Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, May 23, 2020

ارطغرل ‏غازی ‏کے ‏ورثإ ‏کا ‏حیدر ‏آباد ‏دکن ‏سے ‏کیا ‏ہے ‏خاص ‏رشتہ ‏؟؟؟ ‏ ‏پڑھیں ‏یہ ‏خاص ‏رپورٹ ‏۔


سلطنت عثمانیہ کے ابتدائی حالات پر مبنی ترکی کے سرکاری ادارہ ٹی آر ٹی (ترکش ریڈیو اینڈ ٹیلی وژن کارپوریشن ) کی تخلیق ، جسے ترکی میں Diriliş: Ertuğrul اور انگریزی میں "Resurrection: Ertuğrul" کا نام دیا گیا ہے ، اس ٹی وی سیریز کو دنیا بھر میں دلچسپی سے دیکھا جا رہا ہے ۔خاص کردار ارطغرل غازی کے ورثإ کا ہندوستان کے حیدر آباد سے کیا ہے خاص رشتہ۔

از /انیس الرحمان خان/نیوز 18 اردو۔
==============================
سلطنت عثمانیہ کے ابتدائی حالات پر مبنی ترکی کے سرکاری ادارہ ٹی آر ٹی (ترکش ریڈیو اینڈ ٹیلی وژن کارپوریشن  ) کی تخلیق ، جسے ترکی میں Diriliş: Ertuğrul اور انگریزی میں "Resurrection: Ertuğrul" کا نام دیا گیا ہے ، اس ٹی وی سیریز کو  دنیا بھر میں دلچسپی سے دیکھا جا رہا ہے  ۔خاص طور پر بر صغیر میں لاک ڈاؤن کے دوران سوشل میڈیا پر اس ٹیلی ویژن سیریز کے کافی چرچے ہو رہے ہیں ۔ اس سیریز کی کامیابی کے بعد ترکی خاص طور پر سلطنت عثمانیہ کے قیام ، اس کے عروج اور زوال اور اس کے خاتمہ کے بعد اس کے وارثین کے ساتھ پیش آنے والے حالات سے متعلق جاننے میں عوام کی دلچسپی میں اضافہ ہوا ہے ۔ ترکی کی سلطنت عثمانیہ نے 13 ویں صدی کے اواخر سے لے کر بیسویں صدی کے اوائل تک حکمرانی کی ۔ ان کے عروج کے دور میں مغربی ایشیاء ، جنوبی یوروپ اور شمالی افریقہ کا علاقہ سلطنت عثمانیہ میں شامل تھا ۔ تین بر اعظموں پر مشتمل سلطنت عثمانیہ کے سلطان کو  اپنے دور میں اس وقت کے مسلمانوں کا خلیفہ مانا جاتا تھا ۔
لیکن اٹھارویں صدی کے اواخر سے اس سلطنت کا زوال شروع ہوا اور پہلی جنگ عظیم کے بعد سال 1922 میں اس عظیم الشان سلطنت کا بالآخر خاتمہ ہوگیا ۔ مصطفی کمال کی زیر قیادت ترکی کی نئی انتظامیہ نے شاہی خاندان کو ملک بدر  ہونے پر مجبور کردیا ۔ نومبر 1922 میں سلطنت عثمانیہ کے آخری بادشاہ سلطان وحید الدین محمد چہارم نے ان کے خاندان کے افراد کے ساتھ استنبول میں اپنے شاہی محل سے تخلیہ کرتے ہوئے فرانس کے پایہ تخت فرانس میں پناہ لی ۔ حالانکہ اس کے بعد کچھ وقفہ تک سلطان محمد کے چچا زاد بھائی عبد المجید الثانی کو برائے نام بطور خلیفہ متعین کیا گیا ، لیکن تین مارچ 1924 کو سرکاری طور پر خلافت کے مکمل خاتمہ کا اعلان کردیا گیا ۔
سلطان عبد المجید الثانی کی دختر شہزادی در شہوار کی شادی حیدرآباد دکن کے آخری نظام میر عثمان علی خان کے بڑے فرزند نواب میر حمایت علی خان  اعظم جاہ بہادر سے فرانس کے شہر نیس میں 12 نومبر 1931 کو انجام پائی اور اس کے چند دن بعد 20 دسمبر 1931 کو میر عثمان علی خان کے دوسرے فرزند معظم جاہ بہادر کی شادی سلطان عبد المجید کی بھتیجی شہزادی نیلوفر سے ہوئی ۔ اس طرح دونوں شہزادیوں نے شادی کے بعد حیدرآباد کو اپنا گھر بنایا ۔ ریاست حیدرآباد کے خاندان آصفیہ سے خاندان عثمانیہ کے درمیان رشتہ داری کروانے میں علی برادرس مولانا شوکت علی اور  محمد علی جوہر  نے اہم رول ادا کیا تھا ۔ دونوں برادران نے میر عثمان علی خان کو اس بات پر بھی راضی کروایا تھا کہ وہ سلطان عبد المجید کیلئے تا حیات ہر ماہ تین سو پاونڈ وظیفہ مقرر کریں 
نواب میر اعظم جاہ اور شہزادی در شہوار  کو دو اولادیں میر برکت علی خان مکرم جاہ اور میر کرامت علی خان مفخم جاہ  ہویئں ۔ میر عثمان علی خان کو اپنے پوتے مکرم جاہ سے اتنی چاہت تھی کہ انہوں نے اپنے فرزند کی بجائے اپنے پوتے کو اپنا ولی عہد بنانے کا اعلان کیا تھا ۔ ہندوستان کی آزادی کے بعد ریاست حیدرآباد کو 1948 میں انڈین یونین میں ضم کرلیا گیا اور اس طرح ترکی کے خاندان عثمانیہ کے ایک نواسے حیدرآباد دکن کے فرمانروا بننے سے محروم رہ گئے ۔ 81 سالہ مکرم جاہ نے ہندوستان کی بجائے بیرون ممالک قیام کو ترجیح دی ۔ یوروپ اور آسٹریلیا میں کافی عرصہ گزارنے کے بعد فی الحال مکرم جاہ اپنی ننھیال یعنی ترکی میں ہی مقیم ہیں ۔ جبکہ ان کے بھائی معظم جاہ نے گو کہ لندن کو اپنا گھر بنایا ، لیکن حیدرآباد سے اپنا رشتہِ قائم رکھا ۔ وہ سال کے تین چار ماہ حیدرآباد میں گزارتے ہیں ۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آخری خلیفہ سلطان عبد المجید کی خواہش تھی کہ وہ اپنی آخری قیام گاہ یعنی مرنے کے بعد مدینہ منورہ میں دفن ہوں ۔ لیکن اس دور کے سیاسی حالات کے مد نظر انہیں یقین نہیں تھا کہ سعودی عرب کی حکومت اس کی اجازت دے گی ، اس لیے انہوں نے میر عثمان علی خان سے فرانس کی بجاۓ حیدرآباد دکن میں دفن ہونے کی خواہش کا اظہار کیا ۔ اس سلسلہ میں اس دور میں ان کی خواہش پر حیدرآباد اسٹیٹ میں شامل اورنگ آباد میں ایک مقبرہ کی تعمیر کا منصوبہ بھی بنایا گیا تھا ۔  لیکن 23 اگسٹ 1944 کو ان کی وفات کے بعد شاہ سعود کی ہدایت پر انہیں مدینہ منورہ میں دفن کیا گیا ۔

بشکریہ۔نیوز 18 اردو۔