Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, April 8, 2020

مسلمان میڈیا میں پورٹل کے ذریعہ پیش قدمی کریں : عبد الرحمن عالمگیر۔

از /عبد الرحمٰن عالم گیر / صداٸے وقت / ٨ اپریل ٢٠٢٠۔
==============================
جب بھی مین اسٹریم میڈیا پر مسلمانوں سے جڑی خبروں کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے یا کسی بھی خبر کو مذہبی و مسلکی رخ کی جانب موڑا جاتا ہے تو مسلمانوں کے دانشورانہ حلقے سے گہار لگائی جاتی ہے کہ ہمارا اپنا متحدہ میڈیا سسٹم ہو، اپنے چینل ہوں جس کے تحت خبروں کو غیر جانب دارانہ انداز میں پیش کیا جائے، مسلمانوں کی ملی و سیاسی رہنمائی کی جائے، ان کی فکری و علمی مستوی کو بلند کیا جائے اور ان کو قومی دھارے سے جوڑ کر رکھنے کی کوشش کی جائے۔ اِس قسم کی گزارشات اُس وقت سے کی جارہی ہیں جب سے میڈیا کی سحر انگیزی آسمان چھونے لگی ہے پھر اِس گزارش میں 9/11 کے بعد کی اسلاموفوبیائی لہر کے وقت شدت آئی۔ اب جب ہندوستانی میڈیا پر ہندوتوادیوں کا قبضہ ہے تو پھر یہ صدائے بازگشت جابجا سنائی دے رہی ہے۔ لیکن افسوس کہ آج تک مسلمانوں کا یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا اور ایسا کوئی چینل وجود میں نہ آسکا۔ جب کہ اس مدعا کے حصول کے لیے ہزاروں کانفرنس، سینکڑوں سیمینار اور دسیوں قرار دادیں پیش کیے گئے، اب تو ماجرا یہ ہے کہ چینل تو کُجا ایک ڈھنگ کا اخبار نکالنے کی سکت نہیں رکھتے۔ آج کل اخبار کے نام پر مذہبی حلقوں سے نکلنے والے اکّا دکّا پرچے بھی اخبار کم اور میگزین زیادہ ہوتے ہیں۔ اگر بالفرض مسلمانوں کا کوئی نیشنل چینل معرضِ وجود میں آ بھی گیا تو سوال ہے کہ اس پر کس مسلک کی حکمرانی ہوگی؟
شیعہ یا سنی کون اس کا روح روا ہوگا؟ اس کا چیف جرنلسٹ دیوبندی، بریلوی، جماعت اسلامی یا پھر اہل حدیث کا نمائندہ ہوگا؟ یا یہاں پر بھی سب کی دل جوئی کے لیے چار مصلے بچھائے جائیں گے؟ کیوں کہ یہ حقیقت ہے کہ مسلمانوں کے اندر سے مسلکی عفریت کافور نہیں ہو سکتا۔ کچھ لوگ اس پریشانی کا حل یہ نکالتے ہیں کہ ایسے چینل کو صرف خبروں تک محدود رکھا جائے اس پر کسی قسم کا مذہبی پروگرام نشر نہ کیا جائے لیکن یہ بھی محال نظر آتا ہے کیوں کہ ہر انسان کا اپنا ایک نظریۂ فکر ہوتا ہے وہ ہر چیز کو اسی نظر سے دیکھتا ہے، اسی کے مطابق کسی چیز کو خاص اور کسی کو کم اہمیت دیتا ہے چناں چہ تمام معاملات کی طرح انسان ایک خبر کو بھی اسی نقطۂ نگاہ سے دیکھتا اور پرکھتا ہے اس لیے آپ دیکھتے ہوں گے کہ ایک ہی خبر کو مختلف صحافی الگ الگ انداز میں پیش کرتے ہیں اور پرائم ٹائم شو میں مختلف النوع رائے قائم کرتے ہیں جو کبھی کبھی ایک دوسرے سے باہم متضاد تو کبھی قدرے مماثل ہوتے ہیں
بعینہ یہ معاملہ ہمارے مزعومہ متحدہ نیوز چینل پر بھی پیش آ سکتے ہیں، جس میں کسی مسلک کا اینکر کسی نظریہ پر زور دے گا تو کوئی تجزیہ کار کسی اور پر۔ مزید یہ کہ ہر مسلک کا متبع اپنے مذہبی جلسے و جلوس کو نمایاں کرنے اور اپنے حضرت کی بڑکپن ثابت کرنے کی کوشش کرے گا۔ اسی طرح جتنا آسان مفت کے مشورہ دینا ہے اتنا آسان نیوز چینل قائم کرنا نہیں ہے۔ یہ کوئی دس بیس لاکھ کا کھیل نہیں ہے کہ چند اہل خیر حضرات کی معاونت سے پایہ تکمیل کو پہنچ جائے بلکہ کروڑوں کا پروجیکٹ ہے پھر ہر ماہ لاکھوں کا صرفہ ہے۔ مزیں برآں مسئلہ یہ ہے کہ ہوسٹ کون کرے مرد یا عورت؟ اگر عورت ہوگی تو اس کا حجاب کس قدر ہوگا، صرف چہرہ کھولنے کی اجازت ہوگی یا سراپا پردہ نشیں؟ اگر مکمل با پردہ ہوگی تو اس کی آواز کا کیا حکم ہوگا؟ اور پھر ان چینلوں میں اشتہارات کی گنجائش ہوگی یا نہیں؟ اگر ہاں تو پھر اسی طرح کئی سوالات رونما ہوں گے اگر نہیں تو پھر چینل کا خرچ کیسے مکمل ہوگا؟ جب کہ اشتہارات خبر رساں اداروں کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے۔ آخر کس کس چیز کا چندہ کریں گے؟ ؟ ؟
اسی لیے میرے خیال سے شیخ چلی کی طرح نیوز چینل کا ہوائی قلعہ تعمیر کرنے کے بجائے چھوٹے پیمانہ سے آغاز کیا جائے۔ آج ویب پورٹل اور یو ٹیوب کا زمانہ ہے۔ ہر کوئی آزاد ہے۔ ہر ایک اپنا علاحدہ چینل شروع کر سکتا ہے۔ کیوں متحد متحدہ کی بلا وجہ رٹ لگائے ہوئے ہیں؟ کیوں دوسروں کے انتظار میں وقت ضائع کر رہے ہیں؟ اگر اس انتظار میں رہیں تو کچھ ہونے والا نہیں ہے الا کہ مسلمانوں کی کوئی حکومت متحدہ طور پر ان کی نمائندگی کرے جیسے قطر میں الجزیرہ کر رہا ہے۔ ممکن ہے جس کی اہمیت آپ کے نزدیک ہے اس کی اہمیت سامنے والے کے یہاں نہ ہو۔ جو کام آپ کر سکتے ہیں اگلا نہ کر سکتا ہو یا اس کے نزدیک اس کی اہمیت نہ ہو۔ اس لیے آپ تنہا یا اپنے ہم نواووں کے ساتھ ابتداء کریں۔ چھوٹے چھوٹے آرٹیکل لکھیں۔
چھ سے سات منٹ کی ویڈیوز بنائی جائیں۔ طولانی سے گریز کیا جائے۔ پھر اس کی اعلی طرز پر ایڈٹنگ کی جائے۔ اسے دیدہ زیب بنائیں تاکہ ناظرین کی توجہ آپ کی طرف کھینچی چلی آئے۔ اپنے ویب سائٹ کو ترقی دینے کے لیے عوام سے رضاکارانہ روابط قائم کریں ہر نئے آرٹیکل اور ویڈیو کی لنک انہیں ذاتی طور پر بھیجیں اور اس کی تشہیر کے لیے ان سے درخواست کریں کہ وہ اسے اپنے متعلقین تک پہنچائیں۔ اگر آپ کے میٹر (Matter) معیاری، معلومات افزا اور حقیقت پسندانہ ہوں گے تو اس کی مقبولیت بہت جلد ہوگی۔ اس میں نیوز چینل کی طرح اتنی مشکلات نہیں ہیں۔ اس طرح ہر جماعت اس خدمتِ خلق کا بآسانی موقع پا سکتی ہے۔ یہ طریقہ کم خرچ میں زود اثر ثابت ہوگا۔ قومی سطح پر اس کی کئی مثبت مثالیں ہیں جن کے روزانہ لاکھوں ویزیٹرز ہیں۔ جن سے عوام تو عوام بڑی بڑی نیوز ایجینسیاں استفادہ کرتی ہیں۔ ان پورٹلوں کی اثر انگیزی دیکھتے ہوئے تمام چینلوں نے اپنے اپنے ایپلیکیشن تیار کروائے، یوٹیوب پر پکڑ مضبوط کیا، سوشل سائٹ پر پہچان بنائی اور اپنی پَل پَل کی کارکردگی کو ان روابط سے جوڑ دیا۔
مسلم جماعتیں بھی اسی راہ پر چل کر بہتر شروعات کر سکتی ہیں۔ پہلے اچھی رپورٹنگ سے اپنی پہچان بنائیں۔ لحظہ بہ لحظہ یہ خار دار وادیاں طے ہوتی جائیں گی۔ پھر ایک دن آئے گا کہ جب یہ میڈیا کے اعلی معراج پر متمکن ہوں گی اور اس وقت صرف ایک چینل ہی نہیں پوری نیوز سروس سنبھالنے کی سکت ہوگی۔ کیوں کہ یہ حقیقت ہے کہ انسان جب پہلا قدم اٹھاتا ہے تو اس کو کچھ مشکلات پیش آتی ہیں لیکن ساتھ ہی اس کے سامنے کئی راستے کھل جاتے ہیں پھر جوں جوں وہ قدم بڑھاتا جاتا ہے منزل آسان اور قریب ہوتی جاتی ہے۔