Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, April 10, 2020

کیجریوال حکومت کی سست روی، دہلی وقف بورڈکےامام اورموذن حضرات کو پانچ ماہ سے نہیں ملی تنخواہ۔

دہلی میں وقف بورڈ سےمنسلک امام اورمٶذن حضرات کےکھانےکےلالے پڑ گئے ہیں اور ان لوگوں کو بھکمری کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ساتھ ہی دہلی وقف بورڈ کےاسٹاف اورملازمین کےحالات بھی بدتر ہوچکے ہیں۔

نئی دہلی/ صداٸے وقت /ذراٸع / ١٠ اپریل ٢٠٢٠۔
==============================
: گزشتہ پانچ ماہ سے تنخواہ نہ ملنےکےباعث راجدھانی دہلی میں وقف بورڈ سےمنسلک امام اور مٶذن حضرات کےکھانےکےلالے پڑگئے ہیں اور ان لوگوں کو بھکمری کا سامنا کرنا پڑرہا ہے تو دہلی وقف بورڈ کےاسٹاف اور ملازمین کےحالات بھی بدتر ہوچکے ہیں۔ دہلی میں چل رہےلاک ڈاؤن کی وجہ سےان لوگوں کی مشکل اور زیادہ بڑھ گئی ہے۔
دہلی وقف بورڈکےممبرحمال اخترنےدہلی وقف بورڈ کے سی ای او ایس ایم علی اور وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کو خط لکھا ہے، جس کے سامنے آنےکےبعد دہلی وقف بورڈکےتحت کام کرنے والےامام اورمٶذن حضرات کےکربناک حالات سامنے آئے ہیں۔حمال اخترکے ذریعہ لکھےگئےخط میں وقف بورڈ کے سی ای او ایس ایم علی اور دہلی کے وزیر اعلیٰ اروندکیجریوال سے درخواست کی گئی ہےکہ وقف بورڈ میں چل رہےبحران کا حل جلد ازجلد نکالا جائےکیونکہ بورڈ کےتحت مسجدوں کے 275 اماموں اورمؤذنین حضرات کو پچھلےپانچ مہینوں سے تنخواہ نہیں دی جا سکی۔ تو دہلی وقف بورڈکاتقریباً 170 افرادکا اسٹاف بھی دو مہینےسے تنخواہ کا انتظارکر رہا ہے۔
دہلی میں تقریباً 180 مساجد ہیں، جو دہلی وقف بورڈکےتحت آتی ہیں، ان مسجدوں میں نماز پڑھانے والے امام اورمٶذن حضرات کو اب کھانےکےلالے پڑچکے ہیں۔ تو تقریباً 600 سے زیادہ بیواؤں کو بھی اپنی 2500 روپئےماہانہ ملنے والی پنشن کا پچھلے 4 مہینے سے انتظار ہے۔ پرائیویٹ مسجدوں کے2200 سے زیادہ اماموں کو دہلی وقف بورڈ سےتنخواہ ملنےکی امید بھی دم توڑ رہی ہے۔ حالانکہ دہلی وقف بورڈ نےفروری میں ہوئےانتخابات سےکچھ ماہ قبل ائمہ حضرات اور موذنین کی تنخواہ میں بڑا اضافہ کیا تھا۔ 8 ہزارسے9 ہزارکی تنخواہ کو بڑھاکر 18000 اور 16000 کردیا گیا تھا، لیکن اب تنخواہ ہی نہیں مل پا رہی ہے اورایسے میں جبکہ راجدھانی دہلی میں لاک ڈاؤن چل رہا ہے ان لوگوں کےلئےاپنا گھرچلانا اوربھی زیادہ مشکل ہوگیا ہے۔ریس کورس مسجد کے امام مولانا ہارون کہتے ہیں، ہمیں اس سےکوئی سروکار نہیں کہ آخرکیا وجہ ہے اورکیوں موجودہ چیئرمین کو ہٹا دیا گیا،یاکیا تکنیکی دقت تھی ہم تو یہ چاہتےہیں کہ امام اور موذن حضرات کو ان کی تنخواہ دے دی جائے۔
دراصل دہلی وقف بورڈکا بحران کوئی نیا بحران نہیں ہے، بس یہ بحران اب شدید ہوگیا ہے۔ دہلی وقف بورڈکےاکاؤنٹ سے پیسے نکالنےکےلئے تین افراد دستخط کرنےکے اہل ہیں۔ وقف بورڈکےسی او ایس ایم علی، ممبرحمال اختر اور چیئرمین امانت اللہ خان میں سے دو افراد کے دستخط ہونے چاہئے۔ سی ای او ایس ایم علی نےکافی عرصے سےخودکو بورڈ سےالگ کر رکھاہےجبکہ امانت اللہ خان کو 20 مارچ کو ہی چیئرمین شپ سے ہٹادیاگیا۔
حالانکہ اس وقت امانت اللہ خان شمال مشرقی دہلی میں ہوئےفسادمتاثرین کی مدد میں بڑھ کر کام کر رہےتھے، ان کو ہٹائےجانےکے پیچھےتکنیکی بنیاد بتائی گئی کہ وہ درمیان میں جب دہلی میں انتخاب ہوئے اس وقت وہ ممبر اسمبلی نہیں رہے۔ اس لئے دہلی سرکار کی طرف سے ممبر اسمبلی کے طور پر ان کا نام بھیجے جانے تک وہ چیئرمین نہیں رہ سکتے۔ حالانکہ جب امانت اللہ خان چیئرمین تھے اس وقت دہلی وقف بورڈ کے پاس گرانٹ کا پیسہ نہیں آیا تھا۔ 37 کروڑ کی گرانٹ میں سےگزشتہ سال صرف 9 کروڑ روپے ہی آئے۔ تکنیکی بنیادوں پر اور معمولی دقتوں کو بنیاد بنا کر گرانٹ نہیں دی گئی۔
وقف بورڈ کے دستخط کرنےکے اہل ممبر حمال اختر کا کہنا ہے ہے 28 مارچ کو دہلی سرکارکی طرف سے وقف بورڈ کے اکاؤنٹ میں گرانٹ آئی ہے، لیکن موجودہ سی او ایس ایم علی گرانٹ ریلیزکرنےکےلئے دستخط کرنے پر راضی نہیں ہیں جبکہ امانت اللہ خان  اب چیئرمین نہیں رہے۔ اس لئے دو لوگوں کے دستخط نہیں ہو سکتے۔ ایسے میں 28 مارچ کو دہلی سرکار کی طرف سے آئےگرانٹ کا پیسہ اکاؤنٹ میں پھنسا ہوا ہے، جس کےنتیجے میں امام اور موذن حضرات کے ساتھ ساتھ دہلی وقف بورڈ کا اسٹاف کو اپنی تنخواہ اور بیواؤں کو اپنی پنشن کا انتظار ہے۔
لاک ڈاؤن کے دوران دہلی وقف بورڈ میں چل رہے بحران کو لےکر اب سوال بھی اٹھنے لگےہیں اورکئی لوگ کھل کر دہلی سرکار پرسوال اٹھا رہے ہیں۔ دہلی وقف بورڈ کے سابق ممبر مفتی اعجاز ارشد قاسمی نے اپیل کی ہے کہ سرکار کو اس مسئلےکو فوری طور پر ترجیح بنیادوں پر حل کرنا چاہیےکیونکہ ایک جانب سرکار غریبوں کو کھانا کھلا رہی ہے تو دوسری طرف ان کےخود کےملازمین بھکمری کے شکار ہو رہےہیں۔