Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, April 1, 2020

جموں کشمیر میں ڈومیساٸل قانون کا نفاذ۔۔نیشنل کانفرنس کا اعتراض۔

نٸی دہلی /صداٸے وقت /ذراٸع /یکم اپریل 2020.
==============================
ڈومیسائل قانون اتنا کھوکھلا ہے کہ اس کے لئے لابنگ کرنے والی جماعت بھی اس کی مخالفت کررہی ہے: سابق وزیراعلیٰ عمرعبداللہ.
جموں کشمیر نیشنل کانفرنس کے نائب صدر و سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا کہ جموں وکشمیر میں نافذ کئے جانے والے 'ڈومیسائل قانون' نے یہاں کے لوگوں کے زخم تازہ کردیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ڈومیسائل قانون اتنا کھوکھلا ہے کہ اس کے لئے لابنگ کرنے والی جماعت بھی اس کی مخالفت کررہی ہے۔
عمر عبداللہ نے مرکزی حکومت کی طرف سے جموں وکشمیر میں نافذ کئے جانے والے ڈومیسائل قانون پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا: 'مشتبہ وقت کے بارے میں بات کریں۔
عمر عبداللہ نے کہا ۔جب ہماری کوششیں اور توجہ کورونا وائرس سے نمٹنے پر مرکوز ہونی چاہیے تھی حکومت نے جموں وکشمیر میں نیا ڈومیسائل قانون نافذ کیا۔ جب ہم دیکھتے ہیں کہ اس قانون سے کوئی بھی وعدہ پورا نہیں ہوتا ہے تو زخم تازہ ہوجاتے ہیں'۔
انہوں نے سابق وزیر سید محمد الطاف بخاری کی پارٹی کا نام لئے بغیر کہا: 'آپ تصور کرسکتے ہیں کہ ڈومیسائل قانون اتنا کھوکھلا ہے کہ دلی کے آشرواد سے وجود میں آنے والی نئی جماعت، جس کے لیڈران اس قانون کے لئے دلی میں لابنگ کررہے تھے، کو جموں وکشمیر ڈومیسائل قانون کے خلاف بیان دینے پر مجبور ہونا پڑا'۔
چند ہفتے قبل معرض وجود میں آنے والی جموں کشمیر اپنی پارٹی کے صدر الطاف بخاری نے 17 مارچ کو جموں میں کہا تھا کہ اس یونین ٹریٹری میں ڈومیسائل قانون ایک یا دو ہفتوں کے اندر نافذ کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ اگر کسی ریاست یا یونین ٹریٹری کو ڈومیسائل قانون کے تحت 19 معاملات میں اختیارات ہیں تو جموں وکشمیر کو 20 معاملات میں اختیارات دیے جائیں گے۔
نیشنل کانفرنس نے حکومت ہند کی طرف سے جموں وکشمیر کے عوام کے مفادات کے تحفظ کے لئے متعارف کئے جانے والے ڈومیسائل قانون کو کھوکھلا اور ناقابل قبول قرار دیا ہے۔ پارٹی کے ترجمان اعلیٰ آغا سید روح اللہ مہدی نے اپنے ایک بیان میں متعارف شدہ قانون کو بھونڈا مذاق قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مقامی لوگوں کے لئے صرف درجہ چہارم کے اسامیان مخصوص رکھی گئی ہیں، اس سے زیادہ بے عزتی کی کیا بات ہوسکتی ہے۔
15 سال جموں وکشمیر میں قیام پذیر رہنے والوں کو اقامتی زمرے میں لانے کے فیصلے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پارٹی نے کہا کہ اس کا مقصد جموں و کشمیر کا آبادیاتی تناسب بگاڑنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں تعینات مرکزی حکومت کے ملازمین، پی ایس یوز اور مہاجرین کے بچے بھی اب یہاں ملازمتیں حاصل کرنے کے اہل ہوں گے اور ایسے میں مقامی آبادی کے لئے برائے نام اسامیاں رہ جائیں گیں۔
جموں و کشمیر کے لوگوں کے لئے یہ قانون کتنا ظالمانہ ہے اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہندوستان کے کسی بھی حصے کا شہری محض 7 سال یہاں تعلیم حاصل کرنے کے بعد ڈوماسائل کے لئے رجوع کرسکتا ہے اور نوکری حاصل کرنے کا اہل بن سکتا ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ دوسری ریاستوں میں تعلیم حاصل کرنے والے طالب علموں کو بھی اس طرح کے حقوق حاصل ہوں؟
قانون متعارف کرنے کے وقت کو زخموں پر نمک پاشی قرار دیتے ہوئے این سی ترجمان اعلیٰ نے کہا کہ جب پورا ملک کورونا وائرس کی وبائی بیماری سے لڑرہا ہے اور جموں وکشمیر کے عوام اور اُن کے نمائندے اپنے کنبوں اور لوگوں سے متعلق تشویش اور فکر میں مبتلا ہیں، ایسے وقت میں حکومت ہند کی طرف سے قانون سامنے لانا خود بہ خود اپنی مشکوکیت بیان کرتا ہے۔ نئی دلی یہ بات بخوبی جانتی ہے کہ اس وقت لوگ کورونا وائرس کی عالمگیر وباء سے پیدا شدہ صورتحال سے پریشانیوں، مصائب اور مشکلات سے دوچار ہیں اور وہ اس وقت اس جانب کوئی توجہ نہیں دیں گے۔
آغا روح اللہ نے کہا کہ حکومت ہند کے یہ اقدام بظاہر عوام کیساتھ دھوکہ اور فریب ہیں۔ اقامتی قانون کو مسترد کرتے ہوئے این سی ترجمان نے کہا کہ ہماچل پردیش اور دیگر ریاستوں میں ڈومیسائل قانون کے تحت زمین کے حقوق محفوظ رکھے گئے ہیں جبکہ جموں و کشمیر اقامتی قانون میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ اس قانون میں جموں وکشمیر کے عوام کی زمینوں کے تحفظ کی کوئی بات نہیں۔
نیشنل کانفرنس نے اس بات پر بھی حیرانگی کا اظہار کیا کہ ڈومیسائل کی اجرائی میں کسی بھی قسم کی تحقیق کا طریقہ کار نہیں رکھا گیا ہے اورایک تحصیلدار سطح کا ایک آفیسر اقامتی سرٹیفکیٹ اجراء کرنے کا اہل ہوگا۔مرکزی حکومت کی مبینہ دوغلی پالیسی کو ہدف تنقید بناتے ہوئے نیشنل کانفرنس کے ترجمان اعلیٰ نے کہا جہاں ملک میں 70سال سے قیام پذیر لوگوں کو شہریت ثابت کرنے کے لئے کہا جارہا ہے وہیں جموں وکشمیر میں 10سے 15سال قیامکرنے والوں کو شہری حقوق دیئے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت ہند نے جموں وکشمیر کے لوگوں کے ساتھ امتیازی سلوک اب بھی جاری رکھا ہے