالی تھالی بجا کر ہمارا ساتھ دیا تھا،میں پوچھنا چاہتا ہوں! کیا کرونا وائرس کوئی جانور ہے؟ جو تالی تھالی کی آواز سن کر یا  موم بتی یا دیا وغیرہ کی روشنی دیکھ کر راہ فرار اختیار کر لے گا ایسا لگ رہا ہے کہ ہم اپنے کھیتوں کی نگہبانی کر رہے ہیں

           دراصل مسلمانان ہند کے تئیں کرونا وائرس کی آڑ میں پس پردہ ایک بھیانک اور گھناؤنا کھیل جاری ہے، وہ یہ کہ مسلمانوں سے شرکیہ اعمال و افعال کرایا جائے؛ وضاحت اس کی یہ ہے کہ ان کا ایک تہوار گزرا ہے" نو راتری "  جو در حقیقت 9 راتوں پر مشتمل ایک تہوار ہے، بڑے جوش و خروش اور دھوم دھام کے ساتھ منایا جاتا ہے،ان 9راتوں میں سے آخری رات (9 واں دن کی رات ) رام نوی منائی جاتی ہے، جسے یہ لوگ راون کو رام کے ہاتھوں شکست کی یاد میں تہوار کے طور پر مناتے ہیں جو اس مرتبہ 2 اپریل کو منائی جانی تھی لیکن کرونا کی وجہ سے ملک کے لاک ڈاؤن کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ تہوار اعلی پیمانے پر نہ منایا جا سکا؛ یہ بات ان ستہ دھاریوں کو بڑی ناگوار گزری اور اس کی تلافی کے لیے ان ٹھیکیداروں نے یہ حل ڈھونڈ نکالا کہ حکومتی سطح پر بلا تفریق، پورے ملک میں 5 اپریل کو اتوار کے دن، رات 9 بجے، 9 منٹ تک جشن چراغاں منانے کا حکم دے دیا جائے چنانچہ دو روز قبل مودی  کی زبانی اس کا اعلان کر دیا گیا؛ آپ یہ تو جانتے ہی ہوں گے کہ ان کے یہاں اتوار کو کیا حیثیت حاصل ہے، ساتھ ہی یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ 9 کا عدد ہندو دھرم میں بڑی اہمیت کا حامل ہے
     اگلی بات شروع کرنے سے پہلے یہ وضاحت مناسب ہے کہ اس تہوار کی حقیقت کیا ہے ہندو کلینڈر وکرم سنپت کے مطابق ساتویں مہینے میں اسو کا چاند نظر آتے ہی نو راتری کا تہوار شروع ہو جاتا ہے، جس میں مہالشکمی، سرسوتی، درگا دیوی جسے درگا ماتا بھی کہا جاتا ہے، کی پوجا شروع ہو جاتی ہے، جس کی ابتداء دیا وغیرہ جلا کر کی جاتی ہے
     ہندو مت میں درگا ایک مقدس دیوی ہے، درگا کا معنی ہے" درگا تناشنی " جس مطلب ہے دکھ یا مصیبت دور کرنے والی، ہنود کا ماننا ہے کہ یہ دیوی ان کی تمام تر تکالیف دور کرتی ہے، انہیں ہر مصیبت سے بچاتی ہے اور ان کے من کی مراد پوری ہوتی ہے
     درگا 8 ہاتھوں والی دیوی ہے، یہ محض آٹھ ہاتھ نہیں بلکہ 8 راستے یا 8 رخ ہیں جس کا مفہوم لیا جاتا ہے کہ یہ دیوی اپنے عقیدت مندوں کی ہر رخ سے حفاظت کرتی ہے؛ درگا دیوی کو شیر پر بیٹھا دکھایا جاتا ہے جو کہ ان کے عقیدے کے مطابق اختیار، طاقت اور پختہ عزم کو ظاہر کرتا ہے
      جب یہ مہینہ شروع ہوتا ہے تو یہ لوگ 9 دنوں کو تہوار کے طور پر مناتے ہیں اور ان 9 دنوں میں روزہ بھی رکھتے ہیں، انہیں یہ نو راتری سے تعبیر کرتے ہیں
       اس دیوی کے 9 روپ ہیں، ان میں سے ہر روپ کی الگ الگ انفرادیت ہے، ان 9 راتوں کے دوران اس دیوی کے نو روپوں کی، دییے جلا کر پوجا کی جاتی ہے ذہن نشیں رہے کہ 9 راتوں کی آخری رات کو کنواری لڑکیاں پوجا کرتی ہیں، اس کے بعد دسویں دن دسہرا منایا جاتا ہے
مذکورہ باتوں سے آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ 9 کا عدد کیا اہمیت رکھتا ہے نیز ان کا فرضی بھگوان بھی 9 ویں دن پیدا ہوا تھا امید ہے کہ آپ کو اتوار، 9 بجے، 9 منٹ کا کھیل اچھی طرح سمجھ میں آگیا ہو
    لہذا اب ہمیں یہ کہنے میں کوئی تردد نہیں کہ یہ سب امور ان کے مذہب کا حصہ ہیں جو ہم مسلمانوں سے بھی کرانا چاہتے ہیں؛ ان کا اور ان سے منسلک لوگوں کا ماننا ہے کہ ہندوستان کا ہر باشندہ ہندو ہے، اسی لیے مودی نے بلا امتیاز جشن چراغاں کا اعلان کیا ہے، ان کی عادت ہے اپنے مذہبی عینک سے دیکھنے کی، حالانکہ یہ بھی اعلان کیا جاسکتا تھا کہ ہر مذاہب کے ماننے والے اپنے اپنے مذہب کے مطابق پراتھنا کریں اور یہ کہنا کہ کرونا وائرس سے لڑنے کے لیے شکتی کا اظہار ہے، اور یہ احساس دلانا ہے کہ ہم ایک جٹ ہیں، ہمیں اندھیرے سے روشنی کے اور لے چلیں  تو میرے خیال میں یہ ڈھونگ کے سوا کچھ نہیں، میں ملک کے پردھان منتری سے گزارش کروں گا کہ پہلے وہ اپنے دل، ارادے اور نیت درست کریں، ہم تو پہلے  سے ہی ایک جٹ ہیں، ہندو مسلم، سکھ عیسائی ساتھ رہتے آئے ہیں، ہمارے درمیان نفرت کا زہر آپ لوگوں نے گھولا ہے، آپ کے منہ ایسی باتیں اچھی نہیں لگتیں، مودی جی! 
       جب سے آپ کی سرکار بنی ہے اس وقت سے اب تک آپ نے اس ملک میں نہ تو کوئی بڑا ہاسپٹل بنوایا ہے، نہ کالج اور نہ ہی یونیورسٹی؛البتہ گودی میڈیا کے ذریعہ ہندو مسلم اتحاد کو پارہ پارہ کرکے نفرت پھیلانے کا شرمناک کھیل ضرور کھیلا ہے اب جب کرونا سے مقابلے کے لیے ان کے پاس اسپتال نہیں،جو اس مہلک بیماری سے لڑنے کا سب بڑا ہتھیار ہے تو کہیں حج ہاؤس کو ہاسپٹل میں تبدیل کر دیا،تو کہیں اسکولوں اور کالجوں کو ان مریضوں کا ٹھکانہ بنا دیا 
         دوسری طرف ڈاکٹروں کی کمی، دواؤں کی عدم دستیابی ، ماسک وغیرہ کی عدم موجودگی جو شرمندگی کا سبب بننے والی تھی تو انہوں نے سوچا کہ یہاں کے باشندوں کو لولی پوپ دے کر بہلایا اور پھسلایا جائے، تو کبھی تالی اور تھالی بجانے کا حکم دے دیا تو کبھی دیا اور موم بتی جلانے کا ؛ حالانکہ ان کو معلوم ہے یہ اس کا حل نہیں، اگر یہی اس بیماری سے لڑنے کا طریقہ ہوتا تو سب سے پہلے چین پھر ان تمام ملکوں میں جو اس بیماری سے متاثر ہیں، تالی تھالی بجانے یا دیا جلانے کا اعلان کیا جاتا مگر ان ماکروں کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں "ہوشیار باش اے ذی شعور" 
       اس لیے تمام مسلمانوں سے اپیل کی جاتی ہے کہ ان کے دجل و فریب کو سمجھنے کی کوشش کریں اور شرکیہ اعمال سے خود بھی بچیں اور اپنے اہل و عیال، اعزاء و اقرباء، دوست احباب سب کو بچانے کی سعی فرمائیں قُوْ أنْفسَكُمْ وَ اَھْلِیْکُمْ نَاراً ؛
  
                   محمد آصف قاسمی
                                  سیتامڑھی