Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, May 16, 2020

کووڈ۔ 19 کی وجہ سے یوپی حکومت نے این پی آر پر لگائی روک، جاری کیا حکم نامہ

حکومت کی اس پیش رفت سے ان لوگوں نے راحت کی سانس لی ہے جو این پی آر کو این آر سی سے جوڑ کر دیکھ رہے تھے اور اس کی بڑے پیمانے پر مخالفت کر رہے تھے۔

لکھنٶ ۔۔۔اتر پردیش /از/ طارق قمر۔نیوز 18 /صداٸے وقت /ذراٸع /١٦ مٸی ٢٠٢٠۔
==============================
لکھنئو۔ مرکزی حکومت کی ایما پر ریاست  اترپردیش میں شروع کی گئی این پی آر سے متعلق پہلے مرحلے کی کارگزاریوں اور کارروائیوں پر فی الحال حکومت اتر پردیش نے آئندہ حکم نامہ آنے تک روک لگادی ہے۔ چیف سکرٹری جتیندرکمار نے اس ضمن میں پوری ریاست کے ضلع مجسٹریٹوں اور کمشنروں کو ہدایات جاری کردی ہیں۔ واضح رہے کہ حکومت اتر پردیش نے یہ اہم فیصلہ کورونا وبا کے خطرات اور دیگر مسائل کے پیش نظر کیا ہے۔
حکومت کی اس پیش رفت سے ان لوگوں نے راحت کی سانس لی ہے جو این پی آر کو این آر سی سے جوڑ کر دیکھ رہے تھے اور اس کی بڑے پیمانے پر مخالفت کر رہے تھے۔ بالخصوص ملک کی اقلیتوں اور یوں کہا جائے کہ سب سے بڑی اقلیت نے این پی آر کے التواء پر سب سے زیادہ سکون محسوس کیا ہے۔
واضح رہے کہ اترپردیش میں نیشنل پاپولیشن رجسٹر کے کام کو تین مرحلوں میں پورا کیا جانا تھا جس کے پہلے  مرحلے کا  کام اپریل میں یعنی پچھلے مہینے شروع ہوا تھا اور دوسرا مرحلہ ستمبر میں شروع کیا جانا تھا۔حالیہ پیش رفت سے اس زمرے کی تمام تر کارگزایاں فی الحال التوا میں پڑ گئی ہیں۔
معروف عالم دین مولانا علی حسین قمی کہتے ہیں کہ سی اے بی سے سی اے اے کا سفر اور پھر این پی آر کا عمل اس ملک کے پسماندہ غریب، پریشان حال لوگوں اور ملک میں رہنے والی تمام اقلیتوں کے لئے عذابِ جاں ہے لہٰذا اس پر روک لگنے کا عمل غریبوں کے لئے راحت و سکون کا باعث ہے۔ لکھنئو کے گھنٹہ گھر پر سی اے اے اور این پی آر کی مخالفت میں شب و روز ایک کرنے والی سمیہ رانا اور شبیہ فاطمہ کے مطابق بھلے ہی یہ فیصلہ کورونا وائرس کے سبب لیا گیا ہو لیکن یہ ان سبھی لوگوں کے لئے اطمینان کا باعث ہے جو حکومت کے اس منصوبے اور عمل کے پیچھے کی سازشوں کو سمجھ کر ملک کے آئین و دستور اور جمہوریت کے تحفظ کے لئے کمر بستہ ہیں۔ خوشی اس بات کی ہے کہ ہم نے بھی اپنے  دھرنے اور مظاہر ے کورونا کی وجہ سے ہی ملتوی کئے تھے اور حکومت کو بھی اب ایک نادیدہ وائرس کی وجہ سے مجبور ہونا پڑا ہے۔
معروف سماجی و سیاسی رہنما سید بلال نورانی کہتے ہیں کہ جس وقت ہزاروں انسان بحالت مجبوری ملک کے آئینی دستوری اور جمہوری نظام کو بچانے کے لئے آواز بلند کررہے تھے، ہزاروں خواتین سڑکوں پر نکلنے کے لئے مجبور ہوئی تھیں تو حکومت انہیں نظر انداز کر رہی تھی اور آج ایک نظر نہ آنے والے وائرس کے سبب اسے روکنے پر مجبور ہوگئی ہے۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ اگر کورونا مہلک و نقصان دہ ہے تو کہیں نہ کہیں مفید بھی ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بنگال سمیت کئی ریاستوں نے این پی آر کو پہلے ہی نافذ نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا اور ممتا بنرجی سمیت کئی بڑے اور اہم لیڈروں نے این پی آر اور سی اے اے کے خلاف باقاعدہ تحریک شروع کرکے اسے مرکزی حکومت کے خلاف جنگ کا آلہء کار بنا لیا تھا۔