Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, April 16, 2020

مسلمان ‏تاجر ‏کا ‏خاصہ۔

تحریر۔۔مفتی محمد اسحٰق حقی قاسمی۔/صداٸے وقت۔
==============================
آج ہم نےتجارت کو منزل مقصود بنالیاہے جب کہ تجارت دنیوی زندگی بسر کرنے کا ذریعہ اور سبب ہے ۔اسی لیے قران مقدس میں مال ودولت کو دوطرح سےبیان کیا گیا ہے ۔
کہیں مال ودولت کی قباحت بیان کی گٸی ہے تو کہیں مال ودولت کو خیر سے تعبیر کی گٸی ہے ۔دنیا ودولت کی قباحت کی مثال انما اموالکم واولادکم فتنة وماالحیوة الدنیا الامتاع الغرور اور ان مال دولت کےلٸے قران شریف میں تعریفی کلمات بھی ہیں جیسے وابتغوامن فضل اللہ { اور ڈھونڈو فضل اللہ کا } مراد تجارتی نفع ، اس کو فضل اللہ سےتعبیر کیاجارہاہے ۔اور بعض جگہ مال کےلٸےخیر کا لفظ بھی آیاہے جیسے وانہ لحب الخیر لشدید { اور آدمی محبت پر مال کی بہت پکا ہے }  یہاں الخیر مال کےمعنی میں ہے 
بظاہر غور کیاجاے تو پتہ چلتاہے کہ ان دونوں قسم کی تعبیرات میں  تعارض ہے کیونکہ ایک جگہ مال کو متاع الغرور یعنی دھوکہ کا سامان ہے اور دوسری جگہ مال کو خیر اور فضل اللہ بتایا جارہا ہے ۔
جب کہ درحقیقت یہ تعارض نہیں ہے ۔بلکہ یہ بتانا منظور ہےکہ دنیاوی مال واسباب جتنےبھی ہیں یہ انسان کی حقیقی منزل اور منزل مقصود نہیں ،،بلکہ منزل مقصود آخرت اور آخرت میں رضإالہی ہے ۔ہاں مال واسباب دنیوی ضرورت ہے جس کےبغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتاہے ۔لہذا انسان ان اسباب کو محض راستہ کا ایک مرحلہ سمجھکر استعمال کرے ،منزل مقصود قرار نہ دے تو اس وقت تک یہ خیر ہے اور جب انسان اس کومنزل مقصود بنالیں تو جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ اس منزل مقصود کو حاصل کرنےکےلٸے ہرجاٸزوناجاٸز طریقہ اختیار کرنا شروع کردیں تو یہ فتنہ اور متاع الغرورہے ۔خلاصہ کلام یہ ہے کہ تجارت دنیوی اورانسانی ضرورت ہے نہ کہ منزل مقصود ۔
اللہ تعالی نے تجارت کی بہت بڑی فضیلت فرماٸی ہے جیسے  قران مقدس میں بکثرت یہ تعبیر آٸی ہے کہ ۔اللہ کا فضل تلاش کرو ۔جس کےبارے میں حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس کی تفسیر اکثر حضرات مفسرین نےیہ کی ہے کہ اس سےمراد تجارت ہے گویا تجارت کو ۔ابتغإفضل اللہ ۔سےتعبیر کیا ہے اللہ کا فضل تلاش کرو اس سےتجارت کی فضیلت کیطرف اشارہ ہے ۔اسی لٸے تجارت کو محض دنیاوی کام نہ سمجھو بلکہ یہ اللہ کےفضل کو تلاش کرنےکےمترادف ہے ۔
مسلمان تاجر کا خاصہ یہ ہے کہ جب وہ تجارت کرے تو دل اللہ کی یاد میں لگا ہو ۔مطلب یہ ہے کہ ہاتھ کام میں لگا ہو اور دل اللہ تبارک وتعالی کی یاد میں لگا ہو ۔
اللہ تعالی نے فرمایا ۔فاذا قضیت الصلوة فانتشروا فی الارض وابتغوا من فضل اللہ { الجمعہ }{پھر جب تمام ہوچکی نماز تو پھیل پڑو زمین میں اور ڈھونڈو فضل اللہ کا } یعنی اللہ کا فضل تلاش کرو ۔کاروبار کرو اور اللہ کو کثرت سےیاد بھی کرو ۔تجارت کرتےوقت اللہ کاذکر جاری رہنا چاہٸے ۔کیونکہ کاروبار ۔تجارت میں اللہ کی یاد سےغافل رہا تو  تجارت ۔کاروبار کی محبت تمہارےدل میں گھس کر تمہارے نیا کو ڈبو دےگی ۔اسی وجہ سے وابتغوا من فضل اللہ کےساتھ واذکروااللہ کثیرا لاحقہ لگا دیاگیا کہ تجارت کےساتھ اللہ کی یاد ہونی چاہٸے ۔ایسا نہ ہو کہ یایھاالذین آمنوا لاتلھکم اموالکم واولادکم عن ذکراللہ { المنافقون } یعنی مال ودولت اور اہل وعیال تمہیں اللہ کےذکر سے غافل نہ کردیں 
خلاصہ یہ ہے کہ ہاتھ کام میں لگ رہا ہے تو دل اللہ کی یاد میں لگا ہو ۔
اللہ تعالی ہم سبھی کو سچا ۔صحیح تاجر بناے اور صراط مستقیم پر قاٸم وداٸم رکھے 
بصدقہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ۔

مفتی محمداسحاق حقی قاسمی 
بانی مدرسہ اسلامیہ دارالعلوم کریمیہ نبی کریم ونٸی دہلی ۔
امام مسجد خرد تیل مل گلی نبی کریم ۔
صدرمفتی دارالافتإکریمیہ نبی کریم نٸی دہلی