Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, May 4, 2020

قرنطینہ ‏کی ‏کہانی۔۔۔میری ‏زبانی۔۔۔مفتی ‏محمد ‏ثناءٕ ‏الہدیٰ ‏قاسمی ‏۔


✍️ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار و اڑیسہ و جھاڑکھنڈ/صداٸے وقت 
==============================
گذشتہ چند سالوں سے جن ملکوں کا سفر میری معمولات کا حصہ بن گئے ہیں،ان میں متحدہ عرب امارات بھی شامل ہے،اس سال بھی حسب معمول ۷/مارچ کو اس سفر کا آغاز ہوا،جاتے وقت کرونا وائرس کا چرچا تھا اور بعض ملکوں سے ہلاکتوں کی خبریں بھی آرہی تھیں،پھر ہوا یہ کہ دیکھتے دیکھتے دس دن میں اس بیماری نے ایک سو پچھتر ملکوں میں اپنے بازو پھیلا دیۓ ، مرض بڑھتا گیا اور ملکوں ملکوں تدبیریں بھی بڑھتی چلی گئیں؛ لیکن تدبیریں کارگر نہیں ہوپا ئیں، اور جن ملکوں نے اسے بہت ہلکے میں لیا وہاں موت کا رقص شروع ہوگیا، اٹلی صحت و علاج کے انتظامات کے اعتبارسے پوری دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے، چین کے بعد اس مرض نے اٹلی کو نشانہ بنایا،اور وہاں کشتوں کے پشتے لگ گیۓ،یہ کہیے کہ ساری تدبیریں ناکام ہوگئیں ۔تو وہاں کے حکمراں کو کہنا پڑا کہ ہم نے ساری تدبیریں کر کے دیکھ لیں اب تو اوپر والا ہی کچھ کر سکتا ہے، انسانی فطرت یہ ہے کہ وہ اسباب پر زیادہ بھروسہ کرتا ہے اور جب اسباب نتیجہ خیز نہیں ہوتے تو اسے اوپر والے کی یاد آتی ہے اور واقعہ یہی ہے کہ سب کچھ اسی کے حکم سے ہوتا ہے اور اللہ جب تک نہ چاہے کسی سے کچھ نہیں ہوتا۔ 

ان حالات میں متحدہ عرب امارات بلکہ پوری عرب دنیا نے دینی مراکز، مساجد بلکہ مسجد حرام اور مسجد نبوی تک کو بند کردیا جو اللہ کی مشیت، مرضی اور اس کی تدبیروں کو متوجہ کرنے کی سب سے اہم جگہیں تھیں، طواف موقوف ہوگیا، مسجد نبوی میں نماز اور روضہ اقدس پر سلام پڑھنے والوں کو روک دیا گیا، جن کی شفاعت پر ہماری جنت کا مدار ہے، متحدہ عرب امارات، کویت، قطر، سعودی عرب اور بہت سارے ممالک کا یہی حال رہا، دبئی میں اذان کے کلمات بدل دئیے گئے اور حی علی الصلوٰۃ کے بجائے "الصلوٰۃ فی رحالکم" کے الفاظ اذان میں داخل کردئیے گئے، ابو ظہبی نے اذان کے کلمات میں تبدیلی نہیں کی ؛ البتہ اذان کے بعد دوبار "صلوا فی بیوتکم" کا اضافہ کیا، مسجد کے باہری حصے سے بھی قالین کو اٹھا دیا گیا؛ تاکہ کوئی یہاں آکر نماز نہ پڑھنے لگے، پنج وقتہ نمازوں کا جب یہ حال ہوا تو جمعہ بھی پابندی کے زد میں آیا، پہلے جب جماعت سے نماز مساجد میں بند نہیں ہوئی تھیں، جمعہ کی نماز بھی دس منٹ کے اندر ادا کرلینے کی حکومت کی جانب سے ہدایت تھی، اذان کے بعد بھی مسجد نہیں کھلتی تھی اور بوقت نماز دروازہ کھولا جاتا تھا، عمومی احوال یہی تھے؛ البتہ بعض مسجد والے اس کی پابندی نہیں کرتے تھے یہ دوسری بات ہے، جب جماعت بند ہوئی تو جمعہ کی نماز  بھی ختم، جن مساجد اور اس کے ملحقات کے تالے خراب تھے، سب کو صحیح کروایا گیا، اور اب ساری مسجدیں بند پڑی ہیں، مصیبتوں کے وقت جہاں پناہ لینے اور جدھر کا رخ کرنے کی ہدایت دی گئی تھی اب ادھر کا رخ کوئی نہیں کرسکتا۔ 
مسجدیں بند ہو گئیں؛ لیکن آمدورفت کے وسائل مارکیٹ، مول اور بگ بازار بند نہیں ہوۓ ، جہاں لوگوں کا ازدحام ہوتا ہے، اور وائرس پھیلنے کا زیادہ امکان ہے، میرے آنے تک یہی صورت حال تھی؛ لیکن آگے کاروائی کے امکانات کا چرچا چل رہا تھا اور پھر ہوا یہ کہ مختلف ملکوں کی پروازیں بند کی گئیں، میرا ٹکٹ واپسی کا جس فلائٹ سے تھا وہ بھی کینسل ہوگیا؛ چنانچہ ایک روز قبل کا ٹکٹ لیا گیا، دبئی ایرپورٹ سے بخیرو خوبی گذر گئے وہاں ضروری کاغذات چیک کئے گئے، ائر انڈیا کی فلائٹ AI996 نے وقت سے کوئی پندرہ منٹ پہلے صبح کے ساڑھے چار بجے اندرا گاندھی انٹرنیشنل ائیرپورٹ دہلی کے ٹرمنل ۳ پر چھوڑ دیا اور اب آزمائش کا نیا دور شروع ہوا۔ 
سب سے پہلے تھروپی اسکیننگ کی لائن میں لگنا ہوا، جہاں اسکیننگ کے بعد محکمہ صحت نے اطمینان کے بعد آگے بڑھنے دیا، یہاں دو مریض شناخت میں آئے جن کو فوراً کرونا کے مریضوں کا خصوصی لباس پہنا کر ہوسپیٹل  لے جایا گیا، یہاں سے ہم لوگوں کو نکل کر ایمیگریشن کاؤنٹر پر جانا تھا؛ لیکن کئی ہزار کی بھیڑ میں تھوڑا تھوڑا کرکے ہی جانے دیا جارہا تھا، اس طرح یہاں پر دو گھنٹے کم و بیش انتظار کرنا پڑا، بڑی مشکل سے ایمی گریشن کاؤنٹر پر جانے کی اجازت ملی تو دن کے دو بج چکے تھے، اتنی دیر تک مسلسل کھڑے رہنا اور ایک دوسرے کے قریب رہنا یہ خود کرونا وائرس کے منتقل کرنے کا سبب ہوسکتا ہے؛ لیکن حکومت جو باہر ملنے جلنے پر پابندی عائد کرتی ہے وہاں حفظان صحت کا کوئی خیال کسی بھی درجہ میں اس نے نہیں رکھاتھا، میرا خیال ہے کہ ائیرپورٹ کا یہ مقام مرض کے پھیلنے کے اعتبار سے سب سے زیادہ خطرناک ہے، جس کی حکومت کو کوئی فکر نہیں تھی۔ کھانے پینے کا سامان بھی دستیاب نہیں تھا، ایک مشین لگی تھی جس سے چپس، جوس اور کرکرے نکالے جاسکتے تھے؛ لیکن اس پر بھی کافی بھیڑ تھی اور ہم جیسے لوگوں کے لئے اس کا حصول آسان نہیں تھا، کسی کسی طرح جوس کا ایک بوتل نکال پایا، شوگر کے مریض کے لئے بس اس قدر کافی تھا، کچھ جان میں جان آئی۔ 
ایمی گریشن سے نکلے تو دس دس کا گروپ بنا دیا گیا، پاسپورٹ ایمیگریشن کاؤنٹر پر  کارندوں نے رکھ لیا، میرے گروپ کا نمبر ۴۳ تھا، یہاں بھی ایک ہال میں روکا گیا، ابھی سترہ نمبر گروپ آگے جارہا تھا، اس کا مطلب ۴۳ والوں کو دیر تک رکنا پڑا، یہاں کا عملہ پہلے عملہ سے اچھا تھا، لوگوں کی بھیڑ میں اس نے میرے بارے میں اعلان کیا کہ اس بزرگ کے لئے کوئی اپنی کرسی خالی کرے گا کئی لوگ اٹھ گئے اندازہ ہوا کہ اس پریشانی میں بھی اخلاقیات ابھی ہندوستانی تہذیب کا حصہ ہے، میرے بیٹھانے کے بعد اس نے پھر اعلان کیا کہ عورتوں کو جگہ دینے کے لئے کون تیار ہے، کئی لوگ کرسی چھوڑ کر فرش پر بیٹھ گئے اور عورتوں کو اپنی جگہ دیدی، یہاں بھی کافی دیر رکنا پڑا، اس سے آگے بڑھے تو سامان والا ہال تھا، یہاں بھی ہزاروں کی تعداد میں سامان لے کر لوگ آگے جانے کے منتظر تھے، اس ہال میں جانے کے لئے میرے انیس افراد پر مشتمل گروپ کو چھیاسی نمبر الاٹ کیا گیا، ایک پولیس والے کے حوالے ہم سب کے پاسپورٹ کردئیے گئے، یہاں سامان لیا، سامان ہی کیا تھا، سات آٹھ کلو کا ضروری کپڑے وغیرہ کا ایک بیگ آسانی سے مل گیا، معلوم ہوا کہ میڈیکل کیمپ تک جانے والوں کا ابھی پچاسواں نمبر چل رہا ہے اور چھیاسی تک پہنچنے میں دو سے تین گھنٹے لگیں گے، گھڑی دیکھی، شام کے پانچ بج چکے تھے، اس پوری جگہ میں کھانے پینے کا کوئی ہوٹل نہیں تھا اور سارے مسافر بھوکے پیاسے ہی اتنا وقت گذار چکے تھے، کیا بیت رہی ہوگی اس کا اندازہ بآسانی کیا جاسکتا ہے، ہم کھانے پینے کا کچھ سامان  لے کر چلنے کے عادی کبھی نہیں رہے، اس لئے اس صورت حال نے پریشانی میں مزید اضافہ کیا۔ 
اللہ اللہ کرکے میڈیکل چیک اپ کے ہال میں نو بجے رات کو داخلہ کی نوبت آئی،ہوائی جہاز پر ہی ایک فارم بھرواکر تفصیلات دو کاپی میں لی گئی تھی، ایک کاپی ایمیگریشن والے نے رکھ لی اور دوسری پولیس والے نے میرے پاسپورٹ کے ساتھ پیش کردی، کوئی علامت نہیں تھی، الحمد للہ اسکیننگ بھی صحیح تھی، مگر شوگر اور پاسپورٹ میں درج چھپن سال عمر دیکھ کر میڈیکل افسر نے فیصلہ کیا کہ آئی سو لین کے لئے ہوٹل جانا پڑے گا، الگ تھلگ رہنا پڑےگا، یہ سن کر مجھے پسینہ آگیا، ایک شاک سا لگا؛ لیکن دوسرے منٹ میں دل و دماغ یہ سوچ کر قابو میں تھا کہ اس عمل کی وجہ سے مجھے اطمینان ہوجائے گا اور اپنے گھر والوں اور دوسروں کو محفوظ رکھنے کے لئے بھی یہ مفید ہوگا، گھڑی دیکھی، رات کے دس بج گئے تھے، یعنی کل سترہ گھنٹے ائیرپورٹ پر گذر چکے تھے، میرے ساتھ کل تیرہ لوگ تھے، جن میں چار خواتین تھیں، ایک بڑی اے سی بس میں ہم لوگ مع سامان بیٹھا دئیے گئے، بس دہلی کے سڑکوں پر دوڑتی رہی، آگے آگے پولیس کی گاڑی سائرن بجاتے ہوئے چل رہی تھی، کئی جگہ رکی، کئی جگہ سے ہم لوگ واپس ہوئے، شاید بس والے کو راستہ نہیں معلوم تھا اس لئے سڑک پر بھٹکتے رہے، بالآ خر رات کے ساڑھے گیارہ بجے ہم لوگ نوئیڈا سکٹر۳۹ اے پہنچے اور یہاں ڈسٹرکٹ ہوسپیٹل کے گیسٹ ہاؤس کی تیسری منزل پرروم نمبر ۳اےکے بیڈ نمبر ۲پر پہونچا دئیے گئے، ایک کمرہ میں دو آدمی کو رکھا گیا، میرے ساتھ ایک سردار  سکھ چین سنگھ بھی اسی کمرہ میں ہیں، اچھے ہیں، اخلاق بات بھی اچھا ہے، ہم دور دور سے ہی مختلف امور پر گفتگو کررہے ہیں، ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں۔ یہ ایک اٹھارہ منزلہ عمارت ہے،جس میں اسی لوگوں کو کورنٹائن کیا گیا ہے، عمارت کی ساخت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی تعمیر "ڈسٹرکٹ ہوسپیٹل نوئیڈا کے اسٹاپ کے لئے کی گئی ہے،جو اس کے متصل ہی واقع ہے،ہر کمرہ میں غسل خانہ اور بیت الخلاء اٹیج ہے،ایک بلاک چار کمروں کا ہے،ہر منزل پر دو بلاک ہے ، ہر بلاک کے درمیان میں ایک باورچی خانہ اور ایک ڈائنگ اسپیس ہے ، ہم لوگوں کو عمارت کے اندر اٹھارہ منزل تک گھومنے لوگوں سے دور دور سے بات کرنے کی اجازت ہے،البتہ اس عمارت سے باہر نہیں نکل سکتے،نیچے پولس کا سخت پہرہ ہے،اور مرکزی دروازہ پر لوہے کا بڑا گیٹ ہے،اور پولس کے جوان بڑی تعداد میں مستعد نظر آتے ہیں۔
دوا کچھ نہیں، جانچ کچھ نہیں، اس کمرے میں پڑے رہیے، صبح فجر بعد چائے بسکٹ آجاتی ہے، دس بجے کے قریب ناشتہ آتا ہے، ڈھائی بجے کھانا، چار بجے شام میں ناشتہ چائے ،پھر رات کے نو بجے کھانا، جو سہولتیں اچھے ہوٹلوں میں دستیاب ہوتی ہیں وہ سب موجود ہیں، کولگیٹ برش، تولیہ، صابن اور جو ضرورت ہو سب مہیا ہے، میری شوگر کی دوا ختم ہوگئی تھی وہ بھی ان لوگوں نے لاکر دی،زندگی مزے سے کٹ رہی ہے، اپنوں سے کٹ کر قید تنہائی کا احساس ابھرتا ہے؛ لیکن سردار جی ہیں، میرے پاس کاغذ قلم ہے، انٹرنیٹ ہے، وہائس ایپ چل رہا ہے، احباب و رفقاء اور گھر والے موبائل پر دستیاب ہیں، اللہ کو یاد کرنے کا بہتر موقع ہے اور کیا چاہیے، مولانا محمد علی جوہر کا ایک شعر ذہن میں برابر گردش کرتا ہے، آپ بھی پڑھ لیجئے۔ 
تنہائی کے سب دن ہیں، تنہائی کی سب راتیں 
اب ہونے لگی ان سے خلوت میں ملاقاتیں 
اور خواجہ عزیز الحسن مجذوب کا یہ مصرعہ زبان پر آتا ہے
ع
 اب تو آجا اب تو خلوت ہوگئی

خلوت کے اس حسین اور لطف انگیز سلسلے کو سرکاری لوگوں کے فون توڑ کر رکھ دیتے ہیں،روزانہ پندرہ سولہ دفاتر سے فون آتے ہیں کہ آپ کیسے ہیں؟کہاں ہیں؟آپ کا سمپل جانچ کے لئے چاہیے آپ محکمہ کا تعاون کیجئے،ڈی ایم،اس پی،ڈی اس پی،اس اس پی،خفیہ وبھاگ،پٹنہ پی ایم سی ایچ،پھلواری تھانہ،پھلواری بلاک،پھلواری ہوسپیٹل ،ڈبلو ایچ او،(سبھی پٹنہ) نوئیڈا کورونا سنٹر،اترپردیش کورونا سنٹر والوں کے فون روزانہ اس کثرت سے آتے کہ اگر میری قوت  ارادی مضبوط نہیں ہوتی تو بقول راحت اندوری"یاروں نے  مجھے پوچھ پوچھ کر بیمار کردیا"والی کیفیت پیدا ہوجاتی،جب ان لوگوں کو صورت حال سے واقف کراتا تو چین کی سانس لیتے،اندازہ ہوا کہ سرکاری سطح پر مختلف شعبوں میں کام کرنے والوں میں تال میل کی کمی نے یہ صورت حال پیدا کردی تھی،حالانکہ اگر یہ رپورٹ دوسرے کو فراہم کرتے رہتے تو کام زیادہ منظم ہوتا ، اور اس قدر افرا تفری نہیں مچتی، لیکن کیا کیجئے سرکاری کام اسی طرح ہوا کرتا ہے۔
سرکاری کام کا ذکر آیا تو میں قرنطینہ کے حوالے سے یہ بتاتا چلوں کہ ہم لوگ جہاں تھے اس کی خدمات مثالی تھی،ایک لانبی زندگی اللہ کے فضل سے میں نے گذاری ہے لیکن سرکاری محکموں میں اتنی مستعدی کہیں اور کبھی دیکھنے میں نہیں آئ،قرنطینہ مرکز کا نگراں مسلسل خیریت پوچھتا رہتا کہ کوئی پریشانی تو نہیں،کسی چیز کی ضرورت تو نہیں،ناشتہ پہنچا یا نہیں، کھانا آیا یا نہیں، شاید یہ یوگی کے سخت گیری کا اثر ہو، جنہوں نے تھوڑی کوتاہی پر معائنہ کے موقع سے ڈی ایم کا کھڑے کھڑے تبادلہ کر دیا تھا۔
میں ایک طرف سرکاری محکموں کی طرف سے آنے والے فون سے پریشان تھاتو دوسری طرف بعض ایسے احباب و رفقاء اور متعلقین تھے جو فون سے بھی بات کرنے سے گریز کرتے تھے،انہیں ڈر تھا کہ فون کرنے سے کہیں کورونا برقی رو سے ان تک نہیں پہنچ جائے یا پھر مجھ سے تعلق کی بنیاد پر انہیں بھی کرونٹائن نہ کردیا جائے،ایسے لوگوں کی ایک لمبی فہرست ہے ، وہم بھی ایک بیماری ہے ، جس کو لگ جاتی ہے وہ نفسیاتی طور پر مریض ہوجاتا ہے، ظاہر ہے ہمارے حلقے  میں بڑی تعداد ان لوگوں کی بھی ہے جو مجھ سے محبت رکھتے ہیں اور مجھے ٹوٹ کر چاہتے ہیں، ایسے لوگوں کی مزاج پرسی نے بھی حوصلہ بڑھانے میں بڑا کام ہے،حضرت امیر شریعت مفکر اسلام مولانا محمد ولی رحمانی صاحب کی دعائیں بھی کام کرتی رہیں،اور زندگی کے شب و روز گذرتے رہے۔

۳/اپریل کا دن اس اعتبار سے خاص تھا کہ اس دن ہم لوگوں کے حلق اور ناک کی رطوبت جانچ کے لئے لی گئی اور پھر شروع ہوا انتظار،کوئ علامت نہیں، پھر بھی مشین کیا دیکھا دے،کہا نہیں جاسکتا، امیدو بیم اور خوف و رجاء کی  کیفیت سے چار روز دوچار رہا ،۷/اپریل کو رپورٹ آئ کہ اس پوری بلڈنگ کے سب لوگ نگیٹوہیں،مجھے بھی بلا کر پاسپورٹ اور سرٹیفکیٹ تھما دیاگیا،محی الدین سمستی پور کے شرما جی تھے،انہوں نے ایک گاڑی ٹھیک کی تھی اور طے ہوا کہ چھوٹنے کے بعد ہم لوگ ریزرو گاڑی سے گھر کے لئے روانہ ہو جائیں گے،لیکن اسی زمانہ میں  تبلیغیوں کے حوالہ سے نفرت کا ماحول پیدا کردیا گیا تھا اور داڑھی ٹوپی والے پولس ، ذرائع ابلاغ اور سیاستدانوں ہی کے نہیں،عوامی نفرت کا بھی سامنا کررہے تھے،ایسے میں تمام احباب کی رائے ہوئ کہ دہلی میں ہی قیام کیا جاۓ اور بذریعہ سڑک اتنے  طویل سفر سے گریز کیا جائے، شرما جی کا میرے ساتھ پاسپورٹ اور رپورٹ نہیں آئ تھی ایسے میں ایک دن اور رک کر کے سفر ہوسکتا تھا،لیکن میں نے دہلی میں قیام کا فیصلہ کرلیا۔
دہلی میں کہاں قیام ہو یہ ایک سوال تھا،چند روز قبل ہی سے رہنماے حج و زیارت کے مصنف حاجی محمود عالم اپنا فلیٹ رہائش کے لئے دے رہے تھے،کھانا پکانے کے لئے خادم بھی موجود تھا،شجاع الدین صاحب  کے ذریعہ بھی ایک فلیٹ مل رہا تھا،ایک پیشکش چچا زاد بھائی وسیم الہدیٰ کی بھی تھی کہ آپ میرے یہاں آجائے ، بہت غور وفکر کے بعد وسیم الہدیٰ کے یہاں قیام کا فیصلہ کیا کیوں کہ فلیٹ کی تنہائی پھر ہمیں ڈس لیتی ۔

پاسپورٹ پکڑانے کے بعد قرنطینہ والوں کی ذمہ داری ختم ہوگئی، کہاں جائیں گے ؟ کیسے جائیں ؟ گے یہ قرنطینہ سے آزاد ہونے والوں کا درد سر تھا ، دہلی سے کوئی گاڑی یوپی کی سرحد میں داخل نہیں ہو سکتی تھی،نوئیڈا سے نکلیں تو دہلی کی سرحد بھی سیل ، ایسے میں میاں اظہار الحق  یاد آۓ ، جو بحرین سے آکر خود بھی دہلی میں پھنسے ہوئے تھے،بہر کیف انہوں نے اپنے اثر و رسوخ سے مولانا اعجاز شاہین کو نوئیڈا بھیجا ،ان کے پاس گاڑی کا فوڈ سپلائی کا پاس تھا ، وہ لے کرکے مجھے بٹلہ ہاؤس عزیزم وسیم الہدیٰ کے یہاں چھوڑ گئے۔
تب سے یہیں پڑا ہوں،وسیم الہدیٰ ، ان کی اہلیہ، ان کے تینوں بچے بچیاں نوشین،عمار اور آبش خدمت میں لگے رہتے ہیں،ایسی خدمت جس میں خلوص ، محبت اور عقیدت کا عنصر غالب ہے،ایک اور جوان افروز عالم عرف حمزہ ہیں ، وسیم الہدیٰ کے ساڑھو کے لڑکاہیں ، وہ بھی خدمت کو اپنے لئے سعادت سمجھتے ہیں،ایسےمحبت کرنے والے کم ملتے ہیں، اور بڑے نصیبے سے ملتے ہیں۔
زندگی ایک چارپائی تک محدود ہوکر رہ گئی ہے،حوائج ضروریہ اور وضو کے لئے چارپائی چھوڑتا ہوں،ایک ماہ یہاں ہونے کو آرہے  ہیں ، لیکن پاؤں نے چپل کا منھ نہیں دیکھا ، کمرے سے باہر نہیں نکلا، چٹکی دھوکر کھانا کھانے والی مثل پورے طور پر صادق آتی ہے،تراویح میں گھر کے لوگوں کو قرآن سناتا ہوں، یہی ایک کام ہے جو اللہ کے فضل سے انجام پارہا ہے۔
اس  فرصت میں اپنی آب بیتی"یادوں کے قافلے"کی تکمیل بھی ہوگئ ہے،چچا غالب کو کلکتہ جانے کے لئے برسات کی چھینٹوں کا انتظار تھا اور مجھے اس "پاس "کا انتظار ہے جس کے سہارے میں اپنے خاندان میں پہونچ سکوں۔دیکھیۓ کب مراد بر آتی ہے ۔آپ بھی دعا کیجئے ہم بھی دعا کرتے ہیں ۔