Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, May 2, 2020

: 4 سال کی بچی کا درد سن کر بے چین ہو گئے ڈی ایم ڈاکٹر منان اختر، مدد کے لئے خود پہنچ گئے معصوم کے گھر

ڈی ایم نے بلڈ کینسر کی شکار چار سال کی بچی کی مدد کر کے انسانیت کی ایک انوکھی مثال پیش کی ہے۔

جالون ۔۔۔۔ارئی۔اتر پردیش /صداٸے وقت /ذراٸع / ٢ مٸی ٢٠٢٠۔
============================= 
ہر صبح ضلع میں ہو رہی ہر ہلچل کی کھوج خبر لینا ارئی کے ڈی ایم ڈاکٹر منان اختر  کی عادت میں شامل ہو چکا ہے۔ روز کی طرح 29 اپریل کی صبح بھی ڈاکٹر منان اپنے ماتحتوں سے ضلع میں کووڈ۔ 19 کو لے کر چل رہی سرگرمیوں کی خبر لینے میں ہی لگے تھے، تبھی ان کے موبائل سے میسیج آنے کی ایک آواز آتی ہے۔ چونکہ یہ میسیج ان کے سرکاری نمبر سے آیا تھا، لہذا ان کو اندازہ ہو گیا تھا کہ کسی ضرورت مند کو ان کی مدد کی ضرورت آ پڑی ہے۔ انہوں نے اپنا سارا ضروری کام بیچ میں روک کر اس میسیج کو پڑھنا شروع کر دیا۔ چند لفظوں کے اس میسیج میں لکھا تھا۔ ’ صاحب، میں شہر کے پٹیل نگر میں رہتا ہوں۔ میری چار سال کی بیٹی کو بلڈ کینسر ہے۔ سی بی سی کا ٹیسٹ ہونا ضروری ہے۔ پلیز، مدد کیجئے‘۔
اس میسیج کو پڑھنے کے بعد ڈاکٹر منان کچھ لمحوں کے لئے خاموش ہو جاتے ہیں۔ ذہن میں بار بار ایک ہی بات دستک دیتی ہے ’ میری چار سال کی بیٹی کو بلڈ کینسر ہے‘۔ چونکہ وہ خود ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں، لہذا انہیں اس بچی کی حالت کا بخوبی احساس ہو رہا تھا۔ وہیں، ضلع مجسٹریٹ ہونے کے ناطے ان کی پہلی ذمہ داری اس بچی کو ہر ممکن مدد پہنچانے کی بنتی تھی۔ اسی غور وفکر کے درمیان وہ اپنا موبائل اٹھاتے ہیں اور جس نمبر سے میسیج آیا تھا، اسی نمبر پر کال بیک کر دیتے ہیں۔ فون اٹھتے ہی وہ اپنا تعارف دیتے ہیں۔ کچھ لمحہ خاموشی سے دوسری طرف سے آ رہی آواز کو سننے کے بعد وہ کہتے ہیں کہ میں آپ کے لئے گاڑی کا انتظام کر دیتا ہوں۔ آپ بچی کو ضلع اسپتال لے جا کر ٹیسٹ کرا سکتے ہیں۔
ڈی ایم ڈاکٹر منان اختر کی اس پیشکش کے بعد ادھر سے بچی کے باپ کی آواز آتی ہے۔ ’ میری بچی کو لیوکیمیا ہے جس کی وجہ سے اس کی قوت مدافعت بہت کم ہو چکی ہے، لہذا ڈاکٹر نے اسے اسپتال جانے سے منع کیا ہے‘۔ ایسے میں ڈاکٹر منان کے سامنے ایک عجیب سی الجھن پیدا ہو جاتی ہے۔ چونکہ ضلع اسپتال میں سارے کووڈ۔ انیس مریضوں کی اسکریننگ چل رہی ہے لہذا وہاں سے کسی کو ایسے حالات میں بچی کے پاس بھیجا نہیں جا سکتا ہے۔ وہیں، لاک ڈاون کے پیش نظر شہر کے سارے ڈائیگنوسٹک سینٹر بند ہیں، ایسے میں بچی کی جانچ کیسے کرائی جائے۔ اس بیچ شہر کے اے ڈی ایم پشپیندر ان کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔ اے ڈی ایم پنکج کو دیکھتے ہی ڈاکٹر منان کے چہرے پر ایک مسکان آ جاتی ہے. وہ اے ڈی ایم پشپیندر سے کسی پرائیویٹ لیب ٹیکنیشین کو ساتھ لے کر گھر جانے کے لئے بولتے ہیں۔ لمبی قواعد کے بعد کانہا ڈائیگنوسٹک سینٹر کا لیب ٹیکنیشین ان کے ساتھ بچی کے گھر جانے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ پھر کیا تھا، اے ڈی ایم فورا لیب ٹیکنیشین کو لے کر بچی کے گھر پہنچتے ہیں اور اس کا بلڈ سیمپل لے کر ڈائیگنوسٹک سینٹر واپس آ جاتے ہیں۔ ادھر، آفس پہنچنے کے بعد اے ڈی ایم پشپیندر اپنے ڈی ایم ڈاکٹر منان کو بچی کی حالت کے بارے میں تفصیل سے بتاتے ہیں۔ منان اس بچی کو لے کر بیحد فکرمند ہو جاتے ہیں۔ وہ خود لیب پہنچ کر بچی کی رپورٹ لیتے ہیں، پھر اپنے ڈاکٹر دوستوں سے بچی کی رپورٹ کے بارے میں تبادلہ خیال کرتے ہیں اور آخر میں وہ رپورٹ لے کر خود بچی کے گھر کی طرف نکل پڑتے ہیں۔