Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, May 8, 2020

ہندوستان میں سماجی ، سیاسی و مذہبی تحریکات اور خواتین کی نمائندگی۔

اگر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور مسلمانوں کی دیگر اہم تنظیموں نے خواتین کو بھی اپنے مشن اور منصوبوں میں شامل کیا ہوتا ، تو ملک کا نقشہ بالخصوص مظلوم مسلمانوں کی صورت حال آج مختلف ہوتی ۔
شاذیہ قدواٸی۔

از/طارق قمر .نیوز 18 اردو /صداٸے وقت۔
=============================
سماجی ، سیاسی اور مذہبی سطح پر کوئی  بھی بڑی تبدیلی لانے یا  کسی اہم تحریک کو کامیاب بنانے  کے لئے مرد ایک اہم اور بنیادی رول ادا کرتے ہیں ، لیکن وہ تحریکات اور مہمیں زیادہ کارگر اور نتیجہ خیز ثابت ہوتی ہیں ، جن میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کی شرکت و شمولیت اور نمائندگی کو بھی یقینی بنایا جاتا ہے ۔ معروف سماجی تنظیم تحریک نسواں کی نائب صدر شاذیہ قدوئی کہتی ہیں کہ کسی بھی تحریک کی کامیابی کے لئے اس میں خواتین کی شمولیت اتنی ہی ضروری ہے جتنی کہ مردوں کی ۔
آج مختلف حوالوں سے سماجی منظر نامے کو بہتری کے لئے تبدیل کرنے کی بات کی جارہی ہے ۔ بالخصوص کورونا وبا کے ان حالات میں سماج کو تعصب اور فرقہ پرستی سے بچانے کے لئے مختلف تنظیموں اور ملی و سماجی اکابرین کی جانب سے جو کوششیں کی جارہی ہیں ، اگر ان میں خواتین کو معقول تربیت کے ساتھ مناسب نمائندگی دی جائے ، تو کامیابی مل سکتی ہے ۔ شازیہ کہتی ہیں کہ ہم نے خواتین ہرسنل لا بورڈ ، ایپوا ، بزمِ اردو اور کئی دیگر تنظیموں کی خواتین کے ساتھ تبادلہ خیال کرنے کے بعد یہ طے کیا ہے کہ علی گڑھ مسلم اولڈ بوائز ایسو سی ایشن اور شولڈر ٹو شولڈر کے اشتراکی پلیٹ فارم سے اب فرقہ پرست طاقتوں کو شکست دینے کے لئے خواتین کو میدان عمل میں اتارا جائے گا اور یہ اپنی سماجی و مذہبی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے ایسے اقدامات کریں گی ، جن سےنئی نسل مین بیداری و اتحاد کی راہیں ہموار ہو سکیں ۔
معروف سماجی کارکن اور وقف و این آر سی جیسی اہم تحریکات سے جڑی رہی شبہہ فاطمہ کہتی ہیں کہ اگر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور مسلمانوں کی دیگر اہم تنظیموں نے خواتین کو بھی اپنے مشن اور منصوبوں میں شامل کیا ہوتا ، تو ملک کا نقشہ بالخصوص مظلوم مسلمانوں کی صورت حال آج مختلف ہوتی ۔ لیکن علما اور دانشوروں نے ہمیشہ خواتین کو ناقص العقل کے خام تصور کے ساتھ نظر انداز کیا اور ان کی صلاحیتوں پر یقین کرنے کی بجائے انہیں چہار دیواری میں قید کردیا ، جب کہ دوسری قوموں اور مذاہب کے لوگوں نے ڈور ٹو ڈور مشن کے مخصوص منصوبوں میں خواتین کی خدمات سے انقلاب برپا کیا اور حکمرانی بھی حاصل کی ۔ شبیہ فاطمہ کہتی ہیں کہ ملک سے فرقہ پرستی اور منافرت کو مٹانے کے لئے جو تحریکات چلائی جا رہی ہیں ، ان میں عورتوں کی شرکت لازمی ہونی چاہئے ۔ کیونکہ موجودہ وقت میں آدھی زمین اور آدھے آسمان کو چھوڑ کر مکمل ترقی کے خواب کیسے دیکھے جاسکتے ہیں ۔