Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, April 22, 2020

ضلع ‏اعظم ‏گڑھ ‏کے ‏تعلیمی ‏اداروں ‏کا ‏ایک ‏جاٸزہ۔


از/ محمد خالد اعظمی / صداٸے وقت۔
============================
اعظم گڈھ میں مسلمانوں کے ذریعہ چلائے جارہے تعلیمی اداروں کو ان کی ماہیت، انتظامی ترتیب و ترکیب کی بنیاد پر  تین مختلف زمروں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ 

۱-   وہ ادارے جو دستوری لحاظ سے مسلمانوں کسی تنظیم کے ماتحت ادارے کے طور پر حکومت        سے منظور شدہ ہونے کے ساتھ عملہ کی تنخواہ و دیگر مراعات سرکار  سے حاصل کرتے ہیں ، وزارت تعلیم کے ذریعہ منتخب اورمنظور شدہ نصاب  کے تحت تعلیم دیتے ہیں اور سرکاری بورڈ یا یونیورسٹی سے ملحق ہوتے ہیں۔ اس کے تحت مائنارٹی درجہ حاصل کئے ہوئے پرائمری / جونیئر اسکول  انٹر  کالج ڈگری کالج وغیرہ آتے ہیں۔ اعظم گڈھ میں اس زمرے کے تحت کئی اسکول اور کالج  مثلاً شبلی نیشنل ڈگری و انٹر کالج اعظم گڈھ، بینا پارہ انٹر کالج بینا پارہ ، امجد علی غزنوی انٹر کالج محمد پور، مولانا آزاد انٹر کالج انجان شہید وغیرہ  کئی اور دوسرے اقلیتی کالج اور اسکول  چل رہے ہیں اس زمرے کے تحت آنے والے سبھی ادارے مرکز یا صوبے کی اقلیتی امور کی وزارت سے بھی منظور شدہ ہوتے ہیں اور سا تھ ہی سوسائٹی ایکٹ کے اصول و ضوابط کے بنیاد پر بنی سوسائٹی یا ٹرسٹ کی نگرانی میں چلتے ہیں۔ موجودہ حالات میں اس زمرے کے تحت اعظم گڈھ میں چلنے والے اداروں کا حال بہت اچھا نہیں ہے۔ وہ ادارے جہاں سوسائٹی کی رکنیت خاندانی کے بجائے عوامی ہے وہاں  اسکی رکنیت اور انتخاب میں اقربا پروری اور بے ضابطگی کے ساتھ مجلس منتظمہ کے اندر گروہی  اختلافات کے چلتے اداروں کی تعمیر و ترقی برائے نام ہورہی ہے۔ سیاسی و انتخابی مسائل اتنے زیادہ ہو جاتے ہیں کہ نئے مضامین ، نئے شعبہ جات اور ملازمت و بازار کی ضرورت کے مطابق نئے کورسز کھولنے کی فرصت ہی نہیں ہے ۔انہیں اختلافات کی وجہ سے ملازمین کے ریٹائر منٹ کے بعد اسامیاں سالہا سال خالی پڑی رہتی ہیں اور ان کو پر کرنےکیلئے سیلیکشن کمیٹی کا انعقاد  لگاتار ٹلتا رہتا ہے اور یوں قومی و ملی وسائل و ذرائع کا زیاں و خسران ہمارے ان قومی اداروں میں عام ہے۔ یہاں یہ حقیقت بھی ذہن نشین رہنی چاہئے کہ ہندوستان میں صرف اقلیتی اسکول اور کالجز کی مجلس منتظمہ کو ہی خالی جگہوں پر  راست تقرری  کا قانونی اختیار ہے ورنہ عام کالجوں اور اسکولوں میں تقرریاں ایجوکیشن  کمیشن کے ذریعہ منعقدہ مسابقتی امتحانوں سے ہوتی ہیں ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس قانونی سہولت کا فائدہ  ملی اداروں کو صحیح طور پر نہیں مل پارہا ہے  اور اس نقصان کی راست ذمہ داری اداروں کی مجلس انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے ، لیکن اس نقصان کا نہ سوسائٹی کی مجلس عمومی کو احساس ہے اور نہ انتظامیہ کو اس کی پرواہ۔ ضلع میں شبلی نیشنل کالج اور بینا پارہ انٹر کالج اس طرح کی بد انتظامی کی واضح مثال ہیں جہاں سوسائٹی کی رکنیت، انتخابات اور نتائج کو لیکر اختلافات کا سلسلہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ تک چلتے رہنا عام بات ہے ، جسکے نتیجہ میں تعمیر و ترقی کے متاثر ہونے کے ساتھ خالی پڑی جگہوں کو پر کرنا ایک مسئلہ بنا ہوا ہے۔ 
اس کے علاوہ جن اداروں میں مجلس عمومی کے ارکان صرف گھر یا خاندان کے چنندہ افراد ہیں اور مجلس انتظامی بھی خاندان کے انہیں منتخب افراد پر مشتمل ہوتی ہے وہاں رکنیت اور انتظامیہ میں کوئی اختلاف نہیں ہوتا لیکن یہ ادارے جو قومی ملکیت اور ملی اثاثہ کی حیثیت سے قوم کے مشترکہ وسائل سے وجود میں آئے تھے اب وہ صرف ایک خاندان یا شخص کی نجی ملکیت میں تبدیل ہوگئے ہیں ۔ ان اداروں کے ملازمین بھی سرکاری خزانے سے تنخواہ پاتے ہیں اس لئے یہاں خالی جگہوں کو پر کرنے میں کوئی گروہی یا انتظامی اختلاف رونما نہیں ہوتا لیکن تقرریوں  میں اقربا پروری سے کہیں زیادہ رشوت ستانی عام ہوگئی ہے اور اب یہ قومی ادارے ایک نجی کمپنی میں تبدیل ہو چکے ہیں اور من مانی طریقے سے چلائے جاتے ہیں ۔اعظم گڈھ میں  سرکاری امداد یافتہ مسلم اقلیتی انٹر کالجوں کی تعداد نو (۹) ہے جن کی اکثریت اب ایک نجی اور خاندانی اداروں میں تبدیل ہو چکی ہے ، مجلس منتظمہ کے نام پر صرف گھر کے افراد ہوتے ہیں۔قوم کے مستقبل کے معمار جب لاکھوں لاکھ کی رشوت ان ملی اداروں کی منتظمہ کو دیکر تقرری نامہ حاصل کرینگے تو یہ معمار کیا تعمیر کرینگے اس کا فیصلہ تو قوم اور ملت کو ہی کرنا ہوگا۔ ان حقائق سے ضلع کے عوام اچھی طرح واقف ہیں ۔ چند ایک کو چھوڑ کر ضلع میں موجود بیشتر  سرکاری امداد یافتہ اقلیتی انٹر کالج اب نجی اداروں میں تبدیل ہو چکے ہیں ۔

۲- ضلع میں مسلمانوں کے ماتحت اداروں کے دوسرے زمرے میں وہ ادارے ہیں جو حکومت سے منظور ہونے کے ساتھ  تعلیمی بورڈ  یا یونیورسٹی سے دستوری طور پر الحاق شدہ ہیں، حکومت کا منظور شدہ نصاب ہی  پڑھاتے ہیں لیکن سرکاری امداد یا مراعات نہیں پاتے۔ تنخواہ اور دوسرے تمام اخراجات ادارہ چلانے والی کمیٹی یا ٹرسٹ کے ذمہ ہوتے ہیں۔ تعلیمی شعبہ کی نجکاری کے ساتھ ہی حکومت نے پرائیوٹ اسکول اور کالج کھولنے کی عام اجازت دیدی جسکی وجہ سے ضلع میں  سیکڑوں کی تعداد میں نجی انٹر و ڈگری کالج کھل گئے۔ نجی زمرے کے تحت شروع ہونے والے اداروں میں اقلیتی اداروں کی تعداد بہ نسبت عام اداروں کے کافی کم ہے ۔ اعظم گڈھ ضلع میں غیر امداد یافتہ پرائیوٹ ڈگری کالجوں کی تعداد لگ بھگ دو سو دس ہے لیکن اس میں مسلم اقلیتی ڈگری کالج  صرف آٹھ  ہیں اور بقیہ جنرل کٹیگری کے کالجز ہیں۔ یہ بات قابل غور ہے کہ ضلع میں مسلم آبادی تقریباً  بیس فیصد ہے لیکن اقلیتی تعلیمی ادارے پانچ فیصد سے بھی کم ہیں۔ جہاں تک ہائی اسکول اور انٹر  میڈیئیٹ کالجز کی بات ہے پورے ضلع میں  سرکاری امداد یافتہ انٹر کالجوں کی تعداد ایک سو تین ہے جس میں مسلم اقلیتی سوسائٹی یا ٹرسٹ کے تحت صرف نو (۹)  کالج سرکاری امداد یافتہ ہیں ۔ اسوقت اعظم گڈھ میں غیر امداد یافتہ اتر پردیش حکومت سے منظور شدہ پرائیویٹ انٹر کالجوں کی تعداد لگ بھگ سات سو (۷۰۰) ہے جس میں  مسلمانوں کے ماتحت تقیریبا بیس انٹر کالجز ہیں ۔ اس کے علاوہ حال میں کچھ پرائیویٹ اسکول ، کالج  مرکز کے CBSE بورڈ کی منظوری سے کھلے ہیں جہاں  کا نصاب تعلیم CBSE کا اور ذریعہ تعلیم انگریزی ہے۔ نجی زمرے کے تحت جو اسکول کالج کھلے ہیں ان کے ملازمین کی تنخواہ و دیگر اخراجات تعلیمی فیس سے پورے کئے جاتے ہیں- نجکاری کے دور میں حکومت نے تعلیمی شعبہ کو بھی سماجی خدمت کے بجائے تجارتی ادارہ میں بدل دیا ہے اس لئے لاگت اور قیمت کی بنیاد پر تعلیم بھی ایک جنس بازار بن گئی ہے جسے بازاری قیمت پر بیچا اور خریدا جا رہا ہے ۔ اس دور میں مسلمان بھی جو اسکول یا کالج  چلا رہے ہیں وہ معاشیات کے اسی اصول کے تحت لاگت ، قیمت اور افادیت کی بنیاد پر چلا رہے ہیں جس میں تعلیمی فیس کے نام پر بھاری قیمت وصول رہے ہیں۔ 
۳-  مسلمانوں کے زیر انتظام تعلیمی اداروں کی تیسری کیٹیگری میں اسلامی دینی مدارس، جامعات اور مکاتب آتے ہیں جو علاقے میں مسلم تہذیب و تمدن ، اعلی اخلاقی اقدار  نیز  نسل نو کی علمی آبیاری کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ُ ضلع کے چند مدارس اپنی علمی و تحقیقی کاوش اور طلبہ کی عملی تربیت کے لئے عالمی شناخت کے حامل ہیں ۔ مدرستہ الاصلاح ، جامعتہ الفلاح ، جامعہ اشرفیہ وغیرہ قومی حیثیت کے ادارے ہونے کے ساتھ اپنی عالمی  شناخت کے لئے جانے جاتے ہیں ۔ مسلمانوں میں پرائمری یا اعلی تعلیم کے متلاشی طلبہ کی کثیر تعداد جدید تعلیم کے لئے ہندی / انگریزی اسکولوں میں داخلہ لینا پسند کرتی ہے اور کل مسلمان طلبہ کی صرف 4-5 فیصد تعداد ہی ان اسلامی مدارس کا رخ کرتی ہے۔ مدارس میں تعلیم کے ساتھ طلبہ کی تربیت اور ان کی شب و روز کی ترتیب پر نگراں و اساتذہ کی خاص نظر ہونے کی وجہ سے جدید اسکولوں سے فارغ التحصیل طلبہ کے مقابلے مدارس کے طلبہ  ڈسپلن اور نظم و ضبط کے زیادہ  پابند نظر آتے ہیں ۔ مدارس کے بارے میں عوام کا نقطئہ نظر ابھی تک بہت محدود اور غیر واضح ہے۔ زیادہ تر لوگ مدارس کو صرف قرآن و حدیث اور فقہ اسلامی کی تعلیم کے مرکز کے طور پر ہی دیکھتے ہیں اور تعلیم کے وسیع تناظر اور مدارس سے فراغت کے بعد کی علمی دنیا کو یہاں کے سند یافتہ طلبہ کے لئے نہایت محدود تصور کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اب بہت ساری مرکزی یونیورسٹیز کے دروازے مدارس کے طلبہ کے لئے ایسے ہی کھلے ہیں جیسے جدید اسکولوں سے پاس طالب علموں کے لئے، اور یونیورسٹی کی اعلی تعلیم کا حصول مدارس کے طلبہ کے لئے بھی اتنا ہی سہل اور قابل پہنچ ہے جتنا دوسرے اداروں کے طلبہ کے لئے۔ اسلئے مدارس اور انکے تعلیمی نظام کو ثانوی حیثیت دینے کے بجائے انکو تعلیم کے ویسے ہی مرکز کے طور پر دیکھنا اور پرکھنا چاہئے جیسے ہم ہندی اور انگریزی میڈیم  کے دوسرے اسکولوں اور کالجوں کو دیکھتے ہیں۔ اعظم گڈھ میں زیادہ تر بڑے مدارس حکومت سے منظور شدہ ہونے کے ساتھ سوسائٹی اور ٹرسٹ کے ماتحت  چلتے ہیں۔ چند ایک کو چھوڑ کر زیادہ تر مدارس حکومت سے کسی طرح کی امداد نہیں پاتے اور صرف عوامی چندہ یا طلبہ سے وصولی جانے والی معمولی فیس پر ہی منحصر ہوتے ہیں ۔ تمام مدارس اپنا اپنا نصاب تعلیم تیار کرنےاور اسے نافذ کرنے کے لئے آزاد ہیں یہی وجہ ہے کہ ہر مدرسے کا نصاب دوسرے سے الگ ہوتا ہے اور علمی معیار کے آپسی موازنے اور پیمائش کا کوئی ہمہ گیر اور عمومی  پیمانہ بھی موجود نہیں ہے۔ زیادہ تر مدارس کسی نہ کسی منہج اور مسلک کے تابع ہیں اسلئے طلبہ کی ذہنی تربیت، علمی تحقیق و تنقید اور مستقبل سناشی کا نظریہ بھی ہمہ گیر اور آزادانہ سوچ کا حامل نہ ہوکر  مسلکی حد بندیوں کا پابند ہوجاتا ہے اور ذہنی وسعت اور سوچ وعمل کو آزادانہ طور پر متحرک ہونے میں رکاوٹ بنتا ہے۔ 

اعظم گڈھ میں چلنے والے مدارس کو تین درجوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ 
۱- وہ مدارس جنکا ملک کی چند بڑی اور مایہ ناز یونیورسٹیوں سے الحاق ہے ۔ ان مدارس سے سند لینے کے بعد طالبعلم علیگڑھ، جامعہ ملیہ ، ماہر لال نہرو یونیورسٹی ، مولانا آزاد یونیورسٹی حیدرآباد، لکھنؤ یونیورسٹی  جیسے اداروں میں داخلہ لینے کا اہل ہو جاتا ہے اور آگے کی علمی دنیا کا وسیع میدان انکے سامنے ہوتا ہے ۔ مدرستہ الاصلاح ، جامعتہ الفلاح ، جامعہ اشرفیہ ، جامعتہ الطیبات وغیرہ ایسے مدارس ہیں جن کا ان یونیورسٹیوں میں زیادہ تر سے الحاق ہے، اور ہر سال ان مدارس کے طلبہ کی کثیر تعداد ان مرکزی یونیورسٹیوں میں تحصیل علم کے لئے پہنچتی ہے۔
۲-  دوسری قسم ان مدارس کی ہے جنکا ان یو نیورسٹیز سے تو الحاق نہیں ہے لیکن یہ ملک کے بڑے مدارس جیسے ندوہ العلماء لکھنؤ، دارالعلوم دیو بند وغیرہ سے جڑے ہوئے ہیں اور یہاں کے فارغین ندوہ یا دیو بند وغیرہ ہوتے ہوئے مذکورہ یونیورسٹیوں میں داخلے کے اہل ہو جاتے ہیں۔ مدرسہ بیت العلوم ، جامعہ فیض العلوم سرائمیر، جامعہ اسلامیہ مظفر پور تھنولی، جامعتہ الرشاد اعظم گڈھ اور کچھ دوسرے مدارس ہیں جنکا ان بڑے مدارس سے الحاق ہے۔ شہر میں مدرسہ امام مہدی اور مبارکپور میں مدرسہ باب العلم فقہ جعفر یہ کے مدارس ہیں جنکا الحاق لکھنؤ کے سلطان المدارس اور ناظمیہ عربی کالج سے ہے، یہاں کے طلبہ آگے کی تعلیم انہیں مدارس سے پوری کرتے ہیں۔ 
۳-  ضلع میں مدارس کی تیسری قسم وہ ہے جن کا اتر پردیش مدرسہ بورڈ سے الحاق ہے۔ یہ سرکاری امداد یافتہ مدارس ہیں ، اساتذہ کی تنخواہ و دیگر مراعات حکومت سے حاصل کرتے ہیں۔ شہر کا مدرستہ القریش کے علاوہ اور بھی کئی مدارس ہیں جو مدرسہ بورڈ سے ملحق اور منظور شدہ ہیں ۔ اعظم گڈھ ضلع میں ہندو برادران وطن نے بھی مدرسہ کھول کر اسے اتر پردیش مدرسہ بورڈ سے منظور کروایا ہے اور اسے چلا بھی رہے ہیں اور اس کے ذریعہ سرکاری امداد اور مراعات حاصل کر رہے ہیں۔