Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, May 23, 2020

کچھ ایسے بھی منظر ہیں ، تاریخ کی نظروں میں۔۔۔۔۔۔۔

تاریخ کے اوراق سے۔۔۔۔۔🖋️📖
از/اعجاز احمد اعجازی/صداٸے وقت
===================================

*جب ترک ناداں(مصطفی کمال أتاترک) نے خلافت کی قبا چاک کردی تو آلِ عثمان كو* راتوں رات گھریلو لباس ہی میں یورپ بھیج دیا گیا اور انھیں ذرا موقع تک نہیں دیا گیا جب کہ شاہی خاندان (ملکہ اور شہزادوں) نے التجا کی کہ یورپ کیوں؟ ہمیں اردن، مصر یا شام کسى عرب علاقے ہی ميں بھیج دیا جائے لیکن صہیونی آقاؤں کی تعلیمات واضح تھیں، اپنی آتشِ انتقام کو ٹھنڈا کرنا ان کو آخری درجے ذلیل کرنا مقصود تھا، چنانچہ کسی کو یونان میں یہودیوں کے مسکن سالونیک اور کسی کو یورپ روانہ کیا گیا،
*اور آخری عثمانی بادشاہ سلطان وحید الدین اور ان کی اہلیہ کو راتوں رات فرانس بھیج دیا گیا* اور ان کی تمام جائیدادیں ضبط کرلی گئیں یہاں تک کہ گھریلو لباس میں خالی جیب اس حال میں انھیں رخصت کیا گیا کہ ایک پائی تک ان کے پاس نہ تھی، کہا جاتا ہے کہ سلطان وحید الدین کے شہزادے منہ چھپا کر پیرس کی گلیوں میں کاسۂ گدائی لیے پھرتے تھے کہ کوئی اُنہیں پہچان نہ پائے، پھر جب سلطان کی وفات ہوئی تو کلیسا ان کی میت کو کسی کے حوالے کرنے پر آمادہ نہ ہوا کیونکہ دکانداروں کا قرض ان پر چڑھا ہوا تھا، بالآخر مسلمانوں نے چندہ کرکے سلطان کا قرض ادا کیا اور ان کی میت کو شام روانہ کیا اور وہاں وہ سپرد خاک ہوئے۔

*بیس سال بعد* جنہوں نے سب سے پہلے ان کے بارے میں دریافت کیا اور ان کی خبرگیری کی وہ تركى كے پہلے منتخب وزیر اعظم عدنان مندریس تھے، شاہی خاندان کی تلاش کے لیے وہ فرانس گئے اور وہاں جاکر ان کے احوال وکوائف انہوں نے معلوم کیے، پیرس کے سفر ميں وہ کہتے تھے کہ مجھے میرے آباء کا پتہ بتاؤ مجھے میری ماؤں سے ملاؤ،  بالآخر وہ پیرس کے ایک چھوٹے سے گاؤں پہنچ کر ایک کارخانے میں داخل ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ سلطان عبد الحمید کی زوجہ پچاسی سالہ ملکہ شفیقہ اور ان کی بیٹی ساٹھ سالہ شہزادی عائشہ ایک کارخانے میں نہایت معمولی اجرت پر برتن مانجھ رہی ہیں، یہ دیکھ کر مندریس اپنے آنسو روک نہ سکے اور زار و قطار رو پڑے، پھر ان کا ہاتھ چوم کر کہنے لگے " مجھے معاف کیجئے مجھے معاف کیجئے...
  *شہزادی عائشہ نے پوچھا :* آپ کون ہیں؟
 کہا: میں ترک وزیر اعظم عدنان مندریس ہوں، اتنا سننا تھا کہ وہ بول اٹھیں " اب تک کہاں تھے؟ بہت دیر کی مہرباں آتے آتے، اور خوشی کے مارے بے ہوش ہوکر گر پڑیں"
 *عدنان مندریس* جب انقرہ واپس گئے تو انہوں نے جلال بیار سے کہا کہ ميں آل عثمان کے لیے معافی نامہ جاری کرنا چاہتا ہوں، اور اپنی ماؤں کو واپس لانا چاہتا ہوں، بیار نے شروع میں تو اعتراض کیا، مگر  مندریس کے مسلسل اصرار پر صرف عورتوں کو واپس لانے کی تائید کی، پھر عدنان مندریس خود فرانس گئے اور ملکہ شفیقہ اور شہزادی عائشہ دونوں کو فرانس سے ترکی لے آئے، مگر شہزادوں کے لیے معافی نامہ جاری کرکے ان کو اپنے وطن عزیز ترکی لانے کا سہرا مرحوم اربکان کے سر جاتا ہے جب وہ وزیر اعظم کے منصب پر فائز تھے۔
*پھر جب مندریس* پر جھوٹا مقدمہ چلا کر ان کو تختۂ دار پر لٹکایا گیا تو منجملہ الزامات کے ایک الزام یہ تھا کہ انھوں نے حکومت کے خزانے سے چوری کرکے سلطان کی اہلیہ اور بیٹی پر خرچ کیا ہے، اس لیے کہ وہ ہر عید کے موقع پر ملکہ اور شہزادی سے ملاقات کے لیے جاتے، ان کے ہاتھ چومتے، اور اپنی جیب خاص اور اپنے ذاتی صرفے سے ۱۰ ہزار لیرہ سالانہ شہزادی عائشہ اور ملکہ شفیقہ کی خدمت میں پیش کرتے تھے۔
جب ۱۷ ستمبر ۱۹٦١ کو عدنان مندریس شہید ہوئے تو دوسرے ہی دن دونوں (ملکہ اور شہزادی) کی بھی بحالتِ سجود وفات ہوئی۔

یہ سلوک ہے نام نہاد جمہوریت پسندوں اور سیکولرزم کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں کا اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ، نہ کوئی مروت نہ شرافت، نہ صلہ رحمی، نہ قرابت داری، نہ اخلاق کا پاس نہ قدروں کا لحاظ! یہ جو قومیت اور وطنیت کا راگ الاپتے ہیں اور نعرے لگا لگا کر جن کی زبانیں نہیں تھکتیں ان کا مقصد بجز اس کے اور کیا ہے کہ اسلامی اخوت سے لوگوں کا رشتہ کاٹ دیا جائے اور اس مقدس رشتے کے تانے بانے کو بکھیر کر اس کو ایسے جاہلی رشتوں میں تبدیل کیا جائے جن میں احترامِ ذات مفقود ہے اور حرمتوں اور انسانی رشتوں کا کوئی پاس ولحاظ نہیں۔
رُوئے زمین پر موجود شیطان کے چیلوں سے کبھی بے خبر نہ رہنا! اور ہاں یہ قصّے بچوں کو سلانے کے لئے نہیں بلکہ سوتوں کو جگانے اور جواں مردوں کو کمربستہ کرنے کے لیے ہیں!

اٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی  انداز ہے
مشرق ومغرب میں تیرے دور کاآغاز ہے

✍️اعجازاحمداعجازی