Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, May 1, 2020

راٸٹ ‏آف ‏کے ‏نام ‏پر ‏بینکوں ‏کی ‏لوٹ۔۔۔۔۔ایک ‏تجزیہ۔



از / سراج الدین فلاحی/ صداٸے وقت /1 مٸی 2020.
==============================
گذشتہ مہینوں میں معاشی مسائل سے دلچسپی رکھنے والے حلقوں میں بینکوں کے رائٹ آف سے متعلق خبریں بہت افسوس اور دکھ کے ساتھ سنی جاتی رہی ہیں. ابھی دو تین روز قبل ایک افسوسناک خبر میڈیا میں شائع ہوئی کہ RBI نے 68607 کروڑ روپیہ کا لون جو درحقیقت عوام کا ہی پیسہ تھا بڑے بڑے صنعت کاروں کو دے کر رائٹ آف کر دیا۔ اب یہ رائٹ آف کیا ہوتا ہے؟ کیا یہ لون بالکل معاف کر دیا گیا ہے یا بعد میں ان کی وصولی ہوگی؟ اس سلسلے میں عوام کے اندر کافی کنفیوزن ہے۔ 

حال ہی میں RBI نے ساکیت گوکھلے جو کہ ایک آر ٹی آئی کارکن ہیں ان کی RTI کا جواب دیتے ہوئے بتلایا کہ سرکار کی اجازت پر صرف چند ماہ میں بینکوں نے 68607 کروڑ روپیہ کا لون رائٹ آف (Technically Write off)  کر دیا۔ یہاں لفظوں کا گورکھ دھندہ دیکھیے کہ لون معاف نہیں کیا گیا ہے بلکہ رائٹ آف کیا گیا ہے۔ آپ سمجھتے رہیے کہ اس کا کیا مطلب ہے۔ کئی سرکاریں آئیں گی اور چلی جائیں گی لیکن تکنیکی طور پر رائٹ آف کا مطلب پوری طرح نہ ہماری سمجھ میں آئے گا نہ آپ کی۔ دراصل معاشیات کے دھریندروں نے ایسی ایسی معاشی اصطلاحات مقرر کر رکھی ہیں، ایسے ایسے پیچیدہ پیمانے بنائے ہیں کہ ہم اور آپ جیسے عام انسان لفظوں کی ان بھول بھلیوں میں ایسے الجھتے ہیں کہ پوری زندگی سمجھ نہیں پاتے کہ یہ اصطلاحات کس چڑیا کا نام  ہے؟ جبکہ انہیں اصطلاحات کا سہارا لے کر سماج کا کریمی (اعلی') طبقہ اپنا کھیل کھیل رہا ہوتا ہے۔

رائٹ آف (Write off) کا مطلب آسان لفظوں میں یہ ہے کہ آپ نے ایک کمپنی کھولی اور بینکوں سے لون لیا۔ کسی وجہ سے آپ بینکوں سے لیے گیے لون کو چکا نہیں پا رہے ہیں تو بینک اسے بٹے کھاتے یعنی رائٹ آف کر دیتے ہیں۔ اس کا سیدھا مطلب یہ ہوا کہ اب اس لون کے واپس آنے کی امید تقریبا ختم ہو چکی ہے۔ آپ سوچ رہے ہیں کہ یہ تو بہت آسان طریقہ ہے کوئی بھی شخص بینکوں سے بڑے بڑے لون لے کر بینکوں کو چونا لگا سکتا ہے۔ جبکہ ایسا نہیں ہے، ہوتا یہ ہے کہ بڑے بڑے صنعت کار کمپنی کھولتے ہیں اور بینکوں سےکروڑوں روپیوں کا لون لیتے ہیں۔ اس لون کو وہ دوسری فرضی کمپنی (Shell Company) میں شفٹ کر دیتے ہیں اور لون کی EMI ادا نہیں کرتے۔ جب لون کی EMI نہیں آتی ہے تو بینک شکایت کرتے ہیں چنانچہ انتظامیہ حرکت میں آتی ہے تب کمپنی یہ کہہ دیتی ہے کہ ہمارا بزنس تو تباہ ہو گیا، ہم دیوالیہ ہو گئے ہیں لہذا اب ہم لون نہیں چکا سکیں گے۔ اب یہ معاملہ  National Company Law Tribunal (NCLT) میں چلا جاتا ہے اور وہاں کمپنی کی نیلامی ہو جاتی ہے۔ یہاں اس گورکھ دھندا والے کھیل پر دھیان دیجیے گا کہ نیلامی میں جو کمپنی کا خریدار ہوتا ہے وہ کمپنی کو خرید کر اسی کمپنی کے نام دوبارہ لون لے لیتا ہے. چنانچہ اس طرح ہیراپھیری کر کے اندر ہی اندر عوام کی بینکوں میں رکھی کمائی کو لوٹا جاتا ہے اور عوام کو خبر بھی نہیں ہو پاتی۔

آر ٹی آئی کے خلاصہ میں اچھی بات یہ ہے کہ اس میں ڈیفالٹروں کا نام بھی درج ہے۔ ڈیفالٹروں میں سب سے پہلا نام Mehul Choksi کا آتا ہے۔ یہ صاحب گجراتی ہیں انہوں نے بینکوں کو 5492 کروڑ روپیہ کا چونا لگایا ہے۔ یہ گیتانجلی جیمس لیمیٹڈ کے مالک ہیں انہیں کا بھتیجہ نیرو مودی ہے جو ہزاروں کروڑ روپیہ بینکوں سے قرض لے کر بھاگا ہے اور ابھی تک قانون کے شکنجے میں نہیں آیا ہے۔ دوسرے نمبر پر سندیپ جھنجھن والا ہیں۔ یہ FMCG کمپنی کے ڈائریکٹر ہیں۔ انہوں نے 14 بینکوں سے کل 4314 کروڑ روپیہ کا قرض لیا ہے جسے رائٹ آف کر دیا گیا ہے۔ تیسرے نمبر پر جتن مہتا کا نام آتا ہے۔ یہ وزیر آعظم کے سب سے قریبی صنعت کار گوتم اڈانی کے سمدھی ہیں۔ یہ ڈائمنڈ کی ایک کمپنی چلاتے ہیں انہوں نے 4076 کروڑ روپیہ کا چونا لگایا ہے۔ اسی طرح بابا رام دیو اور بال کرشنا گروپ کی انڈسٹری Suchi Soya لیمیٹڈ نے بھی 2212 کروڑ روپیہ کا قرض رائٹ آف کروا لیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ سب کے سب موجودہ سرکار کے قریبی لوگوں میں سے ہیں۔ ان کے علاوہ Zoom developer، وجے مالیا، ہریش مہتا وغیرہ وغیرہ پچاسوں کمپنیوں کی ایک لمبی لسٹ ہے جنہوں نے بڑے بڑے قرض لیے اور بغیر چکتا کئے نکل گیے۔

    سوال یہ ہے کہ اتنے بڑے بڑے صنعت کار جو کئی کئی ہزار کروڑ روپیے کا قرض بینکوں سے لے کر بھاگ گیے کیا RBI یا سرکار کو معلوم نہیں ہو سکا؟ ہم سب جانتے ہیں کہ ملک کے تمام کمرشیل بینکوں کی نگرانی سینٹرل بینک یعنی RBI کرتا ہے۔ RBI کے پاس ایک ڈیٹا بیس ہوتا ہے جسے Central Repository of Information on Large Credits (CRILC) کہتے ہیں۔ اس کے ذریعے RBI کو ان تمام لون کی جانکاری ہوتی ہے جو پانچ کروڑ یا اس سے زیادہ کے ہوں۔ یعنی جب بھی کوئی بینک کسی شخص یا کمپنی کو پانچ کروڑ روپیے یا اس سے زیادہ کا لون دیتا ہے تو یہ بات RBI کے علم میں آتی ہے اس لئے RBI ہزاروں کروڑ کے بڑے بڑے لون جو کارپوریٹ سیکٹر کو دیے گیے اس کی عدم جانکاری کا بہانہ بھی نہیں کر سکتا۔ آپ کے علم میں ہونا چاہیے کہ RBI کے ذریعے ظاہر کیا گیا یہ صرف دس فیصد ڈیفالٹروں کا نام ہے۔ جب سے موجودہ سرکار آئی ہے تقریبا سات لاکھ کروڑ روپیہ کا لون جو بڑے بڑے کارپوریٹ سیکٹر کو دیا گیا تھا رائٹ آف کر دیا گیا ہے. حالانکہ اس وقت بینکوں کا کل NPA دس لاکھ کروڑ سے تجاوز کر چکا ہے۔

قابل غور بات یہ ہے کہ جس طرح بینکوں کے ذریعے بڑے بڑے صنعت کاروں کو دیے گئے قرضوں کو رائٹ آف کرنے کا کھیل کھیلا جارہا ہے اس سے تو بینکوں کا منافع کم ہونے کا زبردست خدشہ ہے. منافع کم ہو گا تو بینک حکومت کو نفع نہیں دے سکیں گے۔ جب حکومت کو نفع نہیں ملے گا تو اس کے پاس ریونیو کہاں سے آئے گا؟ ظاہر ہے حکومت نئے نئے ٹیکس لگا کر ہماری اور آپ کی جیب کاٹنے کی کوشش کرے گی۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اگر اتنی بڑی بڑی رقوم رائٹ آف کی جائیں گی تو بینکوں کے کیپٹل ختم ہونے کا بھی سخت ترین اندیشہ  ہے۔کیپٹل کے ختم ہونے کے سبب بینکوں میں رکھے ہمارے پیسوں کے ڈوبنے کا خطرہ ہر وقت منڈلاتا رہتا ہے۔  ہم سب جاتنے ہیں کہ جب بینک ڈوبیں گے تو اس کا خمیازہ ہم اور آپ جیسے کھاتہ داروں کو ہی جھیلنا پڑے گا۔ ایک اہم بات اور دھیان دینے کی ہے کہ جب سے موجودہ سرکار آئی ہے حالیہ رپورٹوں کے مطابق انڈیا میں بینکوں کے ذریعے دیے گیے ہزاروں اور لاکھوں کروڑ کے لون میں 86 فیصد امبانی اور اڈانی جیسے بڑے کارپوریٹس کو دیا گیا ہے لیکن اس پر سرکار کے ذریعے خاموشی برتی جاتی ہےاور فقط 14 فیصد لون غریب کسانوں اور چھوٹے کاروباریوں کو دیا گیا ہے لیکن اس کا خوب پرچار کیا جاتا ہے اور واویلا مچایا جاتا ہے۔ ان صورت حال میں آپ میڈیا کے کردار پر غور کیجیے کہ اس  کا کردار کس شرمناک حد تک گرا ہوا ہے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے ملک کا میڈیا بالکل خاموش ہے۔ ذرا تصور کیجیے کہ اس سرکار کے علاوہ کوئی دوسری سرکار ہوتی تو کیا یہ میڈیا اس طرح خاموش رہتا؟

اس دور میں ہر شخص اپنے تھوڑے بہت پیسے برے دنوں کے لیے اپنی کمائی سے بچا کر رکھتا ہے تاکہ لاک ڈاؤن جیسی ناگہانی آفت کے وقت کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے۔ یہ سوچ کر کہ اس کے پیسوں کے لیے سب سے محفوظ جگہ بینک ہے وہ اپنے پیسوں کو بینک میں جمع کرتا ہے۔ بینکوں کا حال یہ ہے کہ اس میں لوٹ مچی ہوئی ہے۔یعنی عوام کی گاڑھی کمائی کی حفاظت کا کوئی مضبوط اور مستحکم فناشیل سسٹم ہمارے بینکوں کے پاس نہیں ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ جو بڑے بڑے صنعت کار کو دیے گیے لون ہیں بینک انہیں تو رائٹ آف کر رہے ہیں اور بینکوں میں جو عوام کی محنت کی کمائی ہے اس کی حفاظت کا کوئی مستحکم نظم بینکوں کے پاس نہیں ہے۔ بینکوں میں تو لوگ اپنا پیسہ اس لیے رکھتے ہیں تاکہ چوری سے بچا سکیں لیکن آج کل تو بینک سے ہی پیسے چوری ہو رہے ہیں۔ چنانچہ اس پورے معاملے پر یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ہمارے بینکنگ سسٹم ہی کے ذریعے ہمارے پیسوں کی لوٹ چل رہی ہے یا یوں کہ لیجیے کہ حکومت ہمارے پیسوں کو صنعت کاروں اور کارپوریٹس پر لٹا رہی ہے۔ یاد رہے اگر یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہا اور حکومت مختلف منصوبوں اور بہانوں کے تحت بینکوں سے کروڑوں، اربوں روپیہ کی رقوم  بڑے بڑے صنعت کاروں کو سیاسی مفادات کے لئے دے کر رائٹ آف کرتی رہی تویہ صورت حال ایک بڑی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے جس کے سبب معیشت پر زبردست منفی اثرات مرتب ہوں گے اور انارکی ایک عام بات ہو جائے گی۔