Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, May 25, 2020

کیا ‏آپ ‏نے ‏شر ‏سے ‏خیر ‏نکلتے ‏دیکھا ‏ہے ‏؟


از/ یاسر ندیم الواجدی/ صداٸے وقت /٢٥ مٸی ٢٠٢٠
==============================
بہت سے لوگ سوشل میڈیا پر عید کے تعلق سے مایوسی کے شکار نظر آئے۔ وہ لاک ڈاؤن کی سختیوں اور کورونا کے فطری یا مصنوعی قہر کی بنا پر یہ شکوہ کرتے نظر آئے کہ نہ رمضان کی رونقیں نصیب ہوئیں اور نہی عید کی وہ چہل پہل۔ عید کی نماز بھی ہوئی تو بند کمروں میں ہوئی یا چھپ کر ادا کی گئی۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگوں کو انفرادی سطح پر پریشانیوں کا سامنا رہا ہو، لیکن اس رمضان اور عید کے موقع پر شر سے خیر نکلتے ہوے ہر شخص مشاہدہ اور تجربہ کرسکتا ہے۔ تین طرح کی خیر جو شخص چاہے دیکھ لے: 
1- عید کے موقع پر بڑی جماعتیں قانونی مجبوریوں کی وجہ سے نہیں ہوئیں، لیکن اس موقع پر ایک عام آدمی نے بھی نماز پڑھانے کا طریقہ سیکھا ہے اور گھر کے افراد کے ساتھ مل کر جماعت کی ہے۔ لوگوں نے نماز پڑھانے کو ایک ذمے داری کی حیثیت سے لیا، ورنہ عوام میں یہ تصور تھا کہ نماز پڑھانے کے لیے کچھ ما فوق الادراک صلاحیتوں کی ضرورت ہے۔ غیر مسلموں کے سامنے یہ پیغام واضح طور سے چلاگیا کہ اسلام برہمنی یا پاپائی ذہنیت کو مسترد کرتا ہے، ایک عام آدمی بھی مصلے پر کھڑے ہوکر نماز پڑھا سکتا ہے، خواتین کو بھی جنہیں عام طور پر عید کی نماز کا موقع نہیں ملتا، اس بار جماعت میں شریک ہونے کا موقع ملا ہے۔ 

2- لاک ڈاؤن اور پھر رمضان کے موقع پر جس طرح مسلمانوں نے خدمت خلق انجام دی ہے اس نے دیگر اقوام میں ایک شاندار اثر چھوڑا ہے۔ گنگا جمنی اور چناں وچنیں تہذیب کو ایک طرف رکھیے، مسلمان صرف یہ سوچ کو بھوکوں کو کھانا کھلاتا رہا ہے کہ انسانیت نوازی اور محتاجوں کی داد رسی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کا اہم حصہ ہے۔ اس قوم نے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ سو روپے کماکر ایک سو دس روپے اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کا جذبہ رکھتی ہے۔ اس خاص رمضان نے جس میں گھر گھر قرآن کی کثرت سے تلاوت ہوئی قوم کو اس جذبے کے علی الاعلان اظہار کا ایک سنہرا موقع دیا ہے۔ چھوٹے چھوٹے شہروں میں چند نوجوانوں نے ملکر لاکھوں روپے کا کھانا اور غلہ تقسیم کیا ہے، سڑکوں پر ٹوپی لگاکر اپنی اسلامی شناخت کے مکمل اظہار کے ساتھ انھوں نے بھارت کے غریب مزدور کو موت کے منھ سے بچایا ہے۔ اس سے جہاں یہ ثابت ہوا کہ مسلمانوں کے جذبہ ترحم کا کوئی مقابلہ نہیں ہے، وہیں نوجوانوں کو کام کرنے کا ہنر آیا ہے، وہ اگر ایک کچن پابندی سے چلاسکتے ہیں، تو پھر چھوٹے بڑے ادارے بھی چلاسکتے ہیں، لوگ لمبی چوڑی رقمیں دے کر مینیجمینٹ کا کورس کرتے ہیں، ہمارے ان نوجوانوں کو اللہ نے اس وقت مینیجمینٹ کا بہترین ہنر سکھایا ہے، جب ساری دنیا کے تعلیمی ادارے بند ہیں۔ 

3- تیسرا اور اہم خیر کا پہلو یہ ہے مسلمانوں میں ملی بیداری بھی دیکھنے کو ملی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کہیں کچھ کم ظرفوں نے ایک غریب سبزی فروش کو اس کا مذہب پوچھ کر اپنے علاقے سے بھگا دیا ہو اور ویڈیو بناکر اپنی کم ظرفی، جہالت اور حیوانیت کا خود ہی ثبوت بھی فراہم کردیا ہو، لیکن اس سے نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانوں نے بہت سے علاقوں میں مسلم تاجروں، دوکانداروں اور کاروباریوں کا سپورٹ کرنا شروع کردیا۔ یہ کوئی منظم ردعمل نہیں تھا، بلکہ اظہار حمیت کا ایک فطری طریقہ تھا۔ پرچون کے چھوٹے چھوٹے مسلم دوکانداروں کے یہاں بہت سے علاقوں میں اللہ نے خوب برکت دی اور ان غریب سبزی فروشوں کو بھی اللہ نے بھوکا نہیں رکھا۔  

اس لیے اس مایوسی سے نکلیے، یہ رمضان بہت خیر وبرکت والا تھا۔  یہ عید بھی بہت برکتوں والی ہے، ابھی ان کی برکتیں ختم نہیں ہوئی ہیں، ابھی تو شروعات ہے۔ قوموں کی تربیت ایسے ہی حالات سے ہوتی ہے۔ جب تک مشکلوں کی چکی میں قوم کو نہ پیسا جائے تو گیہوں سے گھن کو الگ نہیں کیا جاسکتا۔ قدرت کی یہ چکی بڑی تیزی سے چل رہی ہے اور گھن اتنی ہی تیزی سے منظر نامے سے غائب ہورہا ہے، لہذا عید کی مبارکباد قبول کیجیے اور اللہ تعالیٰ سے سلامتی اور خیر کی دعا مانگتے رہیے۔