Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, May 24, 2020

شیخ ‏الحدیث ‏حضرت ‏مفتی ‏سعید ‏احمد ‏پالنپوری ‏کی ‏درس ‏بخاری ‏کی ‏خصوصیات۔


از:مفتی اسراراحمدقاسمی ،سونرےمدھوبنی بہار/صداٸے وقت۔
==============================

پہلی قسط

۲۵؍رمضان المبارک ۱۴۴۱ھ مطابق۱۹؍مئی ۲۰۲کی صبح طلوع ہونے والاسورج اپنے ساتھ ایک نہایت ہی غم کی خبر لےکرطلوع ہوا،وہ خبریہ تھی کہ ام المدارس دارالعلوم دیوبند کے نیرتاباں حضرت مولاناومفتی سعیداحمدصاحب پالن پوری اس دنیاسے رخصت ہوگئے،اس خبرکے سنتے ہی مجھے اتناصدمہ ہواجتناکہ حقیقی والدکے دنیاسے جانے پرصدمہ ہوتاہے ،اوراس خبر نے عالم اسلام کو عموما بالخصوص حلقہ دیوبند کوجس طرح سوگوار چھوڑاہےاس کی کسک دیرتک اوردورتک محسوس کی جاتی رہےگی ،وجہ اس کی یہ ہے کہ حضرت الاستاذکی شخصیت ایک نابغئہ روزگار کی تھی، بہت سےعلم کےشیدائیوں کےلیےآفتاب وماہتاب تھے ،جن کی ضوفشانی سےایک جہان روشن تھا،اللہ جل وعلانےعلم حدیث کےاس خادم کواپنی خاص نعمتوں سےنوازاتھا،وہ بیک وقت ایک کامل مفسر،ایک عظیم محدث ،فقیہ وقت ،بہترین ادیب اورقلم کےسپاہی تھے ۔کم وبیش ۴۶؍کتابیں ان کے قلم سے منصئہ شہودپرآچکی ہیں ۔ان کے علاوہ ان کےاندرکمال استغناءزہدوقناعت صبرواستقامت اورعجیب ذہانت وفتانت تھی ۔خصوصاعلم حدیث سے حددرجہ کااشتغال تھا ۔جس کی بناپر آپ نے جوعلمی کارنامہ انجام دیئے اورتاحیات یہ سلسلہ جاری رہابلامبالغہ یہ کہاجاسکتاہے کہ قرون متاخرہ میں اس کی خال خال ہی مثالیں ملیںگی ۔
حضرت الاستاذکایوں توہردرس مقبول عام وخاص اورکندذہن طلبہ کےلیےبھی قریب الفہم ہواکرتاتھا،ْلیکن بخاری شریف کادرس اوربھی زیادہ اہم اورمقبول تھا،حضرت مفتی صاحب کےدرس کی مقبولیت کااندازہ اس سے لگایاجاسکتاہےکہ دوسرے اساتذہ کےسبق میں تقریباآدھی یا اس سےکچھ زیادہ درس گاہ خالی رہتی مگرمفتی صاحب کے درس میں سارے طلبہ حاضرہوجاتے بلکہ دیوبندکےدوسرےاداروں کےطلبہ بھی حضرت مفتی صاحب سے استفادہ کےلیےحاضرہوتےتھے۔خلاصہ یہ کہ آپ کادرس طلبہ کے مابین یکساں مقبول تھا۔اب میں حضرت اقدس کے درس بخاری کی چندخصوصیات وامتیازات کوتحریرکرتاہوں ،اس امیدکےساتھ کہ اہل علم اس سے استفادہ کریں گے۔
حضرت الاستاذ کایہ معمول تھاکہ بخاری شروع کرنےسےپہلےہفتہ عشرہ تک علم حدیث پرگفتگوفرماتے،اوراس کی وجہ یہ بیان فرماتے کہ جب طلبہ مشکوۃسےدورہ میں آتے ہیں توان کاعلمی مستوی فروترہوتاہے۔جب کہ دورہ میں دقیق ابحاث سےسابقہ پڑتاہے۔اس لیےحضرت رحمۃاللہ علیہ علم حدیث پرتفصیل سےگفتگوفرماتےتاکہ طلبہ کاذہنی معیاربلندہو۔اوروہ دورہ کی ابحاث سےکماحقہ فائدہ اٹھاسکیں ۔
علم حدیث پرگفتگومکمل کرنےکےبعدبچوں سےاسمائے حسنی ٰیادکراتےتھے،جس کاطریقہ یہ ہوتاکہ حضرت خودپانچ سات اسماءتین مرتبہ  پڑھاتےاورآپ کےساتھ سارےطلبہ پڑھتے،پھرساتھ ہی ابتداءادوتین حدیث کادرس بھی شروع فرماتے ،اسمائے حسنیٰ یادکرانےکاسلسلہ تقریبانصف ماہ جاری رہتا،اس طرح باسانی اسماءحسنی سارے طلبہ حفظ کرلیتے ۔اس کےبعد جب باضابطہ درس شروع ہوتاتوروزانہ سبق شروع کرنے سے پہلےایک حدیث یادکراتے ،اورفرماتے کہ حفظ کی ہوئی بات آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہےاس لیے آپ حضرات کو اب تک پانچ سوحدیثیں یاد ہونی چاہیئے تھیں ،گذشتہ سالوں میں آپ نے حدیث کی تین کتابیں پڑھی ہیں :مشکوۃ الآثار،الفیۃ الحدیث ،اورمشکوۃ المصابیح ،لیکن شایدہی کسی کوپانچ سوحدیثیں یادہوں ۔ مزیدحفظ احادیث کی تر غیب دیتے ہوئے فرماتے کہ سال پوراہوتے ہوتےہرطالب علم کوکم ازکم دوہزارحدیثیں یاد ہونی چاہئیں ۔
 حضرت الاستاذکےدرس کی سب سے بڑی اوراہم خصوصیت یہ تھی کہ پوراسال درس اس ترتیب سے ہوتا کہ سال پوراہونے کےساتھ ساتھ بخاری بھی درسابحسن وخوبی مکمل ہوجاتی ،جب کہ ملک کےدیگرمدارس کاحال بیان کرتے ہوئے فرماتےکہ ہمارےملک میں جن جن مدارس میں دورہ کی تعلیم ہوتی ہےسوائےدوچندمدارس کےکہیں بھی بخاری درسامکمل نہیں ہوتی ہے ۔بلکہ بعض جگہ توصرف منتخبات پڑھائےجاتے ہیں ،اوربعض جگہ روایتاپوری کی جاتی ہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں کے شیخ الحدیث سال کےشروع میںاتنی لمبی تقریرکرتےہیں کہ طوالت کی وجہ سے طلبہ کےلیےغیرمفیداورناقابل فہم ہوجاتی ہیں۔اورسال کےاخیرمیں جب کتاب کااکثرحصہ باقی رہ جاتاہےاورمکمل کراناضروری ہوتاہےتواتنی مختصرتقریرکرتےہیں کہ اختصارکی وجہ سےطلبہ کےکچھ پلےنہیں پڑتا۔اس کےبعدمزاح کےطورپرفرماتےکہ مجھےملک کےبڑےبڑےمدارس سے ختم بخاری کی دعوت آتی ہےلیکن علاوہ دوتین جگہوںکےمیں کہیں نہیں جاتاہوں ،اس لیےکہ کہیں بخاری پڑھائی ہی نہیں جاتی ہے۔ خلاصہ یہ کہ حضرت الاستاذکادرس اس دور کاممتازترین درس تھا۔