Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, May 10, 2020

ہندوستان ‏میں ‏مستقبل ‏کی ‏منصوبہ ‏بندی ‏کرنا ‏ضروری ‏ہے۔

از/ڈاکٹر سکندر علی اصلاحی /صداٸے وقت /١٠ مٸی ٢٠٢٠
==============================
مسلمانوں کا فریضہء منصبی دعوت دین یعنی امر بالمعروف اور نھی عن المنکر ہے ۔ ( قران کے طالب علم  ان اصطلاحات سے بخوبی واقف ہوں گے ۔تفصیل کے لیے مطالعہ کیجیے : دعوت دین اور اس کا طریقہ کار ۔ مولانا امین احسن اصلاحیؒ , مسلمان اور امامت کبری :مولانا صدرالدین اصلاحیؒ ۔ معروف و منکر : مولانا جلال الدین عمری )
سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطالعہ سے جو رہنمائی ملتی ہے وہ حسب ذیل ہے ۔( میں یہاں پر قصداََ قران کے بجاۓ سیرت لکھ رہاہوں ۔بعض لوگ صرف قران قران کی بات کرتے ہیں ,جس سے یہ مطلب اخذ کرلیا جاتا ہے کہ خدانخواستہ سنت یا احادیث سے ہم بے نیازی کی بات کررہے ہیں ۔حالانکہ وہ منشاء نہیں ہوتا ہے ۔ سیرت کے اندر قران شامل ہے اور قران کا لازمی جزء سیرت رسول ہے ۔ تفصیل کے لیے مطالعہ کیجیے : سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم ۔ علامہ شبلی نعمانیؒ و علامہ سید سلیمان ندویؒ , محمد عربی ص ۔مولانا عنایت اللہ اصلاحی سبحانی , محسن انسانیت ص ۔ مولانانعیم صدیقیؒ ودیگر۔۔۔۔) 
جب ہم دعوت دین کو پیش نظر رکھتے ہوۓ مطالعہ کرتے ہیں تو چند نمایاں خطوط واضح طور پر سامنے اتے ہیں جو ہمیشہ اور ہر عہد اور ہر سماج کے لیے ہیں ۔
1۔ فکر , تشکیل مزاج , ذہن سازی  : مسلمان اپنے اپ کو دعوت دین کے لیے امادہ کرے ۔ اپنا مقصد متعین کرے ۔ اول روز سے اپنی نسل کے کان میں یہ بات ڈالے کہ مسلمان کا مطلب : اسلام کا نمائندہ اور سفیر ۔ جب تڑپ ہوگی تو راستے نکلتے اور بنتے چلے جائیں گے ۔ ( غار حرا کا دور دراصل بار گراں کے لیے تشکیل ذہن کا دور ہے ۔)
2 ۔ علم : علم سے مراد اللہ کی معرفت , وہ علم جس کو اسلام کے بنیادی عقائد کہا گیا ہے ۔ توحید, آخرت, رسالت وغیرہ  (اس موضوع کو سمجھنے کے لیے مطالعہ کیجیے ۔ علم ۔ بنت الاسلامؒ ,  رسالہ دینیات ۔ مولانا مودودیؒ , اسلام ایک نظر میں ۔ مولانا صدرالدین اصلاحیؒ , حقیقت توحید و حقیقت شرک ۔ مولانا امین احسن اصلاحی ؒ ۔ حقیقت نفاق ۔مولانا صدرالدین اصلاحیؒ )
3 ۔ بے داغ جوانی , اعلی اخلاق و کردار ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبل نبوت اور بعد نبوت بے داغ زندگی رہی ہے ۔آپ سراپا اخلاق و کردار و انسانیت و محبت کا پیکر نظر آتے ہیں ۔ ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے تھے ؟ مولانا عرفان خلیلی ؒ ) دعوت دین کا کام کرنے کے لیے سچائی ,ایمانداری, نرم خوئی , انکساری, قوت برداشت , ایثار , کشادہ ظرفی اور فراخ دلی جیسی صفات کا پایا جانا ضروری ہے ۔ اور یہ صفات شعوری طور پر اپنے اندر پیدا کرنا ہوتی ہیں ۔ کوئی شخص یہ کہے کہ میرا تو مزاج ہی یہی ہے , کسی کو اچھا لگے یا برا , میں تو کھری کھری کہتا ہوں وغیرہ تو اس  طبیعت اور اس مزاج کا فرد دعوت کا کام نہیں کرسکتا ۔ یہاں تو ہر بات کو حکمت اور موعظہ حسنہ کے ورق میں رکھ کر پیش کرنا ہوگا ۔ اپنے خاندانی اور پیدائشی فطرت و عادت کو تربیت کرکرکے بدلنا ہوگا ۔
4 ۔  جس ملک اور قوم میں اپ کام کررہے ہیں اس کی تاریخ , اس کے عقائد ,رسم ورواج اور فکر ومزاج سے بخوبی واقفیت لازم ہے ۔ اس کے بغیر مؤثر نہیں ہوسکیں گے ۔ ( مطالعہ کیجیے ۔ تاریخ ہند , قدیم بھارت کی تاریخ , ہندو دھرم ایک مطالعہ , ہندوستانی مذاہب , ہندوستانی سماج , ورن ویووستھا ,  ہندو وں کے تیوہار , پوجا اور اس کی حقیقت وغیرہ ۔ ضروری تعارف کی حد تک تو ہر ایک کو واقف ہونا چاہیے ۔ لیکن چند ایسے مسلم افراد جو ریسرچ اور تحقیق سے وابستہ ہوں انہیں بڑی باریک بینی سے اس کی تیاری کرنی چاہیے ۔ )
5 ۔ خدمت خلق : دعوت دین کا جزء لا ینفک ہے ۔ اس کے بغیر بات نہیں بن سکتی ۔ لاکھ اپ کتابیں بانٹیے , قران کے ترجمے تقسیم کیجیے اور رپورٹ کیجیے کہ ہم نے پانچ لاکھ افراد کو قران دیا ۔مگر خدمت خلق کے بغیر سب ادھورا ہے ۔ ایک سو افراد اگر اسلام سے متأثر ہوں گے تو 95 افراد اپ کے اخلاق اور اپ کی خدمت سے متأثر ہوں گے ۔ پانچ شاید وہ ہوں گے جو کتابیں پڑھ کر قریب آئیں گے ۔کتابیں سوچنے پر امادہ کرتی ہیں , دماغ کو اپیل کرتی ہیں , ذہن کو ہموار کرنے میں مدد کرتی ہیں مگر اخلاق اور خدمت خلق ( کی مختلف شکلیں ) دل کو مسخر کرلیتی ہے ۔ جیسے عشق کی کوئی زبان نہیں ہوتی ۔ عشق خود زبان ہے ۔ اسی طرح خدمت خود زبان و پیغام ہے ۔ ( مطالعہ کیجیے ۔ تحریکی کاموں کا خاکہ ۔ نعیم صدیقی ؒ , ہم نے اسلام کیوں قبول کیا ۔ نو مسلموں کی کہانی خود ان کی زبانی ۔ وغیرہ )
6 ۔ زبان کا علم : جس علاقہ اور جس قوم میں دعوت کا کام کرنا ہو اس کی زبان Language سیکھنا اور مہارت حاصل کرنا لازم ہے ۔ ہر زبان کا ادب ہوتا ہے ۔ اور ادب میں جادو ہوتا ہے یعنی بہترین زبان , اس کے اسالیب , اس کی بلاغت دل ودماغ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے ۔ اگر کوئی بات اپ پیش کررہے ہیں اور مدعو فرد اس کے لفظ لفظ کی گہرائی سے واقف ہے تو وہ متأثر ہو ۓ بغیر نہیں رہ سکتا ۔ قران کا یہی کمال تھا کہ دشمن بھی چھپ چھپ کر سننے کو مجبور تھے ۔ اج وہ بات نہیں رہی ۔ لوگ قران کی عمدہ سے عمدہ تلاوت کرنا تو سیکھتے ہیں اور بڑے مقابلے ہوتے ہیں مگر عوام تو عوام علماء بھی قران کو سمجھتے نہیں ۔ منبر سے امام خطاب کرتے ہیں ۔ ” اسلام ہمارا دین ہے “ اور سامعین نہ دین کے معنی جانتے ہیں اور نہ اسلام لفظ کی گہرائی سے واقف ہوتے ہیں ۔ اب اپ لاکھ تقریریں کیجیے ۔ سب سر سے گزر جاۓگی ۔ ہاں عقیدت میں سر جھکاکر سبحان اللہ   ماشاء اللہ کے نعرے بلند کرتے رہیں گے ۔ اور پھر جہاں تھے وہیں کھڑے نظر آئیں گے ۔ یہی حال اسلامی لٹریچر کا ہے ۔ وہ لٹریچر جس نے انقلاب برپا کردیا تھا آج غیر موثر ہوگیا  کیوں کہ زبان ہی نہیں آتی ۔ تو پڑھنے میں دل کیا لگے گا اور کیا خاک سمجھیں گے ۔ میں نے مدارس ,ہندی اور انگلش میڈیم کے طلبہ و طالبات پر تجربہ کرکے دیکھا ہے ۔ علامہ اقبال کا شکوہ و جواب شکوہ سمجھنا تو دور کی بات ہے صحیح پڑھ نہیں پاتے تو أثر کیا قبول کریں گے ۔ اس لیے زبان کی بڑی اہمیت ہے اور اس کو محنت کرکے سیکھنا چاہیے ۔ ایک ہندی زبان کا آدمی ” سندرتا اور شانتی “  سے جو اثر قبول کرے گا وہ ” خوبصورتی اور امن وامان “ سے نہیں کر سکتا ۔ اور جب تک لفظ دل کی گہرائی میں نہ اتریں , کوئی انقلاب برپا نہیں ہوتا ۔
7۔ اول و اخر دعاوں کا اہتمام کرنا ۔ دعوت دین کے لیے اللہ سے قلبی تعلق , عبادات کا اہتمام ,فرائض و سنن کے ساتھ نوافل کی پابندی ۔ کہ اس کے بغیر استحکام اور ٹھہراؤ نہیں پیدا ہو سکتا ۔  
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ۔۔۔۔۔۔۔(یہ چند باتیں ایک طالب علم مبشر صاحب کے سوال کے جواب کے طور پر براہ راست موبائیل پر لکھ دیا ہے ورنہ مفصل گفتگو کے لیے الگ سے مضمون لکھنا ہوگا ۔)۔
ڈاکٹر سکندر علی اصلاحی