Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, May 16, 2020

کیا ‏آپ ‏زکوۃٰة ‏ادا ‏کرتے ‏ہیں ‏؟


از / اختر سلطان اصلاحی /صداٸے وقت 
========= ====================
کل ہماری ملاقات اپنے دیرینہ رفیق رغیب صاحب سے ہوئی. کہنے لگے:
"یار پورے رمضان مہینے میں بڑی پریشانی رہتی ہے. صبح سے شام تک صدقہ زکوۃ مانگنے والوں کا ایک سلسلہ جاری رہتا ہے.
میں نے تو دو تین روز سے بالکل دینا ہی بند کر دیا ہے، مجھے لگتا ہے کہ میں نے اب تک لاکھوں روپے دے دیے ہوں گے.،،
رغیب صاحب سانس لینے کے لیے رکے تو ہم نے جلدی سے ایک سوال کر دیا
اس سال آپ کے مال پر کتنی زکوۃ بنی تھی؟
کہنے لگے:
اس کا تو صحیح اندازہ نہیں ہے، کون جاے حساب کتاب کے کھکیڑ میں پڑنے، ویسے ہم بہت دیتے ہیں. جتنی بنتی ہوگی اس سے بھی زیادہ.،،
ہماری اکثریت کا زکوٰۃ کے تعلق سے یہی عمومی رویہ ہے. بغیر حساب کتاب  کیے جتنا سمجھ میں آتا ہے بغیر کسی منصوبے اور پلان کے ان کو ان کو زکوۃ دیتے رہتے ہیں.
حالانکہ اس طرح زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی. ذرا سوچیے زکوۃ بھی نماز کی طرح ایک فریضہ ہے. کیا بغیر وقت ہوے جیسے تیسے کم زیادہ رکعتیں پڑھ لینے سے ہماری نماز ادا ہوتی ہے؟
ظاہر ہے جواب یہی ہوگا، نہیں
مگر افسوس کہ مسلمانوں کی اکثریت زکوٰۃ کے تعلق سے لاپرواہ ہے. ایک بڑی تعداد تو زکوٰۃ ہی نہیں دیتی. جو لوگ دیتے ہیں ان میں بڑی تعداد اپنی مرضی سے بغیر حساب کتاب کچھ بھی کم زیادہ  دے دیتی ہے.
محترم بھائیو! 
زکوٰۃ اسلام کا اہم رُکن ہے اور نماز کے بعد زکوٰۃ ہی کا درجہ ہے۔ قرآنِ کریم میں ایمان کے بعد نماز اور اس کے ساتھ ہی جا بجا زکوٰۃ کا ذکر کیا گیاہے۔ زکوٰۃ کے لغوی معنی پاک ہونا، بڑھنا اور نشوونما پانا کے ہیں۔ یہ مالی عبادت ہے۔ یہ محض ناداروں کی کفالت اور دولت کی تقسیم کا ایک موزوں ترین عمل ہی نہیں بلکہ ایسی عبادت ہے جو قلب او ررُوح کا میل کچیل بھی صاف کرتی ہے۔ انسان کو اللہ کا مخلص بندہ بناتی ہے
قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ کلمہ شہادت ادا کرنے کے بعد اسلام پر قائم رہنے کی دو خاص علامتیں ہیں
نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ دینا. کوئی شخص جب تک ان دونوں کا اہتمام نہیں کرتا اس کا مسلمان ہونا معتبر نہیں ہے
. زکوٰۃ کا اجر بھی بے شمار ہے.
ارشادِ باری تعالیٰ ہے اِنْ تُقْرِ ضُوااﷲَ قَرْضاً حَسَناً یُضَاعِفْہُ لَکُمْ وَ یَغْفِر لَکُمْ (سورئہ التغابن 17)
 ترجمہ!اگر تم اللہ کو قرض حسن دو تو وہ تمہیں کئی گنا بڑھا کر دے گا اور تمہارے گناہوں کو معاف کرے گا ۔
 اس کے مقابلے میں جو لوگ زکوٰۃ ادا نہیں کرتے اُن کے لئے اللہ کاارشاد ہے وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ اْلذَّھَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلَا یُنْفِقُو نَہَا فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ فَبَشِّرْ ہُمْ بِعَذَاْبٍ اَلِیْمٍ ط (سورئہ توبہ 34)۔ ترجمہ! جو لوگ جمع رکھتے ہیں سونا اور چاندی اور اس کو خرچ نہیں کرتے اللہ کی راہ میں سو اُن کو دردناک عذاب کی خوش خبری سنا دیجیے. ۔ان آیات کی رُو سے زکوٰۃ کی ادائیگی ایک مسلمان کے لئے آخرت کی نعمتوں کے حصول اور عذابِ جہنم سے نجات کا ذریعہ ہے جس سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں ہو سکتی۔زکوٰۃ کی اہمیت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں جب کچھ لوگوں نے زکوٰۃ ادا کرنے سے انکار کیا تو انھوں نے ان کے خلاف باقاعدہ جنگ کی. 
زکوٰۃ دینے سے دل سے مال کی محبت کم ہوتی ہے، مال کی حرص کم ہوتی ہے، زکوٰۃ بخل کا بہترین علاج ہے اس سے خود غرضی ختم ہوتی ہے. زکوٰۃ کا بنیادی مقصد نفس کا تزکیہ اور اس کی صفائی ہے. قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہے. "ان کے مال میں سے صدقہ لو جس کے ذریعہ انھیں پاک کرو اور ان کا تزکیہ کرو. 
زکوٰۃ کے سلسلے میں قابل توجہ امور
زکوہ ہر صاحب نصاب خوش حال مسلمان پر فرض ہے. اگر اس کے پاس بقدر نصاب مال سال بھر تک موجود رہے تو سال پورا ہونے پر اس کی زکوٰۃ ادا کرے. جو شخص زکوٰۃ ادا نہیں کرے وہ فاسق، فاجر اور سخت گنہ گار ہوگا.
سال پورا ہونے پر اپنے مال کا پورا حساب کیا جاے اور درست اندازہ کر کے زکوٰۃ نکالی جاے.بغیر حساب کتاب کیے زکوٰۃ ادا کرنے سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی.
زکوٰۃ کے کچھ مصارف ہیں. زکوٰۃ انھیں مصارف میں دینی چاہیے بغیر تحقیق کے کہیں بھی زکوٰۃ دینے سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی. قرآن کریم کی سورۃ التوبہ آیت نمبر 60 میں اللہ نے زکوٰۃ کے مصارف بتا دیے ہیں.
زکوٰۃ انفرادی طور سے بھی ادا ہوجاتی ہے مگر بہتر یہ ہے کہ مسلم بستیوں میں زکوٰۃ کا اجتماعی نظم ہو جس طرح ہم اپنی نماز کے لیے مسجد اور امام کا نظم کرتے ہیں اسی طرح زکوٰۃ کے لیے بھی بیت المال قائم کریں. پوری بستی کی زکوٰۃ جمع کر کے مستحقین تک پہنچائیں. اگر ایسا نہ کیا گیا تو یہ ایک اجتماعی غلطی ہوگی. اور نظم زکوٰۃ کا کماحقہ فائدہ نہ ہوگا.
زکوٰۃ کی صحیح ادائیگی کی فکر ضروری ہے. خلافت راشدہ کے زمانے میں زکوۃ کی صحیح ادائیگی اور  تقسیم کی برکت سے دنیا نے دیکھا کہ
غربت ختم ہوگئی اور اس قدر خوشحالی آئی کہ کوئی زکوٰۃ لینے والا نہ ملتا تھا