Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, April 10, 2020

صفدر جنگ اور ایمس کے باہر سینکڑوں افرادبے بس، نہ توعلاج اور نہ گھر واپسی ممکن۔

نئی دہلی/صداٸے وقت /ذراٸع / ١٠ اپریل ٢٠٢٠۔
==============================
دارالحکومت  دہلی میں صفدر جنگ ہسپتال اور ایمس کے باہر ملک کے کونے کونے سے علاج کے لیے آئے سینکڑوں لوگ اچانک لاک ڈائون سے بے بس ہیں اورپھنسے ہوئے ہیں اور وبا کے کم ہونے کا انتظار کر رہے ہیں ۔یہ لوگ کینسر، گردے اور دل سے متعلقہ بیماریوں اور ایسی دیگرسنگین بیماریوں کے علاج کے لیے آئے تھے۔
دہلی حکومت ان لوگوں سے بے پرواہ ہے۔دارالحکومت کے سب سے بڑے سرکاری اسپتالوں کے درمیان سے نکلنے والی سڑک عام طور پر بہت مصروف رہتی ہے لیکن وائرس کی وجہ سے یہاں سناٹا چھایا ہے جس میں ان غریب مریضوں کی صداگونج رہی ہے جو نجی ہسپتالوں میں علاج کا خرچ نہیں اٹھا سکتے اور گھروں سے کوسوں دور یہاں اٹکے ہوئے ہیں۔ان میں سے زیادہ تر متعدد ریاستوں سے علاج کی خاص سہولیات کا فائدہ اٹھانے کے لیے یہاں پہنچے تھے اور اب لاک ڈاؤن کے دوران سڑکوں اور دونوں ہسپتالوں کو جوڑنے والے سب وے میں بنائے گئے ٹھکانوں میں وقت گزارنے پرمجبورہیں۔مدھیہ پردیش کے کسان وجے سہائے اپنے 13 سال کے بیٹے کاعلاج کرانے آئے ہیں جسے بلڈ کینسر بتایا گیا ہے۔علاج کے لیے ان کا انتظار بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ملک بھر میں اچانک 25 مارچ سے لاگو کیے گئے21 دن کے لاک ڈائون میں پھنسے وجے سہائے کی ترجیح اپنے گاؤں سے بی پی ایل کارڈ منگانے کی ہے جس سے انہیں ادویات مل سکتی ہیں۔لیکن وہ گھر بھی نہیں جا سکتے اور علاج توہوہی نہیں پا رہاہے۔ساتویں کلاس میں پڑھنے والے اپنے بیٹے کونہارتے ہوئے بے بس سے دکھائی دے رہے وجے سہائے کہتے ہیںکہ میں 15 مارچ سے یہاں ہوں۔ایمس کے ڈاکٹروں نے کچھ ادویات لکھی ہیں لیکن وہ بہت مہنگی ہیں۔کچھ لوگوں نے مجھے بتایاہے کہ میرے پاس بی پی ایل کارڈ ہے تو مجھے ادویات خریدنی نہیں ہوں گی۔مجھے اب اپنا بی پی ایل کارڈچاہیے، لیکن مجھے کس طرح ملے گا؟ اسی بسیرے میں رہنے والے جموں سے آئے 22 سال کے امنجیت سنگھ بھی ہیں۔ گزشتہ سال اکتوبر میں سڑک حادثے کا شکار ہوئے سنگھ کو علاج کے لیے ایمس بھیجاگیاتھا۔ ان کادایاں ہاتھ ہل بھی نہیں پا رہا ہے اور ڈاکٹر بھی ان کامعائنہ نہیں کر پا رہے ہیں۔اپنے والد کے ساتھ یہاں آئے امنجیت سنگھ نے کہاہے کہ یہاں نہ توجانچ ہو رہی ہے اور نہ ہی علاج ہو رہا ہے. ہمارے پاس پیسہ بھی نہیں بچاہے۔ سب سے بہتر ہو کہ ہم اپنے گھر لوٹ سکیں، لیکن ایسابھی نہیں کر سکتے۔دور دور سے قومی دارالحکومت میں علاج کرانے کے لیے آئے سینکڑوں لوگوں کے پاس کوئی متبادل نہیں بچا ہے کیونکہ وہ واپسی کی پوزیشن میں بھی نہیں ہیں۔ایمس ہسپتال میں جہاں اوپی ڈی بند ہے، وہیں صفدر جنگ میں صرف ایک اوپی ڈی محدودطریقے سے چل رہی ہے۔ان ہسپتالوں میں مریض ڈائیلائسس اوردیگر ہنگامی علاج کے لیے کئی دنوں، ہفتوں اور اب تو کئی مہینوں سے انتظارکررہے ہیں۔اترپردیش کے پیلی بھیت کی رہنے والی 34 سالہ لائن دیوی کوکینسرہے۔ وہ ہولی سے پہلے ہی اپنے شوہرسرجیت شریواستو کے ساتھ علاج کرانے کے لیے یہاں آئی تھیں۔ایک ماہ بعد بھی ابتر صورت حال میں ہیں۔علاج کے معاملے میں ابھی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے اور گھر جانے کے سارے راستے بندہیں۔ایسے بہت سے لوگ دگنی مصیبت جھیل رہے ہیں۔ اب حالات معمول ہوں تو ان کے علاج کی امید بڑھے۔