Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, May 26, 2020

معروف ‏شاعر ‏و ‏نغمہ ‏نگار ‏مجروح ‏سلطان ‏پوری ‏کے ‏یوم ‏وفات ‏مورخہ ‏24 ‏مٸی ‏کے ‏ضمن ‏میں۔


*برِصغیر کے ممتاز ترین ترقی پسند شاعر،غزل کے کلاسیکی اور روایتی لہجے کے معروف، غزل گو، ممتاز فلم نغمہ نگار اور اردو غزل کا البیلا شاعر ” مجروحؔ سلطان پوری صاحب “ کا یومِ وفات...*
از/پیشکش / اعجاز ذیڈ ایچ /صداٸے وقت۔
==============================
اردو کے ممتاز ترقی پسند شاعر *مجروحؔ سلطان پوری* کا اصل  نام *اسرار الحسن خاں* تھا ۔ *مجروحؔ* تخلص کرتے تھے ۔ *مجروحؔ ، یکم اکتوبر ١٩١٩ء* کو *اترپردیش کے ضلع سلطان پور میں قصبہ کجہڑی* میں پیدا ہوئے۔ *مجروحؔ* کے والد سرکاری ملازم تھے ۔ مجروح اپنے والدین کی اکیلی اولاد تھے اس لئے خاصے لاڈ پیار سے پالے گئے ۔ مجروح کے والد خلافت تحریک سے بہت متاثر تھے ۔ اس لئے انہوں نے انگریز اور انگریزی زبان کی دشمنی میں طے کیا کہ وہ اپنے بیٹے کو انگریزی نہیں پڑھائیں گے ۔ چناچہ انہیں ایک مقامی مکتب میں داخل کیا گیا جہاں انہوں نے عربی فارسی اور اردو پڑھی ۔ درس نظامی کی تعلیم بیچ میں چھوڑ کر مجروح نے لکھنؤ کے طبیہ کالج میں داخلہ لے لیا ۔ ۱۹۳۸ میں کالج سے سند حاصل کرنے کے بعد مجروح فیض آباد کے قصبہ ٹانڈہ چلے گئے اور وہاں انہوں نے اپنا مطب قائم کرلیا ۔ یہاں مجروح کو ایک خوبصورت لڑکی سے عشق ہوگیا تھا اور یہی عشق ٹانڈہ سے مجروح کی واپسی کی سبب بنا،  وہ لوٹ کر سلطان پور چلے آئے ۔ اس عشق کے زخموں نے مجروح کی شاعرانہ طبیعت میں اور اچھال پیدا کر دیا ۔ مجروح شاعری تو پہلے ہی شروع کر چکے تھے لیکن اب باقاعدہ شعر کہنے لگے اور مشاعروں میں جانے لگے ۔ مشاعروں میں بڑھتی ہوئی مقبولیت کو دیکھ کر مجروح نے شاعری اور مشاعروں ہی کو اپنا ذریعۂ روزگار بنا لیا ۔ ان دنوں میں *مجروحؔ* کو *جگرمرادآبادی* اور *رشید احمد صدیقی* سے شرف نیاز حاصل رہا اور انہیں کے مشورے سے مجروح نے اردو کی کلاسیکی شاعری کا خوب مطالعہ کیا ۔ 
۱۹۴۵ء میں مجروح *جگرمرادآبادی* کے ساتھ ممبئی میں مشاعرہ پڑھنے گئے ۔ مشاعرے میں جب مجروح نے اپنا کلام سنایا تو فلم ڈاٗریکٹر *کاردار* *مجروحؔ*  کی شاعری سے بہت متاثر ہوئے ۔ ان دنوں کاردار *’’ شاہجہاں‘‘* کےنام سے ایک فلم بنارہے تھے ۔ *نوشاد* میوزک ڈائریکٹر تھے ۔ کاردار نے مجروح کو پانچ ہزار روپئے مہینے کی ملازمت کی پیشکش کی ، مجروح نے فورا منظور کرلیا ۔ انہوں نے شاہجہاں فلم کے گانے لکھے ، نوشاد نے موسیقی دی ۔ مجروح کے یہ گانے بہت مقبول ہوئے ۔ اس کے بعد مجروح ممبئی ہی میں مقیم ہوگئے اور فلموں کیلئے گانے لکھتے رہے ۔ مجروح نے اپنی فلمی زندگی کے پچپن برسوں میں تقریبا ساڑھے تین سو گانے اردو میں لکھے اور تین بھوجپوری میں ۔ مجروح کے لکھے ہوئے نغموں کا جادو سر چڑھ کر بولا ، یہ گانے آج بھی اسی دلچسپی کے ساتھ سنے جاتے ہیں ۔ 
مجروح ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے اور اس کے سرگرم رکن تھے مزدوروں کے حق میں شعر کہنے کے جرم میں انہیں گرفتار بھی کیا گیا ، وہ ایک سال تک جیل میں رہے ۔ 
مجروح کی ایک اہم خاصیت یہ ہے کہ فلمی دنیا اور ترقی پسند تحریک سے سرگرم وابستگی ان کے تخلیقی وجود کو اپنے اشاروں پر نہ چلا سکی ۔ انہوں نے غزل کی صنف میں شاعری کی جس کے بعض ترقی پسند سخت مخالف تھے کہ اس میں صرف حسن و عشق کی باتیں ہوتی ہیں ۔ اور ساتھ ہی انہوں نے غزل کے کلاسیکی اور روایتی لہجے کو برقرار رکھ کر اس میں نئے امکانات تلاش کئے ۔ اپنی ان خصوصیات کی بنا پر مجروح تمام ترقی پسند شاعروں میں بہت نمایاں ہیں ۔
اردو غزل کا البیلا شاعر *٢٤؍مئی ٢٠٠٠ء* کو اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔

ممتاز نغمہ نگار مجروحؔ سلطان پوری صاحب کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت...

آ ہی جائے گی  سحرِ مطلعِ امکاں تو کھلا 
نہ سہی بابِ قفس روزنِ زنداں تو کھلا
---
اب سوچتے ہیں لائیں گے تجھ سا کہاں سے ہم
اٹھنے کو اٹھ تو آئے ترے آستاں سے ہم
---
اشکوں میں رنگ و بوئے چمن دور تک ملے
جس دم اسیر ہو کے چلے گلستاں سے ہم
---
بڑھائی مے جو محبت سے آج ساقی نے
یہ کانپے ہاتھ کہ ساغر بھی ہم اٹھا نہ سکے
---
*ہم ہیں کعبہ ہم ہیں بت خانہ ہمیں ہیں کائنات*
*ہو سکے تو خود کو بھی اک بار سجدا کیجیے*
---
کوئی ہم دم نہ رہا کوئی سہارا نہ رہا
ہم کسی کے نہ رہے کوئی ہمارا نہ رہا
---
*میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر*
*لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا*
---
غمِ حیات نے آوارہ کر دیا ورنہ 
تھی آرزو کہ ترے در پہ صبح و شام کریں
---
مجروحؔ قافلے کی مرے داستاں یہ ہے 
رہبر نے مل کے لوٹ لیا راہزن کے ساتھ
---
مجھے یہ فکر سب کی پیاس اپنی پیاس ہے ساقی
تجھے یہ ضد کہ خالی ہے مرا پیمانہ برسوں سے
---
جلا کے مشعل جاں ہم جنوں صفات چلے 
جو گھر کو آگ لگائے ہمارے ساتھ چلے
---
شبِ انتظار کی کشمکش میں نہ پوچھ کیسے سحر ہوئی
کبھی اک چراغ جلا دیا کبھی اک چراغ بجھا دیا
---
*زباں ہماری نہ سمجھا یہاں کوئی مجروحؔ*
*ہم اجنبی کی طرح اپنے ہی وطن میں رہے*
---
جفا کے ذکر پہ تم کیوں سنبھل کے بیٹھ گئے 
تمہاری بات نہیں بات ہے زمانے کی
---
ترے سوا بھی کہیں تھی پناہ بھول گئے
نکل کے ہم تری محفل سے راہ بھول گئے
---
دیکھ زنداں سے پرے رنگ چمن جوش بہار 
رقص کرنا ہے تو پھر پاؤں کی زنجیر نہ دیکھ
---
دست پر خوں کو کف دستِ نگاراں سمجھے 
قتل گہہ تھی جسے ہم محفلِ یاراں سمجھے
---
ہٹ کے روئے یار سے تزئین عالم کر گئیں 
وہ نگاہیں جن کو اب تک رائیگاں سمجھا تھا میں
---
*مجروحؔ اٹھی ہے موجِ صبا آثار لیے طوفانوں کے* 
*ہر قطرۂ شبنم بن جائے اک جوئے رواں کچھ دور نہیں*
---
جب ہوا عرفاں تو غمِ آرام جاں بنتا گیا 
سوزِ جاناں دل میں سوزِ دیگراں بنتا گیا
---
ہم ہیں متاعِ کوچہ و بازار کی طرح 
اٹھتی ہے ہر نگاہ خریدار کی طرح
---
گو رات مری صبح کی محرم تو نہیں ہے 
سورج سے ترا رنگِ حنا کم تو نہیں ہے
---
مرے عہد میں نہیں ہے یہ نشانِ سربلندی 
یہ رنگے ہوئے عمامے یہ جھکی جھکی کلاہیں
---
ادائے طولِ سخن کیا وہ اختیار کرے 
جو عرضِ حال بہ طرزِ نگاہِ یار کرے
---
سکھائیں دستِ طلب کو ادائے بیباکی 
پیامِ زیرلبی کو صلائے عام کریں
---
مجروحؔ سنے کون تری تلخ نوائی 
گفتارِ عزیزاں شکرآمیز بہت ہے

                          *انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ*